قائد اعظمؒ پر فلم بنا کر شہرت حاصل کرنے والے ڈاکٹر اکبر ایس احمد، نوکری کے اعتبار سے سول سرونٹ تھے اور طبیعت و مزاج بھی افسر شاہی جیسا ہی رکھتے تھے۔ جن دنوں وہ کمشنر کوئٹہ تھے تو چمن سے کسی نے انہیں اناروں کی دو پیٹیاں بھیجیں۔ کمشنر صاحب کے ملازمین نے بخوشی پیٹیاں کھولیں تو دونوں پیٹیوں میں اناروں کے ساتھ ساتھ دو عدد ہینڈ گرنیڈ بھی نکلے۔ اکبر ایس احمد صاحب کمشنر بہادر نے فوراً مجھے فون کیا جو اس وقت اسسٹنٹ کمشنر چمن تھا۔ میں نے اس سادہ لوح اچکزئی کو بلایا اور ان گرنیڈوں کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے انتہائی سادگی سے جواب دیا کہ میں سپین بولدک کے بارڈر پر گیا تھا اور وہاں پر قندھار سے بہترین انار آ رہے تھے، میں نے خاص طور پر دریافت کر کے سب سے اچھے اناروں کی دو پیٹیاں ایک ٹرک سے اُتروائیں اور ایک ڈبل کیبن پک اَپ میں رکھوا کر فوراً کوئٹہ روانہ کیں تاکہ تاخیر کے باعث خراب نہ ہو جائیں۔ یہ 1988ء کے جنوری کا واقعہ ہے۔ سوویت یونین کی افواج کو افغانستان میں داخل ہوئے آٹھ سال ہو چکے تھے۔ افغان مجاہدین کا جہاد زوروں پر تھا۔ افغانستان کی اس جنگ کا اثر پاکستان پر بہت زیادہ تھا۔ سپین بولدک کی سرحد عبور کر کے، آپ جیسے پاکستان میں داخل ہوتے، آپ کو چند کلو میٹر کے فاصلے پر ہی خوجک پہاڑ کے دامن میں بوغرہ کاریز کے ساتھ، وکیل عبدالصمد کے نورزئی قبیلے کا مہاجر کیمپ نظر آتا۔ عالم یہ تھا کہ اس کیمپ پر روزانہ رات ہوتے ہی سپین بولدک میں نجیب اللہ کے جرنیل عصمت اللہ مسلم کے کیمپ سے گولہ باری شروع ہو جاتی اور جواباً وکیل عبدالصمد والے بھی مارٹر گولوں سے اس کا جواب دیتے۔ یوں چمن والوں کی اکثر راتیں گولہ باری کی اس گھن گھرج میں گزرتیں۔ سرحدی اضلاع میں لاتعداد مہاجر کیمپ تھے جن میں بعض تو مکمل افغان قصبے لگتے تھے، جیسے خانوزئی کے قریب ’’سرخاب‘‘ کیمپ اور دالبندین کے قریب ’’محمد خیل‘‘ کیمپ۔ افغان مہاجرین جن میں پشتون، تاجک اور اُزبک، ہر قومیت کے لوگ شامل تھے، وہ کھیتوں میں کام کرتے، باغات لگاتے اور مزدوری کرتے۔ لیکن اس سب کے علاوہ روس کی خفیہ ایجنسی ’’کے جی بی‘‘ اور افغان خفیہ ایجنسی ’’خاد‘‘ کی مشترکہ منصوبہ بندی سے پاکستان کے شہروں میں مسلسل دھماکے کروائے جاتے۔ دھماکوں کا تسلسل ایسا تھا کہ ایک جگہ دھماکہ ہوتا، اور ابھی ہم لاشیں سنبھال ہی رہے ہوتے تھے کہ وائرلیس پر کسی دوسرے دھماکے کی اطلاع مل جاتی۔ اس دور کا افغانستان ایک ایسا ملک تھا جہاں ہمارے ہاں کے جرائم پیشہ لوگ اور مفرور جا کر پناہ لیا کرتے تھے۔ پاکستان سے گاڑیاں چوری کر کے وہاں بیچی جاتی تھیں۔ اس طرح کے پریشان کن حالات کے باوجود، ایک گھنٹے کیلئے بھی کبھی افغانستان سے آنے والے انار، انگور، سیب اور ڈرائی فروٹ کے ٹرکوں کو نہیں روکا گیا۔ اسی طرح کراچی کی بندرگاہ سے جو سامان افغانستان میں برآمد کیا جاتا تھا جسے ٹرانزٹ ٹریڈ (Transit Trade) کہتے ہیں وہ بھی مسلسل جاری رہی۔ سوویت یونین کے چلے جانے کے بعد افغان جہادی گروہوں میں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ پورا افغانستان بد امنی اور خوف کی آگ میں جلنے لگا۔ حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کی جنگ نے وہاں بھارت کو بھی دخل اندازی کا موقع فراہم کیا۔ پورے افغانستان میں جگہ جگہ بھتہ خوروں کی چیک پوسٹیں تھیں، جہاں سے گزرنے والے ٹرک باقاعدہ تاوان ادا کر کے گزرتے۔ اس سب کے باوجود بھی افغانستان سے آنے والے پھلوں اور ڈرائی فروٹ کے ٹرکوں کو کبھی نہیں روکا گیا۔ بلکہ اس دوران تو پاکستان سے سامان، وسط ایشیائی ریاستوں کو بھی جانے لگا تھا۔ 11 نومبر 1994ء کو جب طالبان نے پہلی پیش قدمی کی اس وقت اسی بھتہ خوری کی وجہ سے پاکستان کے این ایل سی کے ٹرکوں کا ایک قافلہ جو وسطی ایشیائی ریاستوں کی طرف جا رہا تھا، اسے چمن سے قندھار کے راستے میں تختہ پل کے قریب کئی دن سے روکا ہوا تھا، اس قافلے کو طالبان نے آ کر بھتہ خوروں کے تسلط سے چھڑوایا تھا۔ طالبان کے پہلے دورِ حکومت کے چھ سالوں میں بھی کبھی افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارت نہیں رُکی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستان ان تین ممالک میں سے ایک تھا جنہوں نے افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ گیارہ ستمبر کے بعد حالات نے پلٹا کھایا۔ افغانستان پر امریکہ نے حملہ کیا اور پھر اپنی مرضی کی کٹھ پُتلی حکومت وہاں قائم کر دی۔ یہ حکومت بیس سال رہی۔ گذشتہ سو سالہ تاریخ میں یہ پاکستان کی سب سے مخالف اور بھارت کی بہترین دوست حکومت تھی۔ وہاں بھارت نے پاکستان مخالف ’’66 ٹریننگ کیمپ‘‘ قائم کر رکھے تھے، جہاں سے دہشت گردوں کو تربیت دے کر پاکستان میں تخریب کاری کیلئے بھیجا جاتا تھا۔ افغانستان سے مسلسل سرحد پار کر کے دہشت گرد آتے اور پاکستانی سرحدی چوکیوں پر حملے کرتے اور ہمارے جوانوں کو شہید کرتے۔ انہی سرحدی خلاف ورزیوں کی وجہ سے ہی پاکستان کو اپنی سرحد پر باڑ لگانا پڑی۔ اتنی بدترین مخالف حکومت کے باوجود بھی ایک دن کیلئے افغانستان کے ساتھ تجارت نہیں رُکی۔ حالانکہ دونوں امریکی کٹھ پُتلی افغان حکومتیں اس قدر بھارت نواز اور پاکستان دُشمن تھیں کہ پاکستان جس کی افغانستان کے ساتھ تجارت کا حجم 2.7 ارب ڈالر تھا مگر ایران کی مدد سے چاہ بہار بندرگاہ کو بھارت کے اختیار میں دینے سے اس کا حجم گھٹ کر صرف 1.6 ارب ڈالر رہ گیا۔ بھارت افغانستان کو اپنے زیرِ اثر رکھنے کیلئے نقصان اُٹھا کر سستی اشیاء فراہم کرتا تھا۔ اس قدر پاکستان دُشمن حکومت کے باوجود بھی افغانستان سے انار، انگور، سیب اور ڈرائی فروٹ کے ٹرک مسلسل آتے رہے۔ لیکن 15 اگست 2021ء کو جیسے ہی طالبان نے اقتدار سنبھالا پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد بند کر دی۔ تاجر جنہوں نے دونوں طرف آرڈر دے رکھے تھے ان کے ٹرک دونوں جانب لمبی قطاروں میں ہفتوں کیلئے کھڑے رہے۔ ہفتوں انتظار کا مطلب یہ تھا کہ تازہ پھل تباہ و برباد ہو جائیں۔ پاکستان سے جو تاجر چینی، آٹا، کوکنگ آئل، کیلے اور دیگر پھل وغیرہ افغانستان بھیجتے تھے انہوں نے اپنے ٹرک بارڈر سے واپس بلا لئے۔ آج بھی دونوں جانب کے تاجر ڈرتے ہیں کہ وہ اگر سامان منگوائیں اور حکومتِ پاکستان سرحد بند کر دے ان کا مال بھی غارت جائے گا اور بھروسہ بھی ختم ہو جائے گا۔ افغانستان کو اللہ نے معدنیات اور پھلوں کی جن نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے اگر پاکستان اپنے مسلمان افغان بھائیوں کیلئے صرف بارڈر ہی کھول دے، تو وہاں کے پھلوں کے ساتھ ساتھ ان کی معدنیات بھی پاکستانی مارکیٹ میں آ جائیں گی، جنہیں پاکستانی تاجر عالمی منڈی میں بیچ کر پاکستانی معیشت کو بہتر بنا سکتا ہے۔ اس وقت افغانستان میں اللہ نے پھلوں کی بہترین فصل دی ہے، اور ان کے پھل پاکستان کے راستے منڈیوں کی تلاش میں ہیں اور افغان طالبان حکومت نے پاکستان سے مسلمان بھائی ہونے کے ناطے درخواست بھی کر رکھی ہے۔ لیکن سمجھ نہیں آتی کہ حکومتِ پاکستان کس کے دبائو میں یہ اقدام اُٹھاتی ہے اور کس کا خوف ہے جو انہیں پاکستان دوست طالبان کیلئے سرحد نہیں کھولنے دیتا اور طالبان دَور سے پہلے کس کی تھپکی تھی کہ پاکستان دُشمن کرزئی اور اشرف غنی حکومت کے دوران سرحدیں ہمیشہ کھلی رہیں۔ یہ کوئی نہ سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ پوری دُنیا، بلکہ پوری ملتِ کفر طالبان کے خلاف متحد ہے۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ تم جمہوریت اور حقوقِ نسواں کی پاسداری کرو تو تمہیں تسلیم کریں گے۔ یہ مطالبہ سعودی عرب کے محمد بن سلمان، متحدہ عرب امارات کے خلیفہ بن زید اور قطر، کویت، مسقط، بحرین، شام، اُردن، مصر اور دیگر ملکوں کے مسلمان بادشاہوں اور ڈکٹیٹروں سے نہیں کیا جاتا۔ سب مسلمان ایک اللہ کی بادشاہی کا اعلان کرتے ہیں۔ لیکن کوئی تو فرق ہے ان طالبان اور دیگر مسلمانوں میں کہ طالبان کا نعرۂ تکبیر دُنیا بھر کے کفر کے سینے میں کانٹے کی طرح پیوست ہوتا ہے جبکہ باقی ممالک فضائوں کو تکبیر کے نعروں سے موجزن بھی کر دیں تو کسی کو کچھ فرق نہیں پڑتا۔