عمران خان کی بطور متوقع وزیراعظم ،تقریر ایسی تقریر تھی جس میں گھسے پٹے الفاظ میں لپٹے بیزار کن دعووں اور بے روح وعدوں، جن کے بارے میں کہنے والے کو بھی پتا ہوتا ہے کہ وہ کبھی وفا نہیں ہونگے،کا کوئی گورکھ دھندہ نہیں تھا۔ یہ سادہ دلی کے ساتھ کی گئی دو ٹوک باتیں تھیں جو دل سے کہی گئیں اور دل میں اتر گئیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ عمران خان سے بہت زیادہ گفتگو کی توقع نہیں رکھی جاتی۔چھل دار اور بل کھائی ہوئی گفتگو کی تو بالکل نہیں۔ایسی بات وہی شخص کرسکتا ہے جس کے پاس کہنے کے لیے واقعی کچھ ہو اور کرنے کے لئے بہت کچھ۔انہیں بہت اچھی طرح اندازہ ہے کہ ان کے مجوزہ بلکہ خوابوں کے نئے پاکستان کو کن چیلنجز کا سامنا ہے اور ان ہی مشکلات کا اظہار انہوں نے کم وقت میں بڑی دلپذیری کے ساتھ کیا ۔ یوں تو ان کی تقریر میں بہت سی باتیں ایسی تھیں جن کا موقع کی مناسبت سے اجمالی تذکرہ ہی مناسب تھا اور ان پہ تفصیلی بات ہوتی رہے گی لیکن انہوں نے بحیثیت وزیر اعظم پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کے متعلق جو چند نکات پیش کئے وہ اس سلسلے میں ان کی سنجیدگی کو ظاہر کرتے ہیں جو گزشتہ حکومت میں اتنی مفقود تھی کہ امریکہ جیسے ملک میں ایک انتہائی نو آموز نوجوان کو جو سفارت کاری کی ادنی سی اہلیت پہ بھی پورا نہیں اترتا، امریکہ کا سفیر لگادیا گیا۔نوجوان سفیر کی امریکہ میں پاکستان کے مفادات میں دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ آخری خبریں آنے تک وہ پینٹا گون میں سینئر اہلکاروںسے ملاقاتیں کرکے اپنی نوکری پکی کروانے کا وعدہ لیتے رہے۔انہیں بجا طور پہ خدشہ ہے کہ عمران خان کی حکومت انہیں اس عہدے پہ، جس کے وہ لائق ویسے بھی نہیں ہیں،فائز نہ رہنے دے گی۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں جہاں ایران ، امریکہ ،مشرق وسطی، سعودی عرب اور بھارت کے ساتھ آئندہ تعلقات پہ بات کی وہیں افغانستان کا ذکر خصوصی طور پہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شاید ہی کسی ملک نے افغانستان سے زیادہ دکھ جھیلے ہوں۔ ان کے لہجے میں وہ درد تھا جو ایک مسلمان کے لہجے میںپڑوسی مسلمان بھائی کے لئے ہوسکتا ہے ۔ ممکن ہے مواخات کا یہ عمرانی مظاہرہ ہمارے لبرل طبقوں کو خوش نہ آیا ہو لیکن عمران خان انہیں کب خوش آئے؟ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ انہیں یو ٹر ن کا طعنہ دینے والے لبرلوں سے زیادہ دائیں بازو والی نون لیگ اور اسلامی جماعتیں تھیں۔ان ہی طعنہ زن جماعتوں کو نوید ہو کہ عمران خان نے افغانستان کے معاملے پہ بھی کبھی یوٹرن نہیں لیا۔ دہشت گردی کے خلاف جاری اس نام نہاد جنگ میں عمران خان کا وہی ایک موقف آج بھی ہے جو پہلے دن تھا۔ یہی عمران خان تھے جنہوں نے گارڈین کو انٹرویو میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو اس امریکی جنگ کا حصہ بننے پہ سخت تنقید کا نشانہ بنا یا تھا۔ ان کے الفاظ اتنے سخت تھے کہ آج بھی دہراتے خوف آتا ہے اور یہ اس شخص کے الفاظ تھے جسے ہر حکومت کا حصہ بننے کا کوئی تجربہ تھا نہ شوق البتہ اسے قوی امید تھی کہ ایک بار وہ اس ملک کی تقدیر ضرور بدلے گا۔ یہ خواہش ان کی زبان کو لگام ڈالنے کے لئے کافی ہوسکتی تھی جب پاکستان میں یہ تاثر عام تھا کہ کوئی حکومت امریکہ کی آشیر باد کے بغیر نہیں بنتی۔امریکی ڈرون حملوں کے خلاف لندن میں مظاہرے ،نیٹو سپلائی کی بندش جس میں جماعت اسلامی نے ان کا ساتھ دیا اور طالبان کے ساتھ مزاکرات پہ مسلسل زوران کی بطور متوقع وزیر اعظم نااہلی کے لیے کافی تھا۔ان کا المیہ لیکن یہ ہے کہ وہ زہرہلاہل کو قند نہیں کہہ سکے۔ اس لیئے اپنوں نے انہیں یوٹرن خان کا لقب دیا تو غیروں نے طالبان خان کا۔ یہ اور بات ہے کہ مشیت ایزدی کے آگے کسی کی نہیں چلتی۔ آج امریکہ طالبان کے ساتھ مزاکرات کرنے پہ مجبور ہے اور عمران خان وزیر اعظم بننے جارہے ہیں۔ اس میں عقل والوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ گزشتہ سال اسی ماہ میں جب صدر ٹرمپ نے افغان پالیسی کا اعلان کیا تھا تو میں نے کئی کالم لکھے تھے۔ میں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ اب امریکہ افغانستان میں طالبان کی کمر توڑنے کی بھرپور کوشش کرے گا اور طالبان کا مکمل صفایا کرکے افغانستان میں ایک آدھ امریکی اڈے کے قیام کے بعد یہاں سے فوجیں نکال لے گا۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ کے افغانستان میں بے تحاشہ اخراجات بھی کنٹرول کئے جائیں گے اور اس کا حل صدر ٹرمپ نے پرائیویٹ امریکی عسکری کمپنیوں کو جنگ کا ٹھیکہ دے کر نکالا تھا جس کے بعد اخراجات میں نمایاں کمی بھی ہوئی تھی یعنی سالانہ چالیس بلین ڈالر کی جگہ دس بلین ڈالر ۔اس کے ساتھ ہی امریکی فوج کے ہی کچھ مخصوص بریگیڈ اتارے گئے تھے جن کی تعداد کم و بیش چھ ہزار تھی۔ میں نے تب بھی کہا تھا کہ افغانستان میں مزید امریکی فوجیوں یا امریکی عسکری جتھوں کی موجودگی حماقت کے سوا کچھ نہیں ہوگی۔ یہ بات صدر ٹرمپ اچھی طرح جانتے تھے لیکن سینیٹر جان مکین اور ان کے ساتھیوں کا خیال تھا کہ اب افغانستان میں ایک فیصلہ کن جنگ ہونی چاہئے جس کا منطقی انجام طالبان کا صفایا ہو ۔ اس سے قبل اوبامہ بھی ذرا سست روی اور احتیاط کے ساتھ اور افغانستان کی تعمیر نو اور انفرا اسٹرکچر کی بحالی کے خوش رنگ ریپر میں یہی کررہے تھے۔ اس میں تیزی خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی اثر انگیزی اور سی پیک کی وجہ سے لانی پڑی۔اس پالیسی کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا۔پہلے طالبان کے سامنے مسلمان بھائی افغان فوجی ہوتے تھے اور نیٹو اور امریکی فوجی ، افغان فوجیوں کے ساتھ مل کر آپریشن کے پابند ہوتے تھے۔ یہ پابندی ختم ہوئی تو طالبان بھی رہے سہے اخلاقی دباو سے آزاد ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اہم صوبوں پہ ان کا قبضہ ہوگیا۔ اپنے زیر انتظام بہت سے اضلاع میں طالبان ویسی ہی حکومت چلا رہے ہیں جو کبھی ملا عمر کی خلافت میں قائم ہوئی اور اڑا کے رکھ دی گئی۔ وہ تعلیم، صحت ، انصاف اور سماجی بہبود کے منصوبوں پہ کام کررہے ہیں اور انہیں اس میں مقامی این جی اوز اور افغان حکام کی معاونت حاصل ہے۔کابل میں ڈنمارک کے سفارتخانے نے ایشلے جیکسن کی تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے جس کا تذکرہ میں نے ایک کالم میں کیا تھا۔ یہ بڑی خطرے والی بات تھی۔ اسی خطرے سے نمٹنے کے لئے بلکہ لوہے کو لوہے سے کاٹنے کے لئے فتووں کا سہارا لیا گیا اور پہلے ملائشیا میں پھر ریاض میں افغان طالبان کے خلاف علما سے فتوے لئے گئے۔ اس پہ طالبان کے امیر ملا ہیبت اللہ اخوند جو ملا عمر کے دور میں چیف مفتی بھی رہے ہیں شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ تمام علما جہاد کے خلاف امریکی ایما اور ڈالروں کے عوض فتوے دے رہے ہیں اور طالبان جہاد کسی صورت ترک نہیں کریں گے جب تک افغانستان میں ایک امریکی بھی موجود ہے۔یہ وہ بیانیہ ہے جسے افغان عوام نے دل کھول کے پذیرائی بخشی جس کا ثبوت عید کے موقع پہ سہ روزہ جنگ بندی کے دوران دیکھا گیا جب عوام طالبان کے ساتھ سیلفیاں بنواتے اور خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ جنگ بندی ختم ہوتے ہی طالبان نے اس نہلے پہ ایک اور دہلا پھینکا اور اعلان کیا کہ وہ صرف ان مقامات پہ حملہ کریں گے جہاں امریکی فوجی اور امریکی پٹھو افغان حکومت کے اہلکار موجود ہونگے ۔عوامی مقامات ان کے جہاد سے مستثنیٰ ہونگے اور طالبان عوامی مقامات سے دور رہیں گے تاکہ متوقع امریکی حملے کی صورت میں عوام محفوظ رہیں۔ چناچہ اس جنگ بندی کے بعد طالبان نے ایسے ہی مقامات پہ حملے کئے جبکہ اس جنگ بندی کو ختم کرنے میں پہل خود افغان حکومت نے کی اور ننگرہار میں امریکی کمانڈوز نے طالبان پہ حملہ کیا جس میں عام افراد کی بڑی تعداد شہید ہوئی۔ اس سے قبل قندوز میں مدرسے پہ افغان حکومت کے حملے میں جان بحق ہونے والے حفاظ بچوں کے لاشے افغان حکومت کے ماتھے کا بدنما داغ بن چکے تھے۔صورتحال اتنی گھمبیر ہوئی کہ مائک پومپیو کو ایک بار پھر افغان حکومت کو تاکید کرنی پڑی کہ وہ کسی بھی طرح طالبان کو مذاکرات پہ مجبور کرے جن کا مطالبہ تھا کہ وہ امریکہ سے براہ راست بات کریں گے۔افغان حکومت کسی قابل ہوتی تو امریکہ کو رشید دوستم اور گلبدین حکمت یار کو واپس نہ بلانا پڑتا۔ رشید دوستم کا استقبال تو طالبان نے ایک بم دھماکے سے کیا، حکمت یار کسی حکمت کے تحت خاموش ہیں۔امریکہ جھک مار کر طالبان سے براہ راست مذاکرات کررہا ہے۔ طالبان امریکہ کے مکمل انخلا سے کم کسی بھی بات پہ راضی نہیں ہیں حتی کہ کسی امریکی اڈے کی موجودگی پہ بھی نہیں جس کا میں نے خدشہ ظاہر کیا تھا اور وہ پوری طرح اپنے مطالبات منوانے کی پوزیشن میں ہیں۔یہی وہ لمحہ تھا جس کا ادراک عمران خان نے پہلے دن کرلیا تھا۔یوٹرن خان کی فراست کو سلام۔