بالآخر امریکہ بہادر طالبان کے ساتھ مذاکرات میں کسی حد تک سنجیدہ ہوتا نظر آ رہا ہے کہ اس بار جب مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا ہے تو ابھی تک کوئی ایسی سازش دیکھنے میں نہیں آئی جو پہلے ان مذاکرات کے آغا ز کے وقت دو بارہو چکی ہے۔پہلی دفعہ جب مری میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لئے متعلقہ فریق پہنچ چکے تھے تو ایک رات قبل تین سال پہلے فوت ہوئے تحریک طالبان کے بانی ملاّ عمر کی موت کا اعلان کر دیا گیا جس سے ان مذاکرات کا آغاز ہی نہ ہو پایا۔ دوسری دفعہ جب دوبارہ مذاکرات کی صورت بنی تو بلوچستان میں ایران کے بارڈر کے قریب انکے نئے امیر ملاّ اختر منصور کو امریکی ڈرون نے نشاے پر دھر لیا۔اس پس منظر میں پاکستان کا مذاکرات کے لئے حامی بھرنا یقیناً اس اخلاص کو ظاہر کرتا ہے کہ تمام تر تحفظات اور ناخوشگوار تجربات کے باوجود وہ ایسے ہر موقع پر بین الاقوامی سطح پر اپنی خدمات پیش کرنے کو تیار ہے جس سے پڑوسی اور برادر ملک افغانستان میں امن آ سکے۔اس سلسلے میں پاکستانی حکومت، دفتر خارجہ اور خصوصاً وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تعریف کے مستحق ہیں کہ انہوں انتہائی نا مساعد حالات میں اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو اکٹھا کرنے میں بہت حد تک کامیاب ہو گئے ہیں۔جہاں پر بزرگ اور نئے طالبان کے درمیان ان مذاکرات کے حوالے سے بحث پورے شدّومد سے جاری ہے وہیں ایران کے تحفظات کے حوالے سے بھی بہت اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ ایران شاکی ہے کہ افغانستان کے اندر جو داعش ہے وہ ویسی ہی ہے جو شام کے اندر موجود ہے اور اسکی ڈوریاں امریکہ سے ہلتی ہیں۔افغانستان میں اسکی موجودگی کا مقصد ایران کو نشانہ بنانا ہے۔اسی طرح قطر جہاں پر طالبان کا دفتر کھلا اور مذاکرات کا آغاز ہوا وہ بھی حالیہ مذاکرات میں اپنے کردار کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کر رہا تھا۔ایران کے ساتھ ساتھ شنید ہے کہ پاکستان قطر کو بھی بہت حد تک مطمعن کر چکا ہے ۔ اسی طرح طالبان جو افغان حکومت سے براہ راست مذاکرات پر تیار نہیں تھے انکے بارے میں بھی اطلاعات ہیں کہ وہ اس پر تیار ہو گئے ہیں اور اس بارے میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے حالیہ دورہء افغانستان میں افغان قیادت کو آگاہ کر کر دیا ہے۔ اگرچہ اس سلسلے میں بہت سے مراحل طے کرنا باقی ہیں لیکن ابتدائی پیش رفت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے ہم صحیح سمت میں جا رہے ہیں۔ اس بار مذاکرات شروع ہوئے ہیں تو ابھی تک ایسا کوئی کام نہیں ہوا جس سے ان میں تعطل پیدا ہو سکتا ہو۔ امریکہ کی طرف سے بھی مذاکرات کی پیش رفت اور متوقع نتائج کے حوالے سے مثبت باتیں سننے میں آ رہی ہیں۔ سابق امریکی سفارتکار رابن رافیل نے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے افغان طالبان کیساتھ اچھے تعلقات رکھنا عجیب نہیں ہے بلکہ خوش آئند بات ہے، اسکا فائدہ اب ہو رہا ہے۔