بیس سال سے طالبان اور امریکہ کے مابین افغانستان میں جاری لڑائی 15اگست کو طالبان کے کابل پر قبضہ ہو جانے کے بعد سے ختم ہوگئی ہے۔ اگرچہ جنگ اور قبضہ ختم ہو چکا ہے مگر افغانستان میں معاملات مکمل طور پر حل نہیں ہو ئے۔ غیر یقینی کا گرد و غبار اگرچہ بیٹھ رہا ہے لیکن ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ افغان قوم یا جنگ کے مرکزی کرداروں امریکہ اور طالبان ، اور علاقائی امن و استحکام کا کیا مستقبل ہو گا۔ 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے بعد امریکہ کی قیادت میں بین الاقوامی برادری کے افغانستان پر حملے کے نتیجے میں طالبان کو بے دخل کیا گیا جبکہ امریکہ نے افغانستان میں لڑائی اور تعمیر نو پر 1 ٹریلین ڈالر سے زائد خرچ کیے ہیں۔ تقریبا 2400 امریکی فوجیوں کے ساتھ ہزاروں افغان فوجی ، طالبان جنگجو اور افغان شہری اِس جنگ میں ہلاک ہوئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہونے والی شرمناک شکست کے باوجود امریکی صدر جو بائیڈن نے اصرار کیا ہے کہ امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا ایک صحیح فیصلہ تھا ، جس نے (بائیڈن کے الفاظ میں) 'ہمیشہ والی جنگ' کا خاتمہ کیا۔ تاہم امریکی صدر جو بائیڈن نے اے بی سی ٹی وی کے پروگرام گڈ مارننگ امریکہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا ہے کہ طالبان کو اپنی بقا کے بحران کا سامنا ہیاور ، امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ اِسے امید ہے کہ طالبان انسانی حقوق سے متعلق اپنے نئے وعدوں کو ’برقرار‘ رکھیں گے۔ طالبان کے ساتھ تناؤ میں غیرضروری اضافے سے بچنے کے لیے ، واشنگٹن طالبان کے رویے کو اس طرح متاثر اور محدود کرنے کی کوشش کرے گا جو افغانستان کے پڑوسی مملک بالخصوص پاکستان اور ایران کے ساتھ مل کر یا قطر اور سعودی عرب کے ساتھ کام کرکے امریکی مفادات کے لیے مستقبل میں پیش آنے والے کے خطرات کے ظہور کو کو روک سکے۔۔ اپنی بار بار کی شکستوں کے باوجود ، امریکہ دنیا کا امیر ترین ، طاقتور ترین ملک ہے جس کے پاس بہت زیادہ leverage (میکانکی مفاد) موجودہے۔ اس مقصد کے لیے ، صدر بائیڈن پہلے ہی افغانستان کے بارے میں مشترکہ حکمت عملی پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے اگلے ہفتے جی 7 رہنماؤں کاایک ورچوئل اجلاس طلب کر رہے ہیں۔ طالبان کس حد تک امر یکہ یامغربی مما لک کادباؤ کو قبول کریں گے اور وہ افغانستان پر کیسے حکومت کریں گے؟ یہ سب سے اہم سوال ہے جس کا جواب بہت جلد ڈھونڈنا مشکل ہے۔ طالبان کے ابتدائی بیانات اور رویے ایک خاص عملیت پسندی ، سمجھوتہ کرنے کی آمادگی اور اس بات کا احساس دلا رہے ہیں کہ اِن حالات میں ملک چلانا ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دارالحکومت کابل پچھلے 20 سالوں کے دوران تبدیل ہو چکا ہے جس کی آبادی میں سرکاری اور نجی شعبوں خاص طور پر غیر سرکاری اداروں میں کام کرنے والے پڑھے لکھے اور متوسط طبقے کی اہم تعداد رہائش پذیر ہے۔ایسا لگتا ہے کہ طالبان کو عوام میں خصوصاً شہری طبقے میں قانونی اور اخلاقی حیثیت کی قبولیت کا مسئلہ درپیش ہے اور یہی طبقہ حکومتی ڈھانچہ کی ریڑھ کی ہڈی ہوتا ہے۔