ابتدائے آفرینش سے لے کر آج تک انسانوں نے اپنے مدِمقابل کو شکست دینے کیلئے تین محاذوں پر جنگ کی ہے۔ عسکری، معاشی اور معاشرتی۔ عموماً جنگوں یا دُشمنیوں کا آغاز ایک دوسرے کو معاشی طور پر نقصان پہنچانے سے کیا جاتا تھا۔ اس کیلئے ہر وہ حربہ استعمال کیا جاتا جس کے نتیجے میں دُشمن کوڑی کوڑی کا محتاج ہو جائے۔ کھڑی فصلوں کو آگ لگانے، قافلے لوٹنے اور دُکانیں جلانے سے بھی گریز نہ کیا جاتا تھا۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ آلو کی کاشت کا رواج دراصل جنگوں میں فصلوں کو اُجڑنے سے بچانے کیلئے عام ہوا۔ آلو دراصل زیرِزمین اُگتا ہے اور علاقے روندتی ہوئی افواج کے پاس کبھی اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ زمین کھود کر فصل کو تلف کریں۔ آلو اور جنگوں میں قحط سالی سے بچنے کا تعلق، سترھویں صدی میں آئرلینڈ کی طویل جنگوں میں واضح ہوا جب وہ قوم صرف اسی آلو کی فصل کی وجہ سے مُدتوں اپنے مدِمقابل افواج سے لڑتی رہی۔ ان دنوں آئرلینڈ کا ایک شخص اوسطاً دس آلو کھا جاتا تھا اور اپنے مویشیوں کو بھی آلو کھلاتا تھا، جن سے وہ دودھ اور گوشت حاصل کرتا تھا۔ ہسپانوی جب کولمبس کی سربراہی میں جنوبی امریکہ پہنچے تو انہیں یہ ’’آلو‘‘ بہت مرغوب لگا اور وہ اسے اپنے ساتھ سپین لیتے آئے۔ فریڈرک اعظم نے اسے دیکھا اور اس کے زیرِ زمین ہونے کو ایک نعمت قرار دیتے ہوئے کہا اسے جنگوں میں فصلوں کی تباہی سے بچنے کیلئے وسیع پیمانے پر کاشت کیا جائے۔ جنگوں میں معاشی تباہی سے بچنے کیلئے زیرِ زمین بڑے بڑے غلے کے گودام بنائے جاتے تھے، تاکہ ان کی خوراک کے ذخیرے حملہ آور افواج کی نگاہوں سے بچے رہیں۔ تجارتی راستوں کو روکنا، ناکہ بندی کرنا یہ سب کچھ معاشی مقاطعے کا ایک حصہ رہا ہے۔ مدینہ میں ہجرت کے بعد رسول اکرم ﷺ کی پہلی جنگی حکمتِ عملی یہی تھی کہ کفارِ مکہ کے ان قافلوں کا راستہ روکا جائے، جو شام کی سمت تجارت کیلئے جاتے تھے۔ معاشی تباہی یا مقاطعے کے ساتھ ساتھ ’’معاشرتی بائیکاٹ‘‘ بھی انسانوں کے قدیم ترین ہتھیاروں میں سے ایک ہے۔ جب انسان قبائلی زندگی گزارتا تھا تو کسی ایک فرد سے لے کر پورے قبیلے تک کی سزاء کے طور پر ان کی معاشرتی ناکہ بندی کر دی جاتی تھی۔ ہمارے ہاں اسے ’’حُقہ پانی بند کرنا‘‘ کہتے ہیں۔ اگر کسی فرد کو ’’قبیلہ بدری‘‘ کا حکم صادر کیا جاتا تو پھر اس کیلئے اپنے علاقے میں رہنا دُشوار ہو جاتا۔ اس لئے کہ اس سے کوئی دوسرا قبیلہ تعلقات رکھتا تو وہ دراصل بائیکاٹ کا حکم دینے والے قبیلے کے ساتھ جنگ کا خطرہ مول لے رہا ہوتا۔بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں اس طرح کے واقعات ابھی کل کی تاریخ ہیں۔ آپ کو پنجاب اور سندھ میں لاتعداد ایسے بلوچ خاندان ملیں گے جنہیں ان کے قبیلوں نے اپنے علاقوں سے نکالا تھا اور وہ یہاں آ کر آباد ہو گئے۔ دُشمنی کے خلاف دونوں حربے یعنی معاشی اور معاشرتی ناکہ بندی سے اگر معاملہ حل نہ ہو تو پھر تلواریں سونت لی جاتیں اور میدان میں نکل کر ایک دوسرے سے جنگ کی جاتی۔ یہی ترتیب آپ کو تاریخ کی تمام جنگوں میں نظر آتی ہے۔ سیرت النبی ﷺ کی ترتیب بھی یہی ہے۔ جس کا ایک باب ’’شعبِ ابی طالب‘‘ کے ابتلاء کے اڑھائی سال ہیں، جب مکہ کے تمام سرداروں نے پورے بنی ہاشم قبیلے کا معاشی اور معاشرتی مقاطعہ کر دیا تھا اور رسولِ اکرم ﷺ اس مقاطعے سے خالصتاً اللہ کی مدد اور نصرت سے باہر آئے تھے۔ افغانستان میں طالبان کے حوالے سے پہلی دفعہ یہ ترتیب اُلٹائی گئی ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ ترتیب اُلٹی نہ ہو، بلکہ موجودہ سماجی و معاشی مقاطعہ ایک نئی جنگ کیلئے تیاریوں کا آغاز ہو۔ طالبان کے ساتھ معاملہ یہ ہوا کہ اکتوبر 2001ء میں پوری دُنیا اپنی تمام عسکری قوت کے ساتھ ان پر چڑھ دوڑی۔ انہیں بظاہر فوری طور پر فتح نظر آئی، جس نے ہر حملہ آور قوت کو ایک کامیابی کے ’’غرور‘‘ میں مبتلا کر دیا۔ شروع شروع میں، امریکہ سمیت اڑتالیس ملک یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم نے افغانستان سے طالبان کے وجود کو نیست و نابود کر دیا ہے۔ علاقے میں سے اپنے حامی تلاش کئے گئے، انہیں مضبوط بنایا گیا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ، آہستہ آہستہ طالبان کا جال ایسا پھیلا کہ اس میں امریکہ اور اس کے اتحادی پھنس کر رہ گئے اور کوئی راستہ نکلنے کا نظر نہ آیا، تو مذاکرات کی میز پر آ بیٹھے اور ’’باعزت رخصت‘‘ ہو گئے۔ طالبان واپس برسرِاقتدار آ گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکی ابتداء ہی میں عسکری طور پر کیوں افغانستان میں داخل ہوئے تھے۔ کیا صرف معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ سے طالبان پر قابو نہیں پایا جا سکتا تھا۔ امریکہ اور عالمی برادری یہ حربے آزما چکی تھی۔ 1996ء سے 2001ء تک طالبان کی حکومت کو کسی بڑی عالمی طاقت اور یورپی ممالک نے تسلیم نہیں کیا تھا۔ تسلیم کرنے والے صرف پاکستان،سعودی عرب اور متحدہ ارب امارات تھے۔ طالبان نے دُنیا بھر کے ممالک کے معاشرتی بائیکاٹ کے باوجود حکومت چلا کر دکھائی اور وہ بھی ایسی کہ ان کے دَور میں انصاف اور امنِ عامہ کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے وہاں تھوڑی بہت مدد دیتے تھے، لیکن وہ بھی بے دِلی کے ساتھ۔ یہی وجہ ہے کہ 2000ء میں جب وہاں شدید قحط سالی تھی، تو مارچ 2001ء کو بامیان میں بدھ کے مجسموں کی تباہی کا بہانہ بنا کر اقوامِ متحدہ کے دفاتر بھی بند کر دیئے گئے۔ ’’یونیسف‘‘ کی بیکریاں جو روٹی دیتی تھیں، بند ہو گئیں۔ پاکستان سے ’’الرشید ٹرسٹ‘‘ نے ہزاروں تندور افغانستان میں کھولے اور روٹی کی قلت نہ ہونے دی۔ یہی وجہ ہے کہ گیارہ ستمبر کے بعد الرشید ٹرسٹ ان چند تنظیموں میں سے تھا جس پر سب سے پہلے پابندی لگائی گئی۔ اس قحط سالی کے باوجود طالبان حکومت سات ماہ بعد بھی قائم تھی اور اب عالمی طاقتوں کے پاس اور کوئی راستہ باقی نہ تھا کہ ان پر حملہ کر دیا جائے لیکن اب بیس سال بعد تین ہزار ارب ڈالر پھونکنے کے باوصف، فوجی سطح پر بھی ذِلت آمیز شکست ہو گئی۔ پہیہ پھر سے اُلٹا گھمایا جا رہا ہے یعنی وہ تمام ممالک یا قوتیں جو میدانِ جنگ میں شکست کھا چکی ہیں، اب سفارتی اور معاشی بائیکاٹ کا ’’ہتھیار‘‘ استعمال کر رہی ہیں۔اس ہتھیار کے استعمال کی باتیں فروری 2020ء سے شروع کر دی گئیں تھیں۔ دُنیا بھر میں یہ پروپیگنڈہ عام کر دیا گیا تھا کہ طالبان تنہا یہ حکومت نہیں چلا سکیں گے۔ امریکہ نے 20 سالوں میں افغانستان کو بہت بدل دیا ہے۔ اب افغان پہلے جیسے نہیں رہے۔ اب یہ انٹرنیٹ کے عادی لوگ ہیں لیکن حقیقت اسکے برعکس ہے، امریکہ نکلا تو سب سے پہلے یہی انٹرنیٹ کے عادی لوگ ہی ایئر پورٹ کی جانب بھاگے امریکیوں کے ساتھ ہی ملک چھوڑ گئے۔ امریکی تبدیلی کی سب سے بڑی علامت، تین لاکھ فوج تھی، جو کاغذ کے بنے ہوئے پُتلوں کی طرح ڈھیر ہو گئی۔ تین لاکھ عظیم فوجی اربوں ڈالر کا اسلحہ طالبان کے حوالے کر کے ہتھیار ڈال گئے۔ اب پیچھے رہ گئے طالبان، اور ان کی افغان قوم، جنہیں لڑنا بھی آتا ہے اور جنہیں معاشی بائیکاٹ کا بھی تجربہ ہے اور معاشرتی مقاطعے کا اندازہ بھی۔ طالبان جو تازہ تازہ عسکری جنگ جیتے ہوئے ہیں اب یہ معاشی و معاشرتی مقاطعہ بھی جیت جائیں گے۔ اللہ اگر انہیں تعداد اور قوت میں کم ہونے پر ’’بدر‘‘ کی طرح فتح یاب کروا سکتا ہے تو اس ’’عالمی شعبِ ابی طالب‘‘ سے بھی ضرور نکالے گا یہ اس کا وعدہ ہے۔ لیکن روزِحشر ایک ارب 60 کروڑ مسلمان اپنے لئے جواب سوچ لیں کہ جب انہیں کٹہرے میں کھڑا کر کے سوال کیا جائیگا کہ جب چار کروڑ مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کیا گیا، تو غلے کے گوداموں اور عیش و عشرت کے سامان کے باوجود تم ان عالمی طاقتوں کی صف میں معاشی بائیکاٹ کرنے کیوں کھڑے ہوئے تھے۔