پاک فوج کے اساطیری فرزند بریگیڈئیر سلطان کہا کرتے : دشمن اتنا ہی بزدل ہوتا ہے۔ جتنے آپ بہادر اور دشمن اتنا ہی بہادر ہوتا ہے جتنے آپ بزدل ،طاقت ایک نفسیاتی چیز ہے ۔ جنگ کی آرزو نہ پالنی چاہئیے ۔ سیدنا عمر فاروقِ اعظمؓ نے کہا تھا : میں چاہتا ہوں کہ ایران اور عرب کے درمیان آگ کی ایک دیوار حائل ہو جائے ۔ جدید جنگیں اور بھی ہولناک ہوتی ہیں ۔جنگِ بدر کے ہنگام، سیدنا بلالِ حبشیؓ نے اعلان کیا تھا :کھیت نہیں جلایا جائے گا، فصل نہیں کاٹی جائے گی ۔ عورت ، بچے اور بوڑھے پر ہاتھ نہیں اٹھایا جائے گا ۔ کارخانے میں کام کرتے مزدور اور کھیت میں مصروف کسان پر بھی نہیں ۔ پروردگار کو زندگی عزیز ہے ۔ فرمایا: ایک آدمی کو جس نے قتل کیا اس نے تمام بنی نوع انسان کو ہلاک کیا ۔ ایک آدمی کی جس نے جان بچائی تو تمام انسانیت کو اس نے بچا لیا ۔ روزِ ازل مگر ارشاد یہ بھی تھا کہ دنیا میں تم میں سے بعض بعض کے دشمن ہوں گے ۔ امن ہی آدمی کی آرزوہوتی ہے لیکن جنگوں سے مفر بھی نہیں ۔ غلبے کی طاقتور انسانی جبلت اقوام میں بھی اسی طرح کارفرما ہوتی ہے ، جیسے افراد پر ۔ کونسلر اور تھانیدار بننے کے لیے بھی آدمی کیا کیا پاپڑ بیلتے ہیں کہ حکم چلا سکیں ۔ اپنی انا کو گنّے کا رس پلا سکیں ۔ ایک ہزار برس تک مغلوب رہنے والا بھارت پاکستان کے درپے ہے ۔سات سو برس تک مسلمانوں نے ہندوستان پر حکومت کی اور پھر انگریزوں نے ۔ ایک ہزار برس کے بعد حاصل ہونے والی آزادی اور معاشی ارتقا نے برہمن کو جذباتی عدمِ توازن سے دوچار کر دیا ہے ۔ پاگل پن اس پہ سوار ہے ،پاگل پن۔ پاگل سے نمٹنے کے لیے اور بھی زیادہ ہوش مندی کی ضرورت ہوتی ہے اور بھی زیادہ حکمت ۔ کانگرسی قیادت اکھنڈ بھارت پہ مصر تھی ۔ نریندر مودی ایسے قاتل کا تو ذکر ہی کیا ، وزیرستان کی سرحد پہ کھڑے مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ ہندوستان کی سرحد بامیان تک ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے آخری ایام تک پاکستان کی شرحِ نمو بھارت سے دوگنا تھی لیکن پھر ہندوستان نے نہرو کے سوشلزم سے نجات پالی ۔ اِدھر پاکستان میں اس جمہوری دور کا آغاز ہو اجو جمہوریت نہیں بلکہ امرا شاہی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ہندو قوم پرستی کا بھوت برسرِ بازار ناچنے لگا۔ احمقوں کے سوا سبھی جانتے ہیں کہ مودی ایک دوسرا ہٹلر ہے ۔ یہ محض شخصیت نہیں ، بلکہ تاریخی عوامل ہوتے ہیں جو ہٹلر اور مودی ایسے کرداروں کو جنم دیتے ہیں ۔ وقت آخر کار انہیں نمٹا دیتا ہے لیکن بیچ کے برس کڑے ہوتے ہیں ۔ قیادت کے بھی ، عوام کے بھی ۔ خوب وہ دن یاد ہے جب روسی افواج کابل میں اتری تھیں اور خوب وہ دن یاد ہے ، امریکیوں نے جب افغانستان کا قصد کیا۔ اتفاق سے میں عمران خان کے ساتھ تھا ۔ ضیاء الحق کے سابق وزیرِ اطلاعات جنرل مجیب الرحمٰن، عمران خان کے ذاتی دوست راشد خان ، بڑبولے مگر یکسو اکبر بابر اور یہ ناچیز۔ ابھی کچھ دیر میں عمران خان کو پی ٹی وی پر جانا اور اظہارِ خیال کرنا تھا۔ عجب بے چارگی کا عالم تھا، جب بحث کا آغاز ہوا ۔ ملک بھر کا حال یہی تھا تیرگی ہے کہ امنڈتی ہی چلی آتی ہے شب کی رگ رگ سے لہو پھوٹ رہا ہو جیسے چل رہی ہے کچھ اس انداز سے نبضِ ہستی دونوں عالم کا نشہ ٹوٹ رہا ہو جیسے جنرل مجیب الرحمٰن نے کہا : یہ حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کا وقت ہے۔ راشد خاں نے تائید کی۔ اکبر بابر نے ڈٹ کر مخالفت کی اور سرخ چہرے کے ساتھ دلائل پیش کرنا شروع کیے ۔ ٹھنڈے ٹھار جنرل مجیب الرحمٰن نفسیاتی جنگ کے ماہر تھے۔