پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت ایک بار پھر اپنے صوبے کے آئی جی سے الجھ رہی ہے۔ اس بار حکومت سندھ کا نشانہ کلیم امام ہے۔ وزیر اعلی سندھ اپنے کابینہ کے ہمراہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے کہ کسی طرح موجودہ آئی جی سے ان کی جان چھوٹے۔ جب کہ مذکورہ آئی جی کو اس طرح عدلیہ کا کوَر حاصل ہے جس طرح کبھی سابق آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو حاصل تھا۔ اے ڈی خواجہ کو سندھ سے ہٹانے کے لیے اس وقت کی وفاقی حکومت تیار نہیں تھی۔ اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ اے ڈی خواجہ میاں نواز شریف کا چہیتا افسر تھا۔ اس کے دو اسباب تھے۔ ایک تو اے ڈی خواجہ سے سندھ کے لوگ بہت محبت کرتے تھے۔ ان کا اے ڈے خواجہ پر اعتبار تھا۔سندھ میں اے ڈی خواجہ اپنی ایمانداری اور عوام دوستی کے لیے مشہور تھا۔ دوسری بات یہ تھی کہ پاکستان کی بیوروکریسی اور خاص طور پر وزارت داخلہ اس بات کے لیے تیار نہیں تھی کہ کوئی سیاسی حکومت اپنے مفادات کے لیے پولیس کے مورال کو نقصان پہنچائے۔ اس وقت تو حکومت سندھ نے اے ڈی خواجہ کی کردارکشی کے سلسلے میں حد کردی تھی۔ مخصوص ٹی وی چینلز پر اے ڈی خواجہ کے خلاف جھوٹی کہانیاں بریک کی جارہی تھیں۔اس وقت اے ڈی خواجہ بہت پریشان تھا۔ جب وہ چند دنوں کے لیے چھٹی لیکر گھر بیٹھ گیا تب اس نے اپنے دوست صحافیوں کو حکومت اوران کے درمیاں چپقلش کی وجوہات بیان کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ : کیا میں نے اس لیے وردی پہنی تھی کہ انور مجید مجھے فون کرکے حکم دے کہ کس کو گرفتار کرنا ہے اور کس کو رہا کرنا ہے؟ اگر میں قانون کی بات کروں تو وہ مجھ سے ایسے لہجے میں بات کرتا ہے جیسے میں اس کا ذاتی ملازم ہوں۔ اس بار حکومت سندھ کے نشانے پر پھر سندھ کا ایک اور آئی جی ہے۔ یہ مسئلہ کبھی کسی صوبائی حکومت کو درپیش نہیں آیا۔ کبھی پنجاب کی حکومت نے اپنے آئی جی کے خلاف وفاق کے سامنے احتجاج نہیں کیا۔ کبھی خیبر پختون خوا کی حکومت نے وفاقی حکومت سے یہ نہیں کہا کہ وہ فلاں آئی جی تنگ ہے۔ حتی کہ کبھی بلوچستان جیسے صوبے کے وزیر اعلی نے وفاق سے اپنا من پسندآئی جی نہیں مانگا۔ آخر یہ مسئلہ پیپلز پارٹی کو ہی درپیش کیوں ہے؟آخر پیپلز پارٹی اپنے من پسند پولیس افسران مقرر کروانا کیوں چاہتی ہے؟ اس کے اسباب بہت سادہ ہیں اور ہر ایک کی سمجھ میں آسانی سے آتے ہیں۔ اس لیے جب پیپلز پارٹی اے ڈی خواجہ کے خلاف متحرک تھی اس وقت سندھ کے لوگوں نے اپنی منتخب حکومت کا ساتھ دینے کے بجائے آئی جی سندھ کا ساتھ دیا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اس وقت کے چیف جسٹس سندھ نے سندھ کے سماجی کارکن افراد کی درخواست پرسٹے (Stay) دیا تھا۔ اس میں کسی دوسری پارٹی کا کردار نہیں تھا۔ اس بار بھی پیپلز پارٹی موجودہ آئی جی سندھ کلیم امام کے خلاف بہت تنہا ہے۔ پیپلز پارٹی کلیم امام سے اس قدر تنگ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے آئی سندھ کے حوالے سے یہ بیان تک جاری کردیا کہ کیا سندھ کوئی کالونی ہے کہ ہم اپنی مرضی کا آئی جی مقرر نہیں کرواسکتے؟ بلاول کے اس بیان پر سندھ کے قوم پرست حلقے بہت خوش ہوئے۔ ان سب نے سوشل میڈیا پر اس حوالے سے شور مچایا کہ بلاول کا بیان جی ایم سید کے نظریے کی اخلاقی فتح ہے۔ حالانکہ یہ بات سندھ کے قوم پرستوں کو بھی معلوم ہے کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سندھ کارڈ استعمال کرکے اقتدار میں آنے کا راستہ صاف کیا ہے۔ جب بینظیر بھٹو شہید ہوگئی تھیں تب اس کے جنازے کو اٹھاتے وقت پی پی قیادت نے طے شدہ منصوبے کے تحت پاکستان کے خلاف نعرے لگوائے تھے اور پھر آصف زرداری نے مکمل اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنا مشہور نعرہ ’’پاکستان کھپے‘‘ لگایا تھا۔ یہ نعرہ نہ صرف پیپلز پارٹی کو اقتدار کے ایوان میں لے گیا بلکہ آصف زرداری کو اس ایوان صدر میں پہنچانے کا باعث بنا جہاں جانے کے بعد اس کو مقدمات سے بچنے کی آئینی حیثیت حاصل ہوگئی۔ یہ بات بھی ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ بینظیر بھٹو نے کبھی کسی پولیس افسر کے خلاف مہم نہیں چلائی۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت جس پس منظر سے آئی ہے وہاں پولیس سب سے بڑی طاقت کا نام ہے۔ پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کے لیے بنیادی طاقت اس وردی میں ہے جس کے معرفت ووٹرز کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔وہ وقت گذر گیا جب پیپلز پارٹی بڑے فخر سے کہا کرتی تھی کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔ اب پیپلز پارٹی کے لیے طاقت کا سرچشمہ پولیس ہے۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی اچھی طرح سے جانتی ہے کہ پاکستان میں پولیس سے زیادہ فوجی وردی طاقتور ہے مگر پیپلز پارٹی کو یہ پتہ بھی ہے کہ وہ جس طرح پولیس کی وردی کو استعمال کرسکتے ہیں؛ اس طرح وہ فوجی وردی کو استعمال نہیں کرسکتے۔ اس لیے سندھ میں پیپلز پارٹی نے رینجرز کو کراچی میں مزید وقت کے لیے رہنے کی قانونی اجازت دینے پر کتنا شور و غل برپا کیا تھا۔ حالانکہ وہ روٹین کے کام تھے۔ مگرپیپلز پارٹی وہ کام کرنے کے لیے راضی نہیں ہوتی تھی۔ کیوں کہ رینجرز پیپلز پارٹی کے اشارے پر چلنے کے لیے تیار نہ تھی۔ جب کہ پیپلز پارٹی نے سندھ پولیس کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے ہمیشہ ایسے آئی جی کا مطالبہ کیا ہے جو سندھ حکومت کو پولیس کے محکمے میں مداخلت کرنے کی اجازت دے۔ کل اس بات سے سابق آئی جی اے ڈی خواجہ نے انکار کیا تھا اور آج موجودہ آئی جی کلیم امام انکار کر رہا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت سندھ کو چہروں اور ناموں سے سروکار نہیں ہے۔ انہیں ایسے پولیس افسران چاہئیں جو ان کی حکم عدولی نہ کریں؛ پھر وہ حکم قانونی ہو یا غیرقانونی!؟ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کلیم امام ایک پروفیشنل پولیس افسر ہیں۔ وہ اپنے افسران کو حکومت سندھ کے اشاروں پر قانون کی دھجیاں اڑانے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس لیے کلیم امام حکومت سندھ کے گلے میں کانٹے کی طرح پھنس گیا ہے۔کلیم امام کو معلوم ہے کہ معاشرے کو جرم سے پاک کرنے کے لیے یہ بات بیحد ضروری ہے کہ مجرموں کی سیاسی سرپرستی ختم کی جائے۔ اس لیے آئی جی سندھ نے اپنے باصلاحیت افسران کو ہدایت دی کہ وہ ایسے سیاستدانوں کو بے نقاب کریں جو مجرموں کے معرفت نہ صرف غیر قانونی کام کرواتے ہیں یعنی لینڈمافیا اور ڈرگ مافیا کے سرپرست بن کر بیٹھتے ہیں بلکہ وہ اپنے ووٹرز کو بھی ان غنڈوں اور بدمعاشوں کے معرفت کنٹرول کرتے ہیں۔ ایس ایس پی شکارپور ڈاکٹر رضوان نے اپنے ضلع کے حوالے سے جو تحقیقی رپورٹ بنائی اس میں اس نے پیپلز پارٹی کے صوبائی وزیر اور جوڑ توڑ کی سیاست کے مشہور کردار امتیاز شیخ کو مجرمانہ کارروائیوں میں ملوث ثابت کیا۔ جب یہ رپورٹ منظر عام پر آئی تو نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ سندھ کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں تو آگ لگ گئی۔ امتیاز شیخ بہت گھبرا گیا۔ اس کو ڈر لگا کہ ممکن ہے کہ وہ اس الزام کے بعد وزارت سے محروم ہوجائے مگر ان دنوں کے دوران ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کی ایک اور رپورٹ منظر عام پر آئی جس میں اس نے ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ کراچی کے علاقے چنیسر گوٹھ میں منشیات کا کام صوبائی وزیر اور سابق سینیٹر سعید غنی کے بھائی کے معرفت ہو رہا ہے۔ اس رپورٹ پر سعید غنی بھڑک اٹھے اور اس نے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے ہمراہ ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان کے خلاف پریس کانفرنس کی اور اس میں الزام لگایا کہ یہ سب کچھ آئی جی سندھ کلیم امام کے ہدایات پر ہو رہا ہے۔ جب شکارپور کے حوالے سے امتیاز شیخ کے خلاف رپورٹ منظرعام پر آئی تھی اس وقت پریس میں ان الزامات سے انکار کرتے وقت وہ تنہا تھے مگر اب وہ دیکھتے ہیں کہ وہ تنہا نہیں ہے۔ اب ان کے ساتھ پیپلز پارٹی وہ رہنما بھی ہیں جو اعلی قیادت کے بہت قریب رہتے ہیں۔ اب امتیاز شیخ پہلے کی طرح پریشان نہیں ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت کے ساتھ ہونا کس قدر فائدہ مند ہے۔ کسی فلمی شاعر نے کس قدر پتے کی بات کی ہے: ’’آپ جن کے قریب ہوتے ہیں وہ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں‘‘