(1946ء ۔۔۔۔۔ضلع گورداسپور کا ایک گائوں) ہماری گلی میں ہمارے ایک رشتہ دار رہتے تھے جن کا نام طالب حسین تھا۔ اُن کی بیگم کو سب ’’پابھی‘‘کہتے تھے (یہ لفظ بھابی کی بگڑی ہوئی شکل ہے)۔ لمبی تڑنگی، بے ڈھب سی یہ خاتون بھی مجھے عورت کی بگڑی ہوئی شکل لگتی تھی۔ یہ جوڑا اولاد سے محروم تھا۔ طالب حسین پہننے اوڑھنے کے بہت شوقین تھے۔ کہیں جاتے تو اُن کی سج دھج دیکھنے والی ہوتی۔ صاف شفّاف، استری شدہ کپڑے، مائع لگی پگڑی کا فٹ ڈیڑھ فٹ اونچا طُرہّ ، پُر وقارچال ، چہرے سے پڑھے لکھے ہونے کا دھوکا ہوتا۔ اُن کی بالکل نئی اور چمکدارPhilips سائیکل اُن سے بھی زیادہ بارُعب اور پُر وقار لگتی ۔ اُس زمانے کے دیہات میں پرانی سائیکل رکھنے والوں کو بھی رشک بھری نظروںسے دیکھا جاتا تھا اور ان کی سائیکل تو نئی تھی۔ جب طالب حسین سائیکل کی گدّی پر لینڈ کرنے کیلئے سائیکل کورن وے پر دھکیل کر دائیں ٹانگ فضا میں لہراتے ہوئے ٹیک آف کرتے تو اُن کی کھڑ کھڑ کرتی سفید براق شلوار دیکھنے والوں پر جادو کر دیتی۔ جب وہ اچھی طرح سائیکل پر براجمان ہو جاتے اور گردن اکڑا کر آگے دیکھتے ہوئے ہولے ہولے پیڈل مارتے تو بالکل ’’فاتح ِہند‘‘لگتے۔اُنھیں اپنی اہمیت کا احساس تو تھا ہی، اپنی سائیکل کو بھی وہ عربی النسل گھوڑے سے کم نہ سمجھتے تھے اور اُس کی خدمت اور دلداری میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے تھے۔ اُسے دوسرے تیسرے دن نہلاتے اور تیل سے اُس کے پرزوں کی مالش کرتے۔ گرمیوں میں اُسے دھوپ سے بچانے کیلئے ڈیوڑھی میں رکھتے اور اُوپر لٹھے کی دُھلی ہوئی سفید چادر ڈالتے۔ سردیوں میں ٹھنڈ سے بچانے کیلئے صحن میں رکھتے اور سورج کی حرکت کے ساتھ ساتھ سائیکل کی پوزیشن بدلتے رہتے تاکہ وہ مسلسل دھوپ میں رہے۔ رات کے وقت اُس پر کمبل ڈال دیتے تاکہ نمونیہ سے بچی رہے۔ اُن کا کوئی بچّہ ہوتا تو ظاہر ہے وہ یہ سارے تجربات اُس بچے پر کرتے لیکن بچے کی عدم موجودگی میں وہ اپنی پدرانہ شفقت کے اظہار کیلئے سائیکل کو تختۂ مشق بنانے پر مجبور تھے۔ سائیکل کی پرورش اور نگہداشت کے علاوہ ، طالب حسین کا ایک اور شوق بھی تھا۔ اُنھیں گراموفون اور ریکارڈ جمع کرنے کا جنون تھا۔ وہ اپنی کمائی کا بیشتر حصہ انہی چیزوں پر خرچ کرتے تھے۔ چھوٹے بڑے سائز کے تقریباً چھ گراموفون اُن کے پاس تھے۔ جنھیں وہ پیٹیاں کہتے تھے۔ ایک پیٹی تو اتنی بڑی تھی کہ طالب حسین صاحب مع اپنی بیگم کے آسانی سے اس میں شب بسری کر سکتے تھے۔ انھوں نے ہر پیٹی کیلئے اُس کے حجم کے مطابق میز بنا رکھی تھی۔ ریکارڈ کو وہ ’’توا‘‘کہتے تھے۔اُن کے پاس اتنے توے تھے کہ سارے گائوں میں نہ ہوں گے۔ہمارے گائوں میں بجلی تھی نہ ریڈیو، ایسے میں ہم سب کیلئے طالب حسین کی پیٹیاں اور توے ایک خاص کشش رکھتے تھے۔ جب میں نے پہلے پہل اُن کے ہاں گراموفون پر ریکارڈ بجتے سنا تو یہی سمجھا کہ گانے والا اس کے اندر بند ہے۔ جب پتہ چلا کہ اس کے اندر گانے والا نہیں بلکہ اُس کی آواز بند ہے تو میں بہت حیران ہوا تھا۔ طالب حسین کے گھر میں ریکارڈ سنتے وقت میں اپنے بڑے بھائی حکیم صاحب کی گود میں بیٹھ جاتا تھا۔ جب طالب حسین پیٹی کی چابی گھماتے،اور گراموفون کی ڈسک (DISK) پر توا رکھتے ، تو میں نہایت انہماک اور دلچسپی سے ان سارے مراحل کا مشاہدہ کرتا۔ اُن کی باڈی لینگویج سے یوں لگتا گویا ریل گاڑی کا انجن سٹارٹ کررہے ہیں۔ جونہی سوئی ’’توے‘‘ کو چھوتی، آواز بلند ہوتی ’’بھائی چھیلا پٹیالے والا‘‘ ، ’’اختری بائی فیض آبادی‘‘ وغیرہ اور پھرتوا بجنے لگتا۔ جب کبھی طالب حسین اپنی ماہرانہ رائے کا اظہار کرنا چاہتے تو حکیم صاحب سے مخاطب ہوتے جو گائیکی کے اسرار و رموز سے اچھی طرح آگاہ تھے۔ایک بار میں گلی میں کھیل رہا تھا۔ اچانک میرے کانوں میں آواز آئی ؎ آہیں نہ بھریں، شکوے نہ کیے، کچھ بھی نہ زباں سے کام لیا ہم دل کو پکڑ کر بیٹھ گئے جب تیرا کسی نے نام لیا مجھے اس آواز میں اتنی کشش محسوس ہوئی کہ میں کھیل چھوڑ کر طالب حسین کے گھر میں داخل ہو گیا۔ مجھے یہ تو پتہ نہ تھا کہ آہیں کیسے بھری جاتی ہیں اور شکوے کیسے کئے جاتے ہیں۔ نہ ہی دل کو پکڑنے کی تکنیک آتی تھی۔ لیکن میرا جی چاہا کہ یہ ریکارڈ بجتا رہے اور کبھی ختم نہ ہو۔ بعد میں جب کبھی میں طالب حسین کے گھر بڑے بھائی کی گود میں بیٹھا ہوتا تواُن کے کان میں کہتا ’’بھائی جی! انھیں کہیں کہ وہی ریکارڈ لگائیں۔‘‘حکیم صاحب ’’وہی‘‘کا مطلب سمجھ کر مسکراتے اور طالب حسین تک میری فرمائش پہنچا دیتے۔ طالب حسین ہاں میں سر ہلاتے ہوئے کہتے " کاکا نور جہاں تے عاشق ہوگیا جے۔ اہنوں سمجھائو عشق چ کُجھ نہیں رکھیاـ۔" جونہی ریکارڈ بجنے لگتا، میں اس خوبصورت ، مترنم آواز کے سحر میں کھو جاتا۔ کئی سال بعد پتہ چلا کہ یہ قوّالی میڈم نور جہاں نے فلم زینت میں گائی تھی۔ فن کی دنیا میں ذات پات کی تمیز نہیں ہے۔ چنانچہ سامعین میں مسلمان، ہندو، سکھ ، عیسائی سبھی موجود ہوتے۔ طالب حسین باری باری ریکارڈ سنواتے۔ اُن کی گردن فخر سے تن جاتی اور کبھی کبھی وہ داد طلب نگاہوں سے سامعین کی طرف دیکھتے گویا وُہ خود PERFORM کر رہے ہیں۔ بعض اوقات وُہ آنکھیں بند کرکے سر ہلانے لگتے۔ میں حکیم صاحب سے پوچھتا "بھائی جی ! ایہناں نو کیہ ہویا؟" دو ڈھائی گھنٹے بعد یہ محفل ختم ہوتی تو برادری کے نوجوان طالب حسین کا سازوسامان اٹھا کر اُن کے گھر پہنچا آتے۔قیام پاکستان کے بعد طالب حسین سے کبھی ملاقات نہ ہو سکی۔ وہ غالباً ساہی وال میں کسی جگہ مقیم ہو گئے تھے۔ وہاں اُن کے شب و روز کیسے گزرے میں کچھ کہہ نہیں سکتا۔ 1980 کے لگ بھگ اُن کے انتقال کی خبر ملی تھی۔اناللہ و انا الیہ راجعون۔