حال ہی میں قطر سے اچھی خبر آئی ہے کہ امریکی حکام اور طالبان کے درمیان امن معاہد ے کے ایک مسودے پر عمومی اتفاق رائے ہو گیاہے، چونکہ یہ خبر پہلے طالبان ذرائع کے حوالے سے آئی ہے لہٰذا اس پر کسی حد تک یقین کیا جاسکتا ہے۔ گویا کہ امریکہ کی تاریخ میں 17سالہ طویل ترین جنگ کے خاتمے کے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ پاکستان بجا طور پر کریڈٹ لے رہا ہے کہ ہم نے طالبان اور امریکہ کی براہ راست بات چیت کروا کر اپنا مثبت رول اداکر دیا ہے۔ امریکی حکومت اور عوام دونوں اس جنگ سے تنگ آئے ہوئے ہیں۔ 2001ء میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے دور میں افغانستان پر فوجی یلغار کر کے کابل میں حامد کرزئی کی سربراہی میں کٹھ پتلی حکومت قائم کر دی گئی تھی۔ اس وقت بھی سوائے اس کے کہ القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن تورا بورا کی پہاڑیوں میں چھپے بیٹھے تھے، اس جنگ میں جانے کا کوئی جواز نہیں تھا کیونکہ ’نائن الیون‘ کے کردار افغان شہری تھے اور نہ ہی وہ طالبان تھے۔ افغانستان کا امریکہ سے کوئی براہ راست تصادم بھی نہیں تھا لیکن ویتنام کی جنگ سے سبق نہ سیکھنے والی امریکی دفاعی اسٹیبلشمنٹ نے طاقت کے نشے میں بدمست ہو کر وہاں چڑھائی کردی۔ امریکہ کواس وقت بھی یہ علم ہونا چاہئے تھا کہ افغان بڑے جنگجو اور خوددار ہیں، اسی لیے کہا جا تا ہے کہ افغانستان جارح اور استعماری قوتوں کا قبرستان ہے۔ برطانیہ اور اس کے بعد سابق سوویت یونین وہاں جارحیت کر کے منہ کی کھا چکے ہیں۔ اس وقت بھی افغانستان میں نیٹوکی کمان تلے چودہ ہزار امریکی فوجی موجود ہیں۔ گزشتہ ماہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو اپنے پیشروؤں کے برعکس امریکی اسٹیبلشمنٹ سے تعلق نہ رکھنے کی بنا پر معاملات کو اپنے انداز سے دیکھتے ہیں ‘کہا تھا کہ امریکہ اپنی آدھی افواج افغانستان سے ہٹانے پر غور کر رہا ہے۔ اب تازہ معاہدے کے مطابق جو طالبان حکام اور امریکی خصوصی نمائندہ برائے امن زلمے خلیل زاد کے درمیان اصولی طور پر ہوا ہے۔ امریکی افواج اگلے اٹھارہ ماہ میں وہاں سے نکل جائیں گی۔ اگرچہ کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں کیا گیا لیکن زلمے خلیل زاد کے ایک ٹویٹ کے مطابق مذاکرات میں خاصی پیشرفت ہوئی ہے اور اب وہ افغانستان جا کر صدر اشرف غنی سے بات چیت کریں گے۔ فریقین کی طرف سے خاصے محتاط بیانات دیئے جا رہے ہیں۔ طالبان ذرا ئع کے مطابق سیزفائر پر بھی اصولی طور پر اتفاق ہو گیا ہے لیکن طالبان نے سیز فائر کو امریکی افواج کے افغانستان سے مکمل انخلا سے منسلک کر دیا ہے اور طالبان کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغانستان کی سرزمین القاعدہ اور داعش کے جنگجوؤں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیںدی جائے گی۔ ڈرافٹ معاہدے میں جنگی قیدیوں کے تبادلے کی شق بھی شامل ہے لیکن ابھی بہت سے پیچیدہ اور گنجلک معاملات پر معاہدہ ہونا باقی ہے۔