بولے: تاریخ میں تاتاریوں کے دور بھی آتے ہیں ۔ ناچیز نے عرض کیا : جی ہاں ، تاتاریوں کے دور آتے ہیں ۔ شہر لاشوں سے اٹ جاتے ہیں لیکن پھر کوئی رکن الدین بیبرس اٹھتا ہے اور تاتاریوں کی بساط لپیٹ دیتا ہے ۔ کوئی بیبرس تو نہ اٹھا ، فوجی پریڈ کے میدانوں میں، مصریوں کی چربی جس نے پگھلا دی تھی ، عام بغاوت ضرور پھوٹ پڑی ۔ آج سترہ برس کے بعد امریکہ افغانستان میں رسوا ہیں ۔افغانستان سے امریکہ اور کشمیر سے بھارت کو چلے جانا ہے ۔ تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ ذہناً کوئی قوم آزاد ہو جائے تو تادیر وہ غلام نہیں رہتی ۔ چند ماہ، چند برس یا چند عشرے ۔ آخر کار آزادی کا تاج اس کے سر پہ جگمگاتا ہے۔ اس کی روح میں بھی ۔ کشمیر میں تیس برس سے جاری آزادی کی تحریک وہاں آن پہنچی ہے کہ اب جھک نہیں سکتی ۔ اہلِ کشمیر کے لیے اب ایک ہی راستہ باقی ہے ، جدوجہد اور ایثار کا راستہ ۔ اللہ کا وعدہ یہ ہے کہ جو قوم ہجرت اور جہاد کرے گی ، لازماً سرخ رو ہو گی ۔ ۔۔اور اللہ کا وعدہ ہی سچا ہے ۔ 27دسمبر 1979ء کی شب میرے خالہ زاد بھائی میاں محمد یٰسین جنرل ضیاء الحق کے مہمان تھے ۔ ملاقات پہلے سے طے تھی ۔ وہ ان کے گھر میں ٹھہرا کرتے اور کبھی مہمانوں کی تعداد زیادہ ہوتی تو فرش پر بستر بچھا کر سوجاتے ۔ اس شب خلافِ معمول میاں محمد یٰسین کو بہت دیر انتظار کرنا پڑا ۔ جنرل صاحب گھر پہنچے تو معذرت کی اور بتایا کہ روسی فوج افغانستان میں اتر آئی ہے ۔ چھ ماہ قبل آئی ایس آئی نے امریکی صدر کی طرف سے اسلام آباد میں اپنے سفارت خانے کو بھیجے گئے پیغام کا سراغ لگایا تھا ؛ ضیاء الحق کے مخالفین کی مدد کی جائے۔ اس پر ضیاء الحق نے جمی کارٹر کو 12صفحے کا خط لکھا، جس میں کہا گیا کہ اُدھر سویت یونین افغانستان میں در آنے کی تیاری کر رہا ہے اور ادھر آپ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے پر تُلے ہیں ۔ امریکی صدر نے اس خط کا کوئی جواب نہ دیا لیکن دسمبر کے آخری ہفتے میںدو سو ملین ڈالر کی پیشکش کی ، جسے ضیاء الحق نے’’مونگ پھلی ‘‘ کہہ کر مسترد کر دیا ۔ جنرل سے پوچھا گیا ،کیا دنیا پاکستان کی مدد کرے گی ؟ ان کا جواب یہ تھا: اگر ہم کچھ کر دکھائیں تو دنیا بھی آن پہنچے گی ۔ آج پھر وہی آزمائش درپیش ہے ۔ آگ ہے ، اولادِ ابراہیم ہے ، نمرود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے جی ہاں امتحاں مقصود ہے ۔ واشنگٹن میں بالاخر کپتان نے امریکیوں کو کھری کھری سنا دیں ۔ کھری کھری سنانے کے لیے حالات سازگار ہیں ۔ پاکستان کو دہشت گرد قرار دینے کا زمانہ بیت چکا ۔ بھارتی دہشت گردی آشکار ہے ۔ اتنی آشکار کہ امریکی سرمایہ داروں کے نمائندہ wall street journalکو بھی ڈیڑھ ماہ میں پندرہ مضامین چھاپنے پڑے ۔ وقت کا دھارا کشمیر اور پاکستان کے حق میں بہہ رہا ہے ۔ عمران خاں اور پاکستانی اسٹیبشلمنٹ مگر ایک بڑی غلطی کر چکے ۔ جنگ سے حتی الامکان بچنا چاہئیے مگر دشمن کو یہ تاثر کبھی نہ دینا چاہئیے کہ جنگ سے بہرحال ہم گریزاں ہیں ۔ جنرل ضیاء الحق اگر ایسا کرتے تو سویت یونین افغانستان سے کبھی واپس نہ جاتا ۔ طالبان ذہنی طور پر پسپا ہو جاتے تو امریکہ ناکام و نامردار نہ ہوتا ۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ خوف ایک ہتھیار ہے ،بعض اوقات جو برتنا ہی پڑتا ہے ۔ پاک فوج کے اساطیری فرزند بریگیڈئیر سلطان کہا کرتے : دشمن اتنا ہی بزدل ہوتا ہے۔ جتنے آپ بہادر اور دشمن اتنا ہی بہادر ہوتا ہے جتنے آپ بزدل ،طاقت ایک نفسیاتی چیز ہے ۔