اس گروپ کے ساتھ سعودی عرب،ایران اور متحدہ عرب امارات کے بھی تعلقات ہیں اور ماضی میں امریکہ کیساتھ بھی طالبان کے گہرے مراسم رہے ہیں۔ بات چیت بند نہیں ہونی چاہیے کیونکہ ایسا کسی فریق کے لئے بہتر نہیں ہو گا ۔ ایسی آوازیں امریکہ کے اندر سے اٹھتی رہی ہیں اور ان کو بند کرانے کے لئے امریکی اسٹیبلشمنٹ اوچھے حربے بھی استعمال کرتی رہی ہے۔ رابن رافیل جنرل ضیاء کے دور میں پاکستان میں رہ چکی ہیں اور طالبان تحریک کے حوالے سے بھی بہت با خبر خاتون ہیں۔ انکے خلاف کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے لئے جاسوسی کرنے کے الزام میں تحقیقات بھی ہو چکی ہیں جس میں وہ سرخرو ہوئیں۔ ہیلری کلنٹن بھی جب سیکرٹری خارجہ تھیں انہوں نے سینیٹ کمیٹی کے سامنے وہ سارے سچ بولے جو 1979ء میںافغانستان میں روسی مداخلت سے شروع ہو کر امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ تک واقع ہوئے۔اس بات کے اقرار کے باوجود کہ امریکہ نے روس کے خلاف سرد جنگ جیتنے کے بعد پاکستان کو مسلح اور منظم آزادی کی جنگ لڑنے والے مجاہدین کے ساتھ تن تنہا چھوڑ دیا اور نائن الیون تک مڑ کر خبر نہ لی بلکہ پاکستان کو مختلف اوقات میں حیلے بہانوں سے پابندیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ایک وقت میں جنرل مشرف اور ان کی حکومت کو ڈبل گیم کا طعنہ بھی دیا گیا اور اس کی وجہ جنرل مشرف کی یہ تجویز تھی کہ صرف جنگ اس مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ ہمیں طالبان جو کہ ایک بڑے سٹیک ہولڈر ہیں انہیں بھی پاور شئیرنگ کا حصہ بنانا چاہئے۔2006 ء میں جس تجویز کو ڈبل گیم کہا گیا اب امریکہ اسی تجویز کے ساتھ پاکستان کی جان کو آیا ہوا ہے کہ افغانستان کے اندر اپنا اثرو رسوخ استعمال کر کے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے تا کہ اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل تلاش کیا جا سکے۔اور اسکے بعد امریکہ اپنی فوجیں لے کر یہاں سے واپس لے جا سکے لیکن ایسا ہو گا نہیں۔ طالبان سے کامیاب مذاکرات کے بعد امریکہ کسی طرح افغانستان میں اپنی موجودگی کا جواز تلاش کرے گا اسکا تذکرہ بھی رابن رافیل نے اپنے بیان میں کچھ اس طرح کیا ہے، امریکہ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے کہ افغانستان مستقبل میں دہشت گردوں کی آماجگاہ نہ بھی بنے جہاں سے امریکہ پر کسی بڑے حملے کی منصوبہ بندی کی جا سکے۔ امریکہ یہ جائزہ بھی لے رہا ہے کہ انخلاء کے بعد طالبان دوسرے دہشت گرد گروپوں کے ساتھ مل کر طاقت نہ پکڑ لیں۔ گویااس بات کا فیصلہ امریکہ نے کرنا ہے کب افغانستان اس قابل ہو گا کہ افغانستان سے دہشت گردی کا مکمل صفایا ہوگیا ہے تو اسکا مطلب تو پھر نا ہی سمجھیں۔ نہ امریکہ بہادر مطمئن ہو گا نہ وہ یہاں سے جائے گا۔اگر امریکہ ہر طرح سے مطمئن بھی ہو جاتا ہے تو پھر بھی اسکی طرف سے مکمل انخلاء کا کوئی امکان نہیں کیونکہ وہ خطے میں روس اور چین کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لئے تو اٹھارہ سال پہلے یہاں آیا تھا ۔