فلیچر سکول آف ڈپلومیسی، سفارت کاری کی تعلیم و تربیت کے اعتبار سے دنیا کا سب سے معتبر ادارہ سمجھا جاتا ہے جو یونیورسٹیوں کے شہر بوسٹن میں واقع ہے۔ اسی طرح ایک منظم فوج کی تعلیم و تربیت کے لیے یوں تو ہر عالمی طاقت اور ہر ملک نے اپنے ہاں ادارے قائم کر رکھے ہیں لیکن برطانیہ میں 1801ء میں قائم ہونے والے ’’رائل ملٹری کالج سینڈہرسٹ‘‘کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ دونوں ادارے اعلیٰ درجے کے سفارت کار اور بہترین عسکری قیادت کی تخلیق، تربیت اور نوک پلک سنوارنے کے عمل میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔ دنیا بھر کے ایسے تمام ادارے جو سفارت کاروں کو سفارتی آداب سکھاتے ہیں اور عسکری قیادت کو فنِ حرب کے اصولوں سے آشنا کرتے ہیں وہ ہر نئے محاذ پر ہونے والی سفارتی اور جنگی حکمتِ عملی کو اپنی تعلیم کا حصہ ضرور بناتے ہیں۔ عسکری اکیڈیمیوں میں نہ صرف عام جنگوں کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے بلکہ جنگی حکمتِ عملی کے لیے ان تمام گوریلا تنظیموں کی مضبوط صف بندی اور قوت کے بارے میں نہ صرف یہ بتایا جاتا ہے بلکہ ان پر لکھی جانے والی کتب بھی باقاعدہ زیرِ بحث آتی ہیں۔ یہی عالم سفارتی محاذ کا بھی ہے۔ ویت نام کی گوریلا جنگ پر جنرل گیاپ (Giap)کی کتاب ’’War without weapons‘‘ (اسلحہ کے بغیر جنگ ) جیسی کتب عسکری اکیڈیمیوں میں فوجی تربیت کا حصہ ہے۔ اسی طرح ہنری کسنجر کی کتاب ’’Diplomacy‘‘جیسی کتب جو بدلتے وقت کے ساتھ نئے زاویوں کی نشاندہی کرتی ہے، سفارت کاروں کو پڑھائی جاتی ہیں۔ لیکن وقت کا فیصلہ ہے کہ آئندہ دنیا بھر کے سفارتی اور عسکری تربیتی اداروں میں جو چیز پڑھائی جائے گی وہ طالبان کی عسکری حکمتِ عملی اور سفارتی کردار ہے۔ اقوامِ متحدہ کے قیام اور سرد جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک ستتر (77) سالوں کی یہ حیران کن عسکری اور سفارتی کامیابی ہے ۔ غور کریں، بیس سال قبل 2001ء میں اقوامِ متحدہ کی متفقہ، ہم زبان قرار داد کے بعد پوری دنیا عالمی طاقتوں کی سربراہی میں متحد ہو کی عمر ثالث ’’ملا محمد عمرؒ‘‘ کے افغانستان پر اپنی پوری عسکری طاقت کے ساتھ صرف ایک مقصد لے کر ٹوٹ پڑی تھی کہ’’ افغانستان کی سرزمین کو دنیا کے دیگر ممالک میں دہشت گردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دیںگے‘‘۔ پوری دنیا کی پنچائت (Committee of Nations) سیاسی، سفارتی، اخلاقی اور عسکری طور پر متحد تھی اور دنیا بھر کی پروپیگنڈہ مشینری طالبان کو ظالم، غاصب، دہشت گرد، انسانیت دشمن، خواتین مخالف اور حیوان صفت ثابت کررہی تھی۔ یوں لگتا تھا افغانستان ایسے ہے جیسے کوئی ریوڑ سے تنہا رہ جانے والا ایک میمنا ہے جس پر بھوکے بھیڑیوں نے حملہ کر دیا ہو۔ لیکن بیس سالہ جنگ کے بعد، یہی پوری دنیا کی پنجائیت اور عالمی عسکری قوتیں صرف گنتی کے پچاس ہزار طالبان کے سامنے جب مذاکرات کے لیے بیٹھے تو ان سے صرف ایک ہی چیز کا وعدہ لیا گیا،شاید ایک ہی بھیک تھی جو ان سے مانگی گئی اور جو طالبان امریکہ معاہدے کا سب سے اہم نکتہ ہے۔ وہ جنہیں دہشت گردی کا سرپرست بتا کر ان پر جنگ مسلط کی گئی تھی، آج وہی طالبان عالمی طاقتوں کو یہ ضمانت دے رہے تھے کہ تم بے فکر ہوکر اپنے گھروں کو واپس چلے جاؤ، ’’ہم افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ انسانی تاریخ کا یہ معجزہ اتنا سادہ اور عام سا نہیں ہے کہ اس پر حیران نہ ہوا جائے۔یہ معاہدہ اور یہ اعلان بذاتِ خود سفارتی اور عسکری تاریخ کا مینارِ عظمت ہے۔ وہ طالبان کہ معاہدے میں جن کے نام کے سامنے بریکٹ میں یہ لکھا جائے ’’اماراتِ اسلامی افغانستان‘‘ (جسے امریکہ تسلیم نہیں کرتا) اور دوسرے فریق کے طور پر دنیا کے دو سو سے زیادہ ممالک کی ’’تسلیم شدہ‘‘ قوت ’’امریکہ‘‘ کا نام لکھا ہو۔وہ طالبان ، جن کے پاس کوئی حکومت نہ ہو، کوئی فوج یا سیکرٹریٹ نہ ہے، ان کے مقابلے میں اشرف غنی کے پاس حکومت بھی ایسی ہو جیسے دنیا بھر کے ہر ملک نے تسلیم کر رکھا ہے اور ہر ملک میں اس کے سفارتکار بھی بیٹھے ہوئے ہیں، مگر آئندہ کے لیے افغانستان میں امن کی ضمانت اور سرزمینِ افغانستان کو دوسروں کے خلاف استعمال نہ ہونے کی تسلی صرف اور صرف طالبان دے رہے ہوں۔ منطق سے عاری ہیں وہ تبصرہ نگار جو اس معاہدے کے بعد بھی ابھی تک اس موضوع پر مضمون لکھتے اور گفتگو کرتے چلے جارہے ہیں کہ اگر طالبان نے اکیلے حکومت بنائی تو دنیا اسے تسلیم نہیں کرے گی۔ دنیا تو تسلیم کر چکی ہے۔ افغانستان کی سرزمین پر بیٹھ کر امریکہ اور نہ نیٹو افواج اس بات کی ضمانت دے سکتی ہیں اور نہ ہی افغان حکومت یہ اعلان کرنے کی اہلیت رکھتی ہے کہ برملا کہہ سکے ’’آئندہ افغانستان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی‘‘۔کیا ایسا کبھی اس سے پہلے دنیا کی عسکری، سیاسی اور سفارتی تاریخ میں ہوا ہے۔ بالکل نہیں۔ طالبان کی گذشتہ ایک سال کی ’’سفارت کاری‘‘ کا جائزہ لیا جائے تو دنیا بھر کے تجزیہ نگاروں کے تمام اندازے یکسر بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں۔یہ تجزیہ نگار امریکہ کے بعد کے افغانستان اور پڑوسی کی بہت خوفناک تعبیر پیش کیا کرتے تھے۔ بات کچھ تھی ہی ایسی۔۔ جنگ کے آغاز میں تمام پڑوسی ممالک، ازبکستان ، تاجکستان، ایران اور پاکستان، طالبان کے خلا ف ہرسطح پر جنگ میں شریک تھے۔ تاجکستان سے امریکی افواج داخل ہوئیں، روس اور چین بھی، دونوں اپنے مخصوص حالات یعنی چیچنیا، تاتارستان اور مشرقی ترکمانستان میں مسلمان تحریکوں کے اٹھنے کے خوف سے طالبان کا مکمل صفایا چاہتے تھے۔ لیکن سفارت کاری کی معراج اور کامیابی کا درجۂ کمال دیکھئے کہ آج یہ تمام ممالک ان طالبان کو اپنے ملک میں مکمل ریاستی پروٹوکول دیتے ہیں ۔وہ طالبان جن کے پاس سفارتی سطح پر نہ کوئی حکومت ہے اور نہ ہی ان کے زیرِ سایہ کوئی ملک۔ وہ پاکستان جس نے طالبان کے سفیر ملا عبد السلام ضعیف کو پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا تھا،آج ان کا وزیر خارجہ اپنے دفتر خارجہ میں طالبان کے وفد کا استقبال کرتا ہے۔ عسکری سطح پر پوری عالمی برادری کو ہراناتو اب مسلمہ حقیقت ہے، لیکن بعد از امریکہ ،افغانستان پر اپنی ریاستی رٹ کو قائم کرنے اور کٹھ پتلی حکومت کے خاتمے کیلئے جو عسکری حکمتِ عملی (Military Strategy)اختیار کی گئی ہے اس نے بھی دنیا کو حیران کردیا۔ سب سے پہلے شمال کی ان سرحدوں کو قبضے میں لیا گیا جہاں سے کمک کا خطرہ تھا۔ پھر پاکستان اور ایران کی نسبتاً کم مخالف سرحدوں پر اعلانیہ طور پر سپن بولدک اور اسلام شہر کے داخلی دروازوںپر قابو پاکر اپنی قوت کا اعلان کیا گیا۔ اس وقت تمام مضافاتی اور دیہاتی افغانستان طالبان کے کنٹرول میں ہے، جہاں سے شہروں کو خوراک اور اشیائے صرف پہنچائی جاتی ہیں۔ سرحدوں پر ڈیڑھ سو سے زیادہ داخلی راستے ہیں جہاں سے تجارتی قافلے آتے ہیں اور ڈیڑھ ارب ڈالر ماہانہ کی آمدن ہوتی ہے، یہ سب طالبان کے پاس ہیں۔ کابل سے کسی حکومتی رکن نے غزنی یا ہرات جانا ہو تو ہوائی راستے کے سوا کوئی ذریعہ باقی نہیںہے۔ حکومت کے ذرائع ٹیکس طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ ایسے میں کون ہوگا جو شہروں کا انتظام و انصرام زیادہ دیر تک سنبھالے رکھے گا اور کب تک جبکہ پیٹرول فراہم کرنے کا کبھی کوئی راستہ حکومت کے ہاتھ میں نہ ہو۔ طالبان کی افغان جنگ کی یہ عسکری حکمتِ عملی آنے والے دنوں میں تقریباً ہر ملٹری اکیڈیمی کے کورس کا حصہ بن جائے گی۔ آخر میں ایک بات جس پر یقین نہیں آتا کہ وہ دانشور، صحافی، ادیب، سیاست دان اور علماء جو کل تک طالبان کو شدت پسند قابلِ نفرت ، درندے کہا کرتے تھے اور کہتے تھے یہ معاشرے کا ناسور ہیں، یہ کبھی نہیں بدل سکتے۔ آج بیس سال بعد وہی لوگ کہہ رہے ہیں، یہ تو پہلے والے طالبان ہیں ہی نہیں، یہ اب بدل چکے ہیں۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ طالبان جیسے پہلے تھے ویسے ہی آج بھی ہیں، اپنوں پر مہربان اور کفار پر سخت ۔ لیکن بیس سالوں میں دنیا بھر کے دانشوروں کے دماغ ٹھکانے لگ چکے ہیں، سافٹ ویئر تبدیل ہوچکا ہے۔