فرد اور ریاست کے مابین رشتہ ،طاقت ور طبقات کی جانب سے پیداکردہ نان ایشوز کی وجہ سے مزید کمزور ہوتا چلا جارہا ہے۔اگرچہ فرد اور ریاست کے مابین تعلق کی بنیاد کو دیکھا جائے تو یہ ہمیشہ کمزور ہی رہا ہے۔تمام تر قباحتوں کے باوجود یہ تعلق مضبوط ہو سکتا تھا اگر ریاست فرد کی ضروریات کی ذمہ داری بہ خوبی نبھاتی۔ریاست کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ داخلی خارجی محاذ پر فرد کی تمام مادی ضروریات کا خیال رکھے۔سیاست دان ،مولوی ،جاگیردار،گدی نشین ،بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ…پاکستان کی تاریخ یہی طبقے ترتیب دیتے چلے آئے ہیں ، یہی طبقات ہی ریاست کا درجہ رکھتے ہیں۔تاریخ کے جس موڑ پر ان کے مابین گٹھ جوڑ یا پھر فاصلہ پیداہوا،تاریخ کے اُس موڑ پر عام آدمی (جس کی تاریخ میں کوئی حیثیت نہیں)کا سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ عام آدمی مزید پسماندہ ہوا۔مگر عام آدمی سے ہمیشہ حُب الوطنی کا تقاضا کیا جاتا رہا۔درحقیقت عام آدمی اس ’’تقاضے‘‘کا جواز ہے۔عام آدمی کو ملا ہی کیا ہے؟جس کے بدلے ،تقاضا کیا جاتا رہا ؟ تحفظ ، شناخت، عزت،مفید شہری ہونے کا احساس تک ،عام آدمی کو میسرنہیں رہا۔ریاست سے محبت،جڑت تو اُن طبقات کا فرض ٹھہرتا ہے ،جو ملک کی تاریخ ترتیب دیتے ہیں۔آخر ریاست اِن کو سب کچھ دیتی ہے ،جس کا یہ خیال بھی دِل میں لاتے ہیں۔دولت ،شہرت ،طاقت،برتری، تحفظ اور زندگی کے دیگر تمام بلند ترحوالے،اِن کی دہلیز پر رہتے ہیں۔نائین الیون کے بعد کا سماجی مطالعہ اس پہلو کو واضح کرتا ہے کہ عام آدمی کی بے چینی کیا ہے ؟اُس کو کیا تشویش لاحق ہے؟مگر ریاست ،عام آدمی کی بے چینی اور تشویش کو معنی نہیں دیتی۔عام آدمی اُس جڑی بوٹی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ،جو فصل میں اُگ آتی ہے اور کسان اُس کو تلف کرکے ذہنی و مالی آسودگی محسوس کرتا ہے۔اُس جڑی بوٹی جس کوتلف کرنے کے لیے مختلف اور بڑی تعداد میںادویات تیار کی جاتی ہیں ،سے تقاضا کیا جاتا رہا کہ حُب الوطنی کا لائسنس دکھائے۔ ریاست کے طاقت وَر طبقات نے اپنی لڑائیوں کو ہمیشہ عام آدمی کی لڑائی بنا کر پیش کیا ۔جب طاقت کی راہداریوں میں توازن بگڑتا ہے اور طاقت کی راہداریوں میں راج کرنے والا ایک طبقہ کمزور پڑتا دکھائی دیتا ہے تو وہ اس کو عام آدمی کے حقوق کی جنگ بنا کر پیش کرتا ہے۔عام آدمی ،گھر،گلی محلے ،چوک چوراہے میں بیٹھ کر اِن کے بارے سوچتا ہے ،بولتا ہے اور لکھتا ہے۔ وہ طاقت کے توازن کے بگاڑ کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے اور جس طبقے کو اقتدار سے پیچھے دھکیلا جاتا ہے ،اُس کے لیے ہمدری کا اظہار کرتا ہے،آنسو بہاتا ہے اور جان تک کا نذرانہ دینے کو تیار رہتا ہے۔وہ بہت اچھے طریقے سے اپنی سطح پر اُونچے اور طاقت ور طبقے کی لڑائی لڑتا ہے۔