19 اگست کو افغانستان کے یوم آزادی کی تقریبات کے موقع پرافغانستان کے پرچم کے مسئلے پرعوامی جلوسوں کے ساتھ جھڑپ ایک مثال ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ طالبان رہنماؤں نے فیصلہ کن فتح حاصل کی ہے ، لیکن وہ ایک بار پھر الگ تھلگ نہیں ہونا چاہتے جس طرح وہ 1990 کی دہائی کے آخر میں پہلی بار اپنی حکومت کے قیام کے وقت ہوئے تھے۔ لہذا ، انہوں نے پہلے ہی بیجنگ کے ساتھ بات چیت شروع کر دی ہے تاکہ وہ مالی امداد کے ساتھ ساتھ اپنی حکومت کی recognition بھی حاصل کر سکیں۔ چین اپنے اسٹریٹجک بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے ایک حصے کے طور پر پاکستان ، ایران اور دیگر ایشیائی ممالک میں بنیادی ڈھانچے کے بڑے بڑے منصوبوں پر کام کر رہا ہے تاکہ امریکہ کو ایشیا کی اہم طاقت کے طور پر تبدیل کیا جا سکے۔ اِسی طرح طالبان طرزِ حکمرانی اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ ان کا برتاؤ پاکستان کے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے فیصلے پر اثر انداز ہوگا- طالبان کے حالیہ بیانات اور گزشتہ ہفتے کابل سے انخلاکرنے والی افواج کے ساتھ ہم آہنگی اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ طالبان امریکہ کے ساتھ بات چیت بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں تاکہ امریکہ سے طالبان حکومت کو تسلیم کر اسکیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بین الاقوامی مدد کے بغیر ملک کو مستحکم نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لیے ملکی اور بین الاقوامی محاذ پر قانونی جواز ضروری ہے۔ اس سلسلے میں ، طالبان نے تمام سرکاری ملازمین کو عام معافی دی ہے اور سابقہ دور حکومت میں کام کر نے والے پائلٹ اور فوجیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے سابقہ فرائض سنبھال لیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور مختصر وقت میں تربیت یافتہ اور ہنر مند افرادی قوت تلاش کرنا بہت مشکل ہے۔ مزید یہ کہ طالبان یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ لڑکیوں کو سکول جانے کی اجازت ہے جبکہ عورتیں اپنی ملازمتیں جاری رکھیں گی جب تک کہ وہ ’شرعی قانون‘ کے دائرے میں رہیں گی۔ طالبان کو ملک چلانے کے لیے سرمائے اور فنانس کی ضرورت ہے۔ کابل سے فرار ہونے والے بینک کے قائم مقام گورنر اجمل احمدی کے مطابق ، افغانستان کے مرکزی بینک ، دا افغانستان بینک (ڈی اے بی) کے پاس غیر ملکی کرنسی ، سونے اور دیگر صورتوں میں 9 بلین ڈالر کے زرِ مبادلہ کے مجموعی ذخائر موجود ہیں۔ لیکن ، ان میں سے بیشتر اثاثے افغانستان سے باہر رکھے گئے ہیں، جو لگتا ہے کہ طالبان کی پہنچ سے باہر ہیں جب تک کہ طالبان کو امریکہ سمیت عالمی برادری تسلیم نہ کر لے، ملک کو موثر انداز میں چلانے اور عالمی برادری میں تنہائی سے بچنے کے لیے ، طالبان کو ایک جامع حکومت کی تشکیل کی ضرورت ہے اور دوحہ میں طالبان سے مذاکرات کے لیے افغان حکومت کے مندوبین کے سابق سربراہ عبداللہ عبداللہ اورحامد کرزئی کے ساتھ بات چیت میں مصروف ہیں جبکہ طالبان کے بانی رہنما ملا عبدالغنی برادر کابل میں ساتھی مجاہدین رہنماؤں اور سیاستدانوں سے مزاکرات کر رہے ہیں تاکہ اتفاقِ رائے پر مبنی اور سب افغان دھڑوں کے لیے قابلِ قبول ایک حکومت بنائی جا سکے۔