طالبان جب 24جون 1994ء بمطابق 15محرم 1415ھ بروز جمعہ ایک سادہ سی تحریک لے کر اٹھے تو اس وقت تک دنیا بھر میں لاتعداد اسلامی تحریکیں نفاذ شریعت کیلئے اپنے اپنے ملکوں میں جہدوجہد کررہی تھیں، مگر مسلسل شکست اور ناکامی ان کا مقدر تھی۔ ان تمام اسلامی تحریکوں کے پاس ایک ہی ’’نسخہ ‘‘تھا، یعنی پُرامن سیاسی جدوجہد کے ساتھ ساتھ حسبِ ذائقہ جمہوریت کا تڑکا ۔یعنی کسی ملک میں کسی بھی قسم کی حکومت ہوسب کو بدلنے کا ایک ہی راستہ۔ مثلاً پاکستان میں آئین ہے، الیکشن ہے، یہاں بھی انقلاب کا نسخہ پُرامن سیاسی جمہوری جدوجہد ہے اور سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، بحرین اور اردن وغیرہ میں نوآبادیاتی افواج نے اپنی قوت سے جن بادشاہوں کو مسلط کیا تھا اور آج بھی انہی کی افواج ان کی حکومت کی حفاظت کرتی ہیں، وہاں بھی ’’نفاذ شریعت‘‘کا راستہ پُرامن ، سیاسی، جمہوری جدوجہد۔ کیسا امرت دھارا ہے۔ اس مرنجا مرنج تصورِ انقلاب کو سب سے پہلے آیت اللہ خمینی اور ایرانیوں نے پاش پاش کیا۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ جس طرح شاہ ایران طاقت و قوت اور عالمی آشیرباد سے بزورِ قوت برسرِ اقتدار آیا تھا، ایسے آمر کو جمہوری جلسے جلوسوں کی سریلی موسیقی سے نہیں بلکہ طاقت اور قوت سے ہی اتارا جاسکتا ہے۔ ایران میںطالبان کی طرح زیادہ طاقت کے استعمال کی نوبت اس لیئے نہیں آئی، کیونکہ اس معاشرے کو ایک طویل جنگ نے اسقدر تقسیم اور مسلح نہیں کر رکھاتھا۔لیکن طالبان کا سامنا ایسے گروہوں سے تھا جن کو مسلح بھی کیا گیا تھا اور پھر اپنے مذموم مقاصد کیلئے مسلسل استعمال بھی کیاجارہا تھا۔ طالبان کے سامنے اب وہی ایک راستہ تھا جو منہج نبوی تھا، یعنی کسی ایک علاقے سے طاغوت کا خاتمہ کر کے وہاں شریعتِ محمدی ﷺ کا مکمل نفاذ کرتے ہوئے ،ایک ایسا مثالی معاشرہ قائم کیا جائے جس کی خوشبو سے اطراف کے لوگ جوق در جوق اس کا حصہ بنتے چلے جائیں۔ طالبان کو وارلارڈز میں بکھرا ہوا افغانستان ملا، جس پر نہ کوئی منظم فوج حکمران تھی اور نہ ہی کوئی فعال سیاسی حکومت تھی۔ ان کا مقابلہ جتھوں سے ہوا اور انہوں نے شاندار طریقے سے کم سے کم خون بہاتے ہوئے پورے افغانستان پر 1996ء میں ایک شرعی نظام کا نفاذ کرکے دکھا دیا۔ یہی وہ نظام تھا جس کے خلاف پوری دنیا میں ’’طالبان فوبیا‘‘ کا آغاز ہو۔ اسلامو فوبیا تو نائن الیون کے بعد آیا، لیکن طالبان فوبیا کے خلاف ایسابدترین پروپیگنڈہ کیا گیاکہ پاکستان میں بیٹھے ہوئے ’’عالم دین‘‘ بھی یہ کہتے پھرتے کہ ہمیں طالبان والا اسلام نہیں چاہیے۔ طالبان کو جو پانچ فیصد افغانستان میں موجود شمالی اتحاد سے مسلسل لڑایا گیا، وہ بھی انکے لیئے خیرکا باعث بنا۔ ایک تو وہ مسلسل حالتِ جہاد میں رہے اور دوسرا ان میں سے کوئی ایک بھی گروہ ایسا پیدا نہ ہوسکا جو یہ کہتا کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک میں بھی ہمیں شریعت نافذ کرنا چاہیے۔ یہ وہ غلطی تھی جو آیت اللہ خمینی کے ایران نے کی اور پوری اُمت میں ایک ایسا اختلاف پیدا ہوا کہ جو لاتعداد جانیں لے گیا اور آج بھی درجن بھر ممالک اس کی آگ میں سلگ رہے ہیں۔ طالبان کو عالمی جکڑ بندیوں کا اندازہ تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ یہ جو قومی ریاستوں کی ’’مقدس‘‘لکیریں ہیں، انہیں عالمی برادری کبھی عبور نہیں کرنے دے گی۔ یہی بات اُس وقت علامہ اقبالؒ کے پیش نظر بھی تھی ،جب وہ دو قومی نظریہ پیش کر رہے تھے۔ اقبالؒ نے علاقائی نظریۂ قومیت و وطنیت کے خلاف ہونے کے باوجود صرف ہندوستان کی سرحدوں کے اندرمقیم مسلمانوں کے لیئے ہی ایک آزاد اسلامی وطن کا نقشہ پیش کیا۔ طالبان بھی اگر اپنی حکومت کے دوران عالمی خلافت کے قیام اور دنیا بھر میں شریعت کے نفاذ جیسے نعروں کی راہ پر چل پڑتے تو عالمی طاقتوں کے ساتھ ستاون اسلامی ملکوں کی افواج مشترکہ طور پر ان پرچڑھ دوڑتیں اور انہیں کچل کر رکھ دیا جاتا۔ طاغوت سے لڑنے، آزادی حاصل کرنے اور عالمی طاقتوں کو شکست دینے کے لیئے بھی طالبان کی حکمتِ عملی اور ماڈل دنیا بھر میں حصول آزادی اور نفاذ شریعت کی تحریکوں کے لیئے آج مشعل راہ بن چکاہے۔ گیارہ ستمبر 2001ء کے بعد دو ملک براہ راست محکوم بنائے گئے۔ ایک عراق اور دوسرا افغانستان۔ جبکہ دو مسلمان خطے گذشتہ ستر سال سے آزادی کی جدوجہد کرتے چلے آرہے ہیں، ایک کشمیر اور دوسرا فلسطین۔ مسلم اُمّہ میں لڑنے کے دو طریق کار موجود تھے، ایک حزبِ التحریر اور دوسرا القاعدہ جبکہ قومی سطح پر آزادی اور نفاذِ شریعت کی لاتعداد تحریکیں چل رہی تھیں۔ حزب التحریر ریاست کے قیام سے پہلے ہتھیار اٹھانا نہیں مانتی ، لیکن وہ قومی ریاستوں کو توڑ کر ایک مرکزی خلافت کی قائل ہے ،جبکہ القاعدہ ریاستی سرحدوں سے ماورا طاغوت اور عالمی طاقتوں سے مسلسل جہاد کی قائل ہے۔ حزب التحریر کے پاس ایک ریاستی حکومتی نقشہ موجود ہے جبکہ القاعدہ نے ابھی تک ایسی کسی حکومت کا کوئی خاکہ تیار نہیں کیا۔عراق میں ایک سازش کے تحت داعش کو پیدا کیا گیا،جس نے ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کا اعلان کیا اور دنیا بھر سے مسلمان جہادی وہاں جاپہنچے اور عالمی قوتوں نے انہیں بری طرح کچل کر رکھ دیا۔ طالبان کے سامنے یہ تمام ماڈل موجود تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ کشمیر اور فلسطین کا معاملہ پہلے دن سے اسلام نہیں بلکہ قومیت کی بنیاد پر لڑا جارہا ہے، ا س لیئے نہ اس پر اللہ کی نصرت کا سایہ ہوتا ہے اور نہ ہی جذبہ جہاد کی سچائی ابھر کر سامنے آتی ہے۔ فلسطین میںملحد، عیسائی، یہودی اور سیکولر عرب ایک قطعۂ زمین آزاد کروانا چاہتے تھے اور کشمیر کو بھی برصغیر کی تقسیم کے نامکمل ایجنڈے کی سولی پر چڑھا کر لوگوںکے دلوں میں نفاذشریعت کو صرف ایک جذباتی نعرہ بنا دیا گیا ہے۔ جس دن امریکی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں، ملا محمد عمرؒ کی وہ تقریر جو انہوں نے شوریٰ کے سامنے کی ہے، اسلامی تحاریک اور آزادی کے حصول کیلئے ہونے والی جدوجہد کے لیئے مشعل راہ ہے۔ اس طویل تقریر اور بعد کی ہدایات کا لبِ لباب یہ تھا کہ امریکہ اور عالمی طاقتوں سے لڑائی کا دائرہ کار صرف افغانستان تک محدود رکھا جائے اور دوسری اہم بات یہ کہ لڑائی کا مقصد صرف افغانستان کی آزادی نہیں بلکہ شریعت کا نفاذ ہوگا۔ ہمیں ایسا آزاد افغانستان نہیں چاہیے جس میں شریعت نہ ہو۔ ہمیں امن اور خوشحالی صرف شریعت کے زیرِ سایہ چاہیے۔یہی وجہ ہے کہ طالبان نے خلافت کی جگہ ’’امارت‘‘کا نام استعمال کیا۔ یہ وہ دو رہنما اصول تھے، جنہوں نے طالبان کی تحریک کو خالصتاً جہاد اور سنتِ رسول اللہ ؐ کے تابع کر دیا ۔ جبکہ اس کے برعکس عراق میں جدوجہدعراقی قومیت، کرد قومیت اور مسلکی بالادستی کے گرد گھومتی رہی اور آج وہاں چودہ لاکھ انسانوں کو مروانے کے باوجود عراق امریکہ کا محکوم ہے۔ جبکہ افغانستان میں دونوں جانب صرف دو لاکھ اکتالیس ہزار نفوس کی قربانی (جن میں ساٹھ ہزار پاکستانی بھی شامل ہیں) کے بعد طالبان ماڈل نے عالمی طاقتوں کو ذلت آمیز شکست بھی دی،اب پورے ملک میں شریعت کے نفاذ کی جانب گامزن بھی ہیں اور 85فیصد حصے پر مکمل کنٹرول حاصل کرچکے ہیں۔ طالبان کا یہ انقلابی طریقِ کار ،سوڈان سے ملائیشیا تک ہر اس مسلمان حکمران کی نیندیں حرام کرنے لیئے کافی ہے ،جو غیر ملکی افواج کے بل بوتے پر بادشاہ بنا بیٹھا ہے یا ملکی افواج کے آسرے پر ڈکٹیٹر۔ عرب ممالک میں اخوان المسلمون سے لے کر دیگر اسلامی تحریکوں تک سب کے لیئے گذشتہ راستے پر قائم رہنا مشکل ہوگا۔ کشمیری تو ذاکر موسیٰ کی قیادت میں گذشتہ دو سالوں سے پکار اٹھے ہیں کہ ہمارا رول ماڈل ’’طالبان‘‘ ہے، جو سکھاتا ہے کہ اگر سارے پڑوسی بھی خلاف ہوجائیں تو صرف اللہ کی نصرت سے جنگ جیتی جاسکتی ہے۔ سید الانبیاء ﷺ کی بشارتوں والی سرزمین ’’خراسان‘‘میں طالبان کا انقلابِ اسلامی کا یہ ماڈل اسقدر کامیاب ثابت ہواہے کہ آج امریکہ سمیت تمام مغربی طاقتیں اس سے شکست کھا چکی ہیں اورمشرقی طاقتیں یعنی روس، چین،پاکستان، ایران اور خطے کے دیگر پڑوسی طالبان کو ایک قوت اور اسلامی شرعی ریاست کے علمبردار کے طور پر تسلیم کر رہے ہیں۔ اس وقت طالبان ماڈل سے خوفزدہ صرف وہ مسلمان بادشاہ یا ڈکٹیٹر ہیں جن کی عوام میں جڑیں نہیں اور پھر وہ حکمران جو مسلمانوں کی خواہشات کے برعکس سیکولر، لبرل معاشرت کے نفاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں۔(ختم شد)