افغانستان میں صدارتی انتخابات پرامن ماحول میں مکمل ہو گیا۔ طالبان کی طرف سے کوئی خاص جہادی سرگرمیاں دیکھنے میں نہیں آئیں۔اکا دکا واردات ہوئی لیکن سکور نہ ہونے کے برابر رہا۔ طالبان کا حتمی اعلان تھا کہ وہ کسی صورت یہ الیکشن نہیں ہونے دیں گے۔ ترجمان نے تو یہاں تک کہا تھا کہ ہماری ایک ایک ووٹر پر نظر ہو گی۔ نہ کوئی ووٹ ڈالے، نہ کوئی ایسی جگہ کے قریب جائے جہاں ووٹنگ ہو رہی ہو لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا جس کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ لوگوں نے ووٹ ڈالے اور قطاریں بنائیں۔ طالبان کے لیے مایوسی کا دور شروع ہو گیاہے۔ وہ چاہتے تو امریکہ افغانستان سے نکل گیا ہوتا لیکن لگتا ہے، وہ ایسا چاہتے ہی نہیں۔ دنیا کی یہ خواہش ہے کہ طالبان امن عمل کا حصہ بنیں لیکن وہ نہیں بنے اور نہ ہی بنیں گے۔ اس لیے کہ امن عمل کا نتیجہ پارلیمانی انتخابات کی صورت میں نکلے گا جو وہ کبھی جیت نہیں سکتے۔ وہ بم اور گولی کے ذریعے افغانستان پر قبضہ اور بلا شرکت غیرے حکومت چاہتے ہیں جو ممکن ہی نہیں، ہاں ایک چوتھائی سے زیادہ وہ رقبہ ان کے پاس ہے اور شاید کافی عرصہ رہے گا۔ 17اکتوبر تک نتیجہ آئے گا۔ اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ میں سے کسی نے واضح اکثریت لے لی تو ٹھیک ورنہ دوبارہ ووٹنگ ہو گی۔ حکمت یار تیسرے امیدوار ہیں۔ وہ کسی ایک امیدوار کو 51فیصد سے کم ووٹ لینے کی وجہ بن سکتے ہیں۔ انتخابات کا اگلا مرحلہ پھر جہاد کی زد میں آ سکتا ہے لیکن زیادہ نہیں۔ کامیاب انتخابی مرحلے سے افغانستان میں امن کی امیدوں کے کھیت کی زمیں ہموار ہو سکتی ہے لیکن ابھی امن کا امکان نہیں۔ فی الحال اور انتظار، کچھ اور خونریزی کے مرحلے قسمت میں لکھے ہیں۔ ٭٭٭٭٭ وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ایک بات ایسی کہی کہ لگا، فیصلے کا وقت آ گیا۔ فرمایا، اب کشمیر پر کارروائی کا وقت ہے۔ اگرچہ یہ واضح نہیں تھا کہ کارروائی کرنے کا مطالبہ کس سے کیا گیا لیکن اگلے ہی لمحے معاملہ اگر سے مشروط کر کے وہی بات کر دی جو کسی زمانے میں ویگنوں کے پیچھے لکھی ہوتی تھی کہ ہمارا مطالبہ مانو ورنہ……!۔ فرمایا اگر جنگ ہوئی تو بڑی تباہی ہو گی۔ یوں صورتحال معمول پر رہی۔ اگر کے ساتھ ایٹمی جنگ کی وارننگ بھی تھی۔ وزیر اعظم نے زور دے کر کہا، یہ وارننگ ہے، اسے دھمکی نہ سمجھا جائے۔ بالکل بجا۔ جس طرح روٹی اور نان الگ الگ چیزیں ہیں، اسی طرح سے دھمکی اور وارننگ بھی جدا جدا ہیں۔ آپ روٹی کو نان نہیں کہہ سکتے اور نان کو روٹی کا نام بھی نہیں دے سکتے؛ چنانچہ یہ بھی وارننگ ہی تھی، دھمکی نہیں۔ دنیا نے اس وارننگ کو سنجیدگی سے لیا یا غیر سنجیدگی سے یا لیا ہی نہیں، ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی ردعمل کسی طرف سے آیا ہی نہیں حالانکہ تقریر لائیو ٹیلی کاسٹ ہوئی تھی۔ وزیر اعظم نے اچھا کیا، وزیروں اور پارٹی رہنمائوں کا وفد اجلاس میں لے گئے۔ یوں حاسدوں کو پہنچنے کا موقع نہ مل سکا کہ ہال بوقت خطاب خالی تھا۔ وزیر اعظم نے جوش کے لمحات میں ہوش کا دامن نہیں چھوڑا۔ خیال خاطر؟ شاید، کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے اس دفعہ کی بحالی کا مطالبہ بھی نہیں کیا جسے ختم کر کے بھارت نے کشمیر ضم کر لیا۔ ماضی میں کشمیر پر زیادہ پرجوش تقریر بھٹو کی تھی، زیادہ مدلل بے نظیر اور نواز شریف کی۔ بھٹو کے دور میں تو پاکستان ایٹمی طاقت نہیں تھا۔ نواز دور میں بنا لیکن نواز شریف سے غلطی ہوئی کہ انہوں نے وارننگ نہیں دی۔ دے دیتے تو ان کی تقریر کا بھی خوب دھوم دھڑکا ہوتا اور دنیا کو پتہ چل جاتا، ارے ان کے پاس تو ایٹم بم بھی ہے۔ ٭٭٭٭٭ مجموعی طور پر دورہ امریکہ بہت کامیاب رہا۔ اگرچہ کشمیر کا پرنالہ جوں کا توں اپنی جگہ پر ہے اور ہلنے کے آثار نہیں لیکن پرنالے کے ہلنے یا نہ ہلنے سے کامیاب دورے پر کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ دورہ با معنیٰ بھی رہا۔ کچھ نئے مفاہیم و مطالب آشکار ہوئے۔ جیسا کہ ایک حقیقت یہ کھلی کہ سعودی عرب کا طیارہ ہمارے ