خدائے بزرگ و برتر نے جب انسان سمیت سارا نظام تخلیق کیا تو قران ہمیں بتاتا ہے کہ اس نے تمام فرشتوں کو پہلے انسان حضرت آدم ؑ کو سجدہ کرنے کا حکم دیا۔اس وقت فرشتوں میں سب سے برگزیدہ فرشتے ابلیس نے کہا کہ میں اس مٹی اور گارے کے بنے انسان کو سجدہ نہیں کرونگا۔اس ا نکار پر وہ مطعون ٹھہرا لیکن اس انکار کے بعد اسے رب کریم کی طرف سے اسکی درخواست پر جو اختیار یا رعایت دی گئی اسکو ہم ہر انسانی جرم، گناہ، غیر معقول اور غیر انسانی فعل کے جواز کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ ابلیس نے خدا سے عرض کی کہ میں اس انسان سے برتر ہوں اور رہتی دنیا تک اسکو گمراہ کرونگا۔ خدا نے اسکے اس چیلنج کے جواب میں اسے اختیار دیا کہ تو انسانوں کو گمراہ کر لیکن میرے نیک بندے تیرے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔ اس روز سے انسان اور ابلیس کی کشمکش جاری ہے جس کو ہم نیکی اور بدی کی جنگ کے طور پر تعبیر کرتے ہیں۔ابلیس کی انسان کو گمراہ کرنے کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنی بے بساطی کے ادراک کے باوجود خدائی کے دعوے کئے، بہت سے پیغمبری کے دعویدار اور مرتد تو اس دور میں بھی مل جائیں گے۔ اسکے علاوہ جس قسم کے گھنائونے جرائم انسانی تاریخ میں سننے اور دیکھنے کو ملے اور ابھی تک ہو رہے ہیں وہ بھی ابلیس کی گمراہ کرنے کی طاقت کی دلیل ہے۔لیکن اسکا شکار ہمیشہ ایک اقلیت رہی ہے۔ جب دوسری طرف نظر ڈالیں تو ہمیں کمال کے نیک انسان ملتے ہیں۔خدا کے پیغمبروں سے لیکر اولیاء اور پھر ایسے عالم اور فاضل لوگ جنہوں نے انسانیت کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔علم کے خزانوں کے ایسے ایسے چشمے پھوٹے کہ آج تک انسان اس سے فیضیاب ہو رہا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ سائنسی ترقی اس بات کی غماز ہے کہ ابلیس ایک حد تک انسان پر اثر انداز ہو سکتا ہے ورنہ انسان اس سے طاقت میں بہت بڑا ہے۔کتنا بڑا ہے یہ ایک دلچسپ مضمون ہے۔ بڑے غورو خوض کے بعد طاقت کے اس توازن کو غیر متوازن ہونے سے بچانے کے عمل کی کسی حد تک سمجھ آتی ہے۔اور اس توازن کو قائم رکھنے کے لئے خدائے ذوالجلال نے مکافات عمل متعارف کرا رکھا ہے اور یہ کب رو بہ عمل ہوتا ہے اسکی تشریح میں اپنے مطالعے اور تھوڑے بہت علم اور تجربے کی بنیادپر کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ در اصل نیکی اور بدی کی جنگ میں ہر انسان کسی نہ کسی حد تک بہکاوے میں آتا ہے۔ کیونکہ خدا نے فرمایا ہے کہ میں نے انسان کو اصل پر پیدا کیا ہے اور اصل نیکی اور امر با المعروف ہے تو اگر انسان ابلیس کے بہکاوے میں آتا بھی ہے تو اسکا اصل اسکو واپس کھینچتا ہے۔ لیکن بحر حال ابلیس کے پاس بھی گمراہ کرنے کا اختیار موجود ہے تو وہ تھوڑا بہت ہر انسان کے خلاف کامیاب ہو جاتا ہے۔اصل پر قائم رہنے کے لئے انسان کے اندر بنیادی خوبیاں پیدا کرنا اسکے پرورش کرنے والوں کا فرض ہے۔ بنیاد ٹھیک ہو تو ابلیس کا بہکاوا زیادہ دیر کام نہیں کرتا اور انسان پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ واپس اصل کی طرف لوٹتا ہے۔ اس کی مثال معاشرے میں ہمیشہ موجود رہی ہے۔ آپ نے بھی بہت سے قصے سنے ہونگے ایک بہت بڑا ڈاکو تھا لیکن اچانک اچھا انسان بن گیا۔ظالم بادشاہ کسی اخلاقی جھٹکے سے اچانک بہت مہربان ہو گیا اور اپنی رعایا کاخیال رکھنے لگا۔ بھلے یہ قصے کہانیاں ہیں لیکن آپ ارد گرد نظر دوڑائیں گے تو ایسے کریکٹر آپ کو نظر آئیں گے۔ جوایک انتہاء سے دوسری انتہاء کی طرف چلے گئے۔اسکی بنیادی وجہ وہی اصل کا زور ہے جسکی بنیاد اسکے اندر بہت گہری ہے۔انکی گمراہی معروضی حالات کی وجہ سے ہو سکتی ہے ، کسی ایسے معاشرے میں موجودگی ہو سکتی ہے جو اصل سے دور ہو لیکن جیسے ہی وہ ادراک کی اس سطح پر آتے ہیں جہاں انہیں اصل دکھائی دیتا ہے تو وہ اس طرف سرپٹ دوڑ پڑتے ہیں اسلئے وہ درمیان میں کہیں نہیں رکتے اور دوسری انتہاء پر پہنچ کر دم لیتے ہیں۔ ایک قسم انسانوں کی وہ ہے جو میانہ روی کے ساتھ چلتے ہیں اور کبھی نیکی یا بدی کی انتہاء تک نہیں پہنچتے۔ اپنے متعین راستے پر چلتے ہیں ، ذرا ادھر ادھر ہوں تو واپس لوٹنے میں دیر نہیں لگاتے۔ تیسری قسم وہ ہے جو ایک دفعہ بھٹک گئی تو پھر انکی گمراہی کی کوئی انتہاء نہیں ہوتی۔کمزور بنیاد کے ایسے لوگ بہت جلد ابلیس کا چارہ بنتے ہیں۔ایک دفعہ یہ اسکے چنگل میں آگئے تو پھر انکا نکلنا محال ہو جاتا ہے۔ انکے اندر کیونکہ اصل کی وہ کشش موجود ہی نہیں ہوتی یا کم ہوتی ہے اسلئے جاہ و جلال، مال و دولت، اختیارو اسباب انکے لئے بہت کشش رکھتے ہیں۔ایسے طبقے میں قناعت کی بھی شدید کمی ہوتی ہے اور لالچ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔ایک بہت دلچسپ نکتہ ایسے کرداروں کی سٹڈی میں سامنے آتا ہے کہ وہ ایک دن کسی آفت کا شکار ہوتے ہیں ، اس سے بچنے کے راستے ہونے کے باوجود وہ اس دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں اور با لآخرخود کو برباد کر لیتے ہیں، یا قدرت کر دیتی ہے۔آپکو سمجھ نہیں آتی کہ اس شخص کی عقل پر پردہ کیسے پڑ گیا جبکہ وہ اس مشکل سے آسانی سے نکل سکتے تھے۔ایسے مرحلے میں جب لوگ داخل ہو جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، میں نے انکے قلب پر مہر لگا دی ہے نہ یہ دیکھ سکتے ہیں، نہ سن اور نہ سمجھ سکتے ہیں۔یہاں سے مکافات عمل شروع ہوتا ہے۔ ان تین کیٹیگری سے پتہ چلتا ہے کہ انسان بہت طاقتور ہے اپنے کردار کی طاقت سے وہ ہر برائی کو شکست دے سکتا ہے۔ ابلیس کی طاقت بہت محدود ہے، وہ صرف گمراہی کے راستے پر ڈال سکتا ہے، اس سے واپس آنا اور اس پر چلتے ہوئے کسی ایسی انتہاء تک چلے جانا جہاں ابلیس بھی شاید نہ چاہتا ہو۔اور شاید اس حد سے گزرنے کے بعد انسان کے بارے میں ابلیس ہی کہتا ہو کہ یہ میرے اختیار سے بھی باہر ہو چکا ہے۔میرے خیال میں خدا کے نظام کا متحرک ہونا یقینی ہو جاتا ہے اور یہی شاید مکافات عمل کہلاتا ہے۔