آزادکشمیر کے سینئر ترین سرکاری افسر جناب طارق مسعود گزشتہ دنوں اچانک اسلام آباد میں رحلت کر گئے۔ ان کا تعلق اس نسل سے تھا جس نے تقسیم ہند اور جموں وکشمیر کے سینے پر تقسیم کی لکیر ابھرنے کے مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ مہاجرت کے دکھ اٹھائے۔ محنت ریاضت اور جستجو سے کامیابیوں اور کامرانیوں کے اعلیٰ مدارج حاصل کیے۔ ان کے ساتھ کام اور سفر کرنے کا موقع ملا تو بہت کچھ سیکھا اور سمجھا۔ خاص طور پر ہمارا جموں کا سفر بہت تاریخی اور یادگار تھا۔ اس سفر میں پہلی بار یہ دیکھنے اور محسوس کرنے کا موقع ملا کہ اپنی مٹی سے بچھڑنے کا رنج کس قدر گہرا اور تکلیف دہ ہوتاہے۔طارق مسعودنے جموں شہر میں جنم لیا۔ نوبرس کے تھے کہ شہر ہی نہیں بلکہ پورا خطہ فسادات کی زد میں آ گیا۔ انہیں خاندان کے ہمراہ سیالکوٹ ہجرت کرنا پڑی۔ والد ڈاکٹر رحمت اﷲ ایک صاحب ثروت اور ایثار کیش انسان تھے۔جنہوں نے نقل مکانی کے بعد اپنی ساری زندگی لوگوں کی خدمت اور اولاد کی تعلیم و تربیت کے لیے وقف کردی۔ ہونہار فرزند طارق مسعود کو اعلیٰ تعلیم دلائی ۔جس کی بدولت وہ آزاد کشمیر کی سول سروس کے ایک طلسماتی کردار بن کر ابھرے۔ اپنی لیاقت، محنت اور احساس ذمہ داری نے طارق مسعود کوکئی دہائیوں تک تمام حکومتوں کی ضرورت بنائے رکھا۔ اسسٹنٹ کمشنر سے لے کر ایڈیشنل چیف سیکرٹری تک تمام عہدوں پر فائز رہے۔ سردارسکندر حیات، سردار عبدالقیوم خان اور بیرسٹر سلطان محمود چودھری کے ساتھ پرنسپل سیکرٹری رہے۔ایک بھرپور زندگی گزاری۔ کچھ برس قبل جموں سے بلراج پوری اسلام آباد تشریف لائے تو ڈاکٹر فاروق حیدر نے اپنے گھر کچھ دوستوں کو کھانے پر مدعو کیا۔ ہم لوگ بلراج پوری صاحب سے سیاسی موضوعات پر گفتگو کرتے مگر طارق مسعود کی گفتگو کا موضوع بالکل مختلف اور انوکھا تھا۔ وہ پوچھتے تھے کہ کنک منڈی اور استاد کے محلے میں کتنے نئے گھر تعمیر ہوئے۔ دریائے توی کے کنارے گرمیوں میں لوگ جمع ہوتے، پکنک مناتے اور آم کھاتے تھے اب کیاسماں ہے؟ جموں شہر توی کے دائیں جانب پھیلا ہے یا بائیں۔ جموں کے ممتاز ایڈیٹر اور سماجی رہنما ویدبھیسن اسلام آباد تشریف لائے تو طارق مسعود نے اپنے گھر میں ان کے اعزاز میں ایک محفل برپا کی۔ اس موقع پر ہر کسی نے انھیں بے حد مسرور پایاوہ خلاف معمول چہک رہے تھے۔ کھانے پینے اور مہمانوں کی آؤ بھگت میں اس قدر منہمک کہ اہل خانہ بھی حیرت زدہ تھے ۔ محفل میں بھی ذکر صرف جموں اس کے کلچر اور تاریخ کا ہوتارہا۔ حسن اتفاق تھا کہ سنٹر فار ڈائیلاگ اور ری کنسیلشین دہلی نے جموں میں انٹرا کشمیر ڈائیلاگ کا ایک اجلاس رکھا تو طارق مسعود کا نام بھی شرکاء کی سر فہرست میں شامل تھا۔ انہیںمبارک باد دی کہ وہ اپنے شہر جا رہے ہیں۔ ویزا ٹکٹ اور روانگی کے تمام مراحل طے کرنے میں پندرہ دن لگے ہوں گے مگر کوئی دن ایسا جاتا نہیں تھا جب طارق صاحب فون نہ کریں اوریہ نہ پوچھیں کہ پروگرام میںکوئی تبدیلی تو نہیں ۔ اس سفر کے ساتھ ان کی دیوانگی میرے لیے انوکھا مگر چشم کشا تجربہ تھی۔ اسلام آباد سے لاہور اور پھر جموں تک کا سفر بھی بڑا دلچسپ تھا۔ ہمسفروں کی توجہ کا مرکز طارق مسعود کی ذات تھی وہ کبھی کبھی بچوں کی طرح خوشی کے ساتھ لوٹ پوٹ ہو جاتے اور کبھی اپنے بچپن کی یادیں ٹٹولنے لگتے۔ حیرت کی بات ہے نو برس کے بچے کو اپنا ایک ایک کلاس فیلو، سکول کے استاد اور محلے کے لوگ یاد تھے۔ ہر کوئی ان کی بلا کی یادادشت کی داد دیتا کہ انہوں نے جموں اور اس کی ایک ایک یاد کو سینے سے لگائے رکھا۔ جموں پہنچے تو وہاں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں اور مقامی لوگوں میں طارق صاحب کا خوب چرچاہوچکا تھا۔ اہل جموں سے ملتے ہی انھوں نے اعلان کیا:لو جی۔میں ۵۸ برس پانچ ماہ اور پانچ دنوں بعد اپنے گھر لوٹ آیا ہوں۔ ہر کسی کے چہرے پر بیک وقت مسکراہٹ اور رنج کے آثار نمودار ہوئے۔طارق مسعود کی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑئے۔ یہ سوال بجلی بن کر دل و دماغ میں کوندا کہ طارق مسعود کے ۵۸ گم شدہ برسوں کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ اپنا حساب کس سے مانگیں؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسے ہزاروں بچے ہیں جن کا بچپن اور لڑکپن ان سے چھن گیا۔ جب ان کے اٹکھیلیاں کرنے کے دن تھے انہیں نقل مکانی کے کرب سے گزرنا پڑا ۔ ان کے پاس بچپن کی معصوم یادوں کے بجائے ناقابل فراموش مگر پرتشدد واقعات کی داستانیں ہیں۔ لداخ کے معروف دانشو ر ڈاکٹر صدیق واحد نے بڑا کا کہنا تھا ہمیں ماضی کو فراموش کرنے کی ضرورت نہیں مگر ہمیں اپنی نئی نسل کی خاطر ایک دوسرے کو معاف کر دینا چاہیے۔ اگلی صبح طارق مسعود ایک آٹو رکشا لے کر سیدھے اپنے گھر جاپہنچے۔ بغیر کسی گائیڈ کے وہ اپنے گھر کے صدر دروازے پر کھڑے تھے۔ تصویریں اتار رہے تھے تو انہیں ایک پرانے محلے دار نے گھیر لیا ۔ طارق صاحب کو چائے پلائے بنا جانے کی اجازت نہ دی۔ جموں کی ایک ایک سڑک اور محلہ طارق مسعود نے پیدل چل پھر کر دیکھا۔ ایک ایک بات کو کریدا۔ ایک ایک جاننے والے کے بارے میں پوچھا۔ اپنے سکول ماڈل اکیڈمی گئے جو اب یونیورسٹی لیول کا ادارہ بن چکاہے۔ وہاں انھیںمعلوم ہوا کہ کون سا کلاس فیلو زندہ ہے اور کون دنیا سے کوچ کر گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ طارق مسعود کی اپنی ایک کلاس فیلو خاتون سے ملاقات ہو ئی تو دونوں نے بچپن کے دنوں کو خو ب یادکیا۔ استادوں، لڑکوں اور محلے والوں کی غیبت کا سیشن برپا کیا تو سننے والوں نے محفل کا بھرپور لطف آٹھایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان پانچ دنوں میں طارق صاحب کے بھائی، بہنیں، بچے اور بھتیجے مسلسل ان سے رابطے میں رہے۔ وہ انہیں جموں کے بارے میں لائیومعلومات فراہم کرتے رہے۔ بہت سارے دیگر لوگوں کی طرح اب ان کا خاندان بھی کسی ایک جگہ آباد نہیں بلکہ دنیا کے مختلف خطوں میں پھیل چکا ہے لہٰذا کبھی لندن سے فون آتا تو کبھی جدہ سے اور یہ سلسلہ پورے پانچ دن تک چلتا رہا۔ ہر ایک اپنے جموں کو یاد کرتا۔جدائی کے دکھڑے گزرے دنوں کی ہوش رباکہانیاں سن کر سمجھ آتی کہ اپنا وطن اور خاندان کس قدر بڑی نعمت ہے۔ واپس واہگہ سرحد عبور کی تو طارق مسعود کہنے لگے زندگی کے تمام خواب پورے ہو گئے۔ اب میں ایک مطمئن انسان ہوں جو رب العالمین کا بے پناہ شکر گزار ہے جس نے اسے ایک بھرپور زندگی بسر کرنے کا موقع عطاکیا۔ طارق صاحب خوش قسمت تھے کہ قدرت نے ان کی تمام حسرتیں پوری کیں اور خواب شرمندہ تعبیر کیے، مگر ہزاروں افراد جموں دیکھنے کی حسرت لئے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کا سوچتاہوں تو دل میں ایک ہوک سے اٹھتی ہے۔