مقتدر طبقات کی آپس کی لڑائیاں ،عام لوگوں کی لڑائیاں بنا کر پیش کی جاتی ہیں۔یہاں عام آدمی ،طاقت ورطبقات کی اقتدار کے حصول کی لڑائی میں’’ پراکسی‘‘ بن جاتا ہے۔ نیز طاقت ور طبقات کے مفاداتی لڑائیوں کے محاذ پرعام آدمی سپاہی بن کر ہر طرح کی جنگ لڑتا ہے،اس جنگ میں ہار صرف اور صرف اس سپاہی کے حصہ میں آتی ہے۔معاملہ یہ ہے کہ ریاست کے عام آدمی کو اپنے سوالات کا بھی علم نہیں ۔وہ جتنے بھی سوال اُٹھاتا ہے ،اُن سب کا تعلق طاقت ور طبقات کے مفاد کے گردگھومتا ہے۔ نائین الیون کے بعد پاکستان میں دوبڑے بحران جنم لیتے ہیں۔ ایک دہشت گردی اور دوسرا معاشی بحران۔ دہشت گردی کے بحران میں ہزاروں پاکستانی لقمۂ اجل بن گئے ،مگر سماجی سطح پر کوئی تحریک نہ پنپ سکی۔اسی طرح معاشی بحران کے نتیجے میں بھی کسی طرح کی سوچ نیچے سے پروان چڑھ کر تحریک کی صورت اختیار نہ کرسکی۔عام لوگ مرتے رہے ،مگر پھر بھی بڑی آبادی دہشت گردوں کو برا نہیں سمجھتی تھی۔ افسوس ناک اَمر تو یہ ہے کہ عام آدمی کواُس کی زندگی اور اُس کے جسم پر تک اختیار نہیں ،اُس کی سوچوں پر بھی قبضہ ہے۔اس ریاست کی بڑی آبادی کی پیدائش گملوں میں کی گئی اور گملوں میں رہ کر پرداخت کی گئی،وہ اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہوسکی۔ریاست کو ایسی ہی آبادی کی ضرورت تھی،جو چلنے کے لیے بیساکھی مانگے،پھر طاقت ور طبقات کی مرضی جس کو بیساکھی دے یا جس سے چھین لے۔عام آدمی جو بیساکھی کے سہارے زندگی جیتا ہے ،اُ س کے بڑے دُشمن طاقت ور طبقات ہیں ،جن کا اُوپر ذکر آچکا ہے ۔مگر یہ اُن کو اپنا دُشمن نہیں سمجھتے،اِن کے دِل اپنے دُشمنوں کی محبت ،اندھی عقیدت اور غلامانہ جذبے سے بھرے رہتے ہیں۔ لمحۂ موجود میں نان ایشوز میں حقیقی ایشوز دَب کر رہ گئے ہیں۔تھرپارکر میں تین دِن میں پانچ لڑکیاں مبینہ طورپر خودکشی کرچکی ہیں،پولیس ریکارڈ کے مطابق رواں سال مجموعی طورپر مذکورہ ضلع میں پچانوے افراد خودکشیاں کرچکے ہیں۔دس ماہ میں پچانوے خودکشیاں ہمارا موضوع بننے سے قاصر ہیں۔ایک ویب سائیٹ ثبات کی رپورٹ کے مطابق زینب کیس کے بعد دوہزار اُنیس میں دوہزار آٹھ سوچھیالیس بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز سامنے آئے،جن میں سات سو اَٹھہتر بچے اغوا،چارسوپانچ گمشدہ،تین سواَڑتالیس ہوس کا نشانہ ،دوسواُناسی زیادتی کا شکار ہوئے۔اس رپورٹ کا خوف ناک سماجی پہلو یہ ہے کہ بچوں کے دوہزار دوسوبائیس مجرمان رشتہ دار یا جان پہچان رکھنے والے لوگ تھے۔یہ پہلو ہمارے باہمی سماجی تعلقات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔منگل کے روز مردان میں ایک بم دھماکا میں باپ سمیت دومعصوم اور کم سن بچیاں جاں بحق ہوئیں،مگر یہ خبر بھی ہمیں جھنجھوڑنے سے قاصر رہی۔ ریاست کے تمام طاقت ور اسٹیک ہولڈرز کا معاملہ تو سمجھ میں آتا ہے ،اہلِ دانش کہاں ہیں؟ دَرحقیقت یہ ریاست دانش کے بحران کا شکار ہے۔