امریکی وفد میں اس بار زلمے خلیل زاد جیسے گھاگ افغانی کے علاوہ جن تین نئے ارکان کو شامل کیا گیا ان کی شناخت بین الاقوامی میڈیا میں زیادہ نمایاں نہ ہو، اس بات کویقینی بنایا گیا۔ یہ لوگ جنگی تنازعات کے اختتامی مذاکرات سے متعلق کئی طرح کے کورسز کر چکے ہیں۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیاں اور دفاع سے متعلق ادارے ایسے کورسز کرواتے ہیں۔ امریکی ابھی تک یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے مذاکرات کار دنیا میں سب سے بہتر ہیں اور قومی مفادات کا تحفظ کرنے میں کوئی ان سے برتر نہیں۔ دوحہ میں طالبان سے امریکی انخلا کے معاملات پر مذاکرات کا یہ پانچواں دور تھا جو سولہ روز تک جاری رہا۔امریکہ دنیا کی جدید سائبر، سپیس اور جنگی ٹیکنالوجی کا لیڈر، اس کی معیشت دنیا کی سب سے بڑی معیشت۔ اقوام متحدہ، عالمی بینک، آئی ایم ایف اور نیٹو اس کی باندیاں۔ دوسری طرف طالبان، جنہوں نے بین الاقوامی تعلقات اور مسلح تنازعات کے بارے میں کوئی تربیتی کورس کیا نہ ان کا دنیا میں کوئی حلیف و اتحادی۔ امریکی وفد کو گمان تھا کہ طالبان ان کی مسکراہٹ کو احسان سمجھتے ہوئے ہر شرط مان لیں گے۔ ایک امریکی مذاکرات کار نے فائل کھولی۔ کچھ اعداد و شمار کو شرکاء کے سامنے رکھا اور طالبان کو وہ شرائط پڑھ کر سنانا شروع کردیں جن پر انخلا سے قبل امریکہ عمل درآمد چاہتا ہے۔ پہلی شرط یہ تھی کہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد طالبان کی پناہ میں ہیں۔ طالبان ان کو امریکہ کے حوالے کریں یا ان کو نکال دیں۔ جونہی امریکی مذاکرات کار نے یہ شرط پڑھی۔ طالبان نمائندے نے بے تاثر چہرے کے ساتھ اس کی طرف دیکھ کر کہا، ’’نہیں نکالیں گے۔ وہ ہماری پناہ میں ہیں۔ انہوں نے افغانستان سے باہر کبھی کوئی کارروائی نہیں کی‘‘۔ مذاکرات کے سارے کورس دھرے کے دھرے رہ گئے۔ دوسرے امریکی مذاکرات کار نے صورت حال کو سنبھالنے کی کوشش کی اور کہا کہ انہیں بتایا جائے کہ امریکی انخلا کے بعد طالبان کس طرح کا شرعی قانون نافذ کریں گے۔ طالبان نمائندے کے چہرے پر اس بار ایسا تاثر تھا جو کسی احمق کے سوال پر ابھرتا ہے۔ ’’ہم خودمختار ہیں، تمہیں کیوں بتائیں کہ کون سا قانون نافذ کریں گے، تم اپنا کام کرو۔‘‘ یہ وہ دو سوال تھے جن کے جواب طالبان نے نہ دے کر بتا دیا کہ افغان جنگ کافاتح کون ہے۔ امریکہ طاقتور نہیں بلکہ ایک بے رحم ملک ہے۔ اس کی سفاکیت ہی اس کی طاقت ہے۔ د نیا کی پسماندگی یہ ہے کہ امریکی اور مغربی یونیورسٹیوں میں بین الاقوامی تعلقات اور توازن طاقت کی جتنی تھیوریاں پڑھائی جاتی ہیں وہ امریکہ کو واحد سپر پاور فرض کرکے زیر بحث لائی جاتی ہیں۔ روس اور جرمنی میں بین الاقوامی تعلقات اور توازن طاقت کے نظریات پر امریکہ کا کچھ اثر دکھائی دے سکتا ہے مگر وہاں ایسا تحقیقی مواد موجود ہے جو امریکی اثر و رسوخ سے آزاد رہ کر کسی ریاست کو بین الاقوامی برادری میں باوقار مقام پانے میں رہنمائی فراہم کرسکتا ہے۔ امریکہ نے بین الاقوامی تعلقات کی آج تک جتنی تھیوریز پر کام کیا ان کی تعداد پچاس کے قریب ہے۔ بنیادی وہی پانچ چھ ہیں۔ رئیلزم، لبرلزم، کنسٹرکٹوزم، مارکس ازم، ماڈرن ازم وغیرہ۔ ان درجنوں تھیوریز میں سے اکثر وہ ہیں جو امریکہ نے کسی خطے میں اپنے مفادات کو محفوظ بنانے کے لیے استعمال کیں اور کامیابی پائی۔ معلوم نہیں سکالر افغانستان میں امریکی مداخلت کا تاریخ کو کیا تسلی بخش جواب دے پائیں مگر یہ سچ ہے کہ طالبان نے امریکی دفاعی محققین کی قابلیت کو بیچ چوراہے بے نقاب کردیا۔ امریکہ اپنے سکیورٹی کمپلیکس پرجتنا فخر کرتا رہا ہے اب وہ اس کے لیے شرمندگی کا باعث بنا ہوا ہے۔ ممکن ہے پاکستان، افغانستان اور کچھ دیگر ممالک کے لوگ اس صورت حال پرخوش ہوں، اپنے لیے تکلیف کا باعث بننے والے کو مشکل میں گرفتار دیکھ کر خوش ہوا جا سکتا ہے۔ خوشی کی وجہ اس کی تکلیف نہیں بلکہ اس کے ہاتھوں ممکنہ آزار سے بچ جانے کا احساس ہے مگر کیا سچ میں ایسا ہو گا۔ کیا اس بات کی کوئی ضمانت دی جا سکتی ہے کہ امریکہ اپنی شرمندگی اور خجالت مٹانے کے لیے ایک نیا محاذ نہیں کھولے گا؟ دنیا میں جن اصولوں کو آفاقی قبولیت اور سچائی کا درجہ مل چکا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔ لگ بھگ 75 برس تک عالمی برادری نے اپنے معاملات میں امریکہ کو مختار کل بنائے رکھا۔ امریکہ جس پر چاہتا پابندیاں عائد کردیتا، عالمی سطح پر سماجی مقاطعہ یا حقہ پانی بند کردیتا، دہشت گرد قرار دیتا اور جب اور جہاں چاہتا بین الاقوامی اصولوں کو توڑ ڈالتا، امریکی اسٹیبلشممنٹ آج بھی یہ سمجھتی ہے کہ بین الاقوامی برادری اس پالیسی کی پابند ہے جو امریکہ کی خواہش ہو۔ یورپ میں امریکہ نے ایک خوفناک پروپیگنڈہ کیا ہے کہ مسلمان دہشت گرد ہیں۔ یورپی شہریوں کو امریکہ اور مغربی ذرائع ابلاغ نے مسلمانوں کی شناخت مسخ کر کے دکھایا ہے۔ عشروں سے امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا میں ہونے والے اس پروپیگنڈہ کے کئی مظاہر دیکھے جا چکے ہیں۔ مسلمانوں کو جہاز اور بس سے اتار دیا جاتا ہے، خواتین کے حجاب زبردستی اتارے جاتے ہیں، مسلمان بچوں کو تعلیمی اداروں میں امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے، تفریح گاہوں میں ان کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ قرآن پاک کی بے حرمتی اور خاکے بنائے جاتے ہیں۔ اس کا ردعمل اب امریکہ سے زیادہ اس کے اتحادیوں کے لیے باعث آزار ہوگا۔ نیوزی لینڈ میں جو کچھ ہوا وہ بین الاقوامی پالیسیوں پر امریکہ کا اثرورسوخ قبول کرنے کے باعث ہوا۔ دنیا اب نئے بین الاقوامی نظام کی تلاش میں نکلے گی۔ اس صورت حال میں پاکستان کے پاس کچھ مواقع آئے ہیں۔ پاکستان مسلح تنازعات اور سماجی سطح پر پائی جانے والی نفرت کو قابو میں رکھنے کی صلاحیت حاصل کر چکا ہے۔ امریکہ خود تخریبی کی راہ پر چل رہا ہے، اس راہ سے جو ہٹ جائیں گے عافیت صرف ان کو ملے گی۔