طالبان موجودہ افغان حکومت جسے وہ کٹھ پتلی کہتے ہیں‘ کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ نہیںان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ سیز فائر کے بعد بننے والی عبوری حکومت میں اشرف غنی یا ان کے نمائندوں کے ساتھ بیٹھیں گے تاحال ممکن نہیں نظر آرہا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ طالبان افغانستان کے وسیع و عریض حصے پر قابض ہیں یا وہ ان کے زیر اثرہے۔ لگتا ہے کہ مذاکرات کے نتیجے میں اشرف غنی جو جولائی میں ہونے والے آئندہ صدارتی انتخابات کے لیے کاغذات نامزدگی داخل کر چکے ہیں کے اقتدار کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی سطح پر ان مغرب نواز افغانوں کو جن کی حیثیت کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہے ‘کو کچھ نمائندگی دے دی جائے لیکن ایسے لگتا ہے کہ امریکہ نے بالآخر طالبان کے سامنے سجدہ سہو کرنے کا ارادہ کرلیا ہے۔ معاہدے میںطالبان کی طرف سے یہ یقین دہانی بھی شامل ہے کہ پاکستان سے گئے ہوئے بلوچ جنگجوؤں کو بھی افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مذاکرات سے پہلے قریباً روزانہ ہی افغان حکومت اور مغر ب کی افغانستان میں تنصیبات پر طالبان کے حملے جا ری تھے۔ گزشتہ برس جولائی کے آخر تک امریکہ کے 2372 فوجی اس جنگ کی نذر ہو چکے ہیںجبکہ اشرف غنی کے مطابق 2014ء تک افغان سکیورٹی فورسز کے45 ہزار اہلکار مارے جا چکے ہیں۔ اب مذاکرات کا آئندہ دور فروری میں متوقع ہے اور اس کی قیادت ملا عبدالغنی برادر جنہیں حال ہی میں پاکستان نے مذاکرات کی خاطر رہاکیا تھا اور جو طالبان تحریک کے بانیوں میں سے ہیںکریں گے۔ جیسا کہ زلمے خلیل زاد نے اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ جب تک حتمی اتفاق رائے نہیں ہوجاتا جس میں افغانوں کے آپس میں مذاکرات اور سیزفائر بھی شامل ہے اس وقت تک یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ اتفاق رائے ہو گیا ہے۔ یقینا امریکی اسٹیبلشمنٹ کو یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ ہزاروں جانیں اور کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے بعد امریکہ کو افغانستان میں فوج کشی سے کیا حاصل ہوا؟۔ وہ محض پاکستان کو’ڈومور‘ کی رٹ لگا کر مطعون کرتا رہا لیکن مسئلے کی اصل جڑ کی طرف توجہ نہیں دی گئی کہ خوددار قوموں کو فوج کشی کے ذریعے فتح نہیںکیا جاسکتا۔ اب وہ بالآخر اس نتیجے پر پہنچ گیا ہے کہ مذاکرات ہی اس مسئلے کا حل ہے اوران لو گوں کے ساتھ مذاکرات جنہیں سترہ برس قبل فوجی قوت کے بل بوتے پر نکالا تھا۔ اس دوران افغانستان پر ہر قسم کے ہتھیار اورحربے آزمائے گئے حتیٰ کہ گوانتانا موبے جیسے عقوبت خانوںکے بعد بالآخر انہی طالبان سے مذاکرات کرنا پڑے جنہیں وہ زیر کر کے اپنے ڈھب کے لوگوں کو بٹھانا چاہتے تھے۔ حالیہ پیشرفت کے باوجود امریکہ کی ’ڈومور‘ کی رٹ ختم نہیں ہو گی کیونکہ افغانستان میں طالبان کے علاوہ القاعدہ اور داعش اپنی کارروائیاں بدستورجاری رکھے ہوئے ہیںاور اس ضمن میں پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کی پالیسی ترک نہیںکی جائے گی لیکن بالآخر 1975ء میںجیسے ویتنام جنگ کے خاتمے پر امریکی سفیر کو وہاں سے ہیلی کاپٹر پر فرار ہونا پڑا تھا شاید افغانستان میں بھی امریکہ اورمغرب کا یہی حشر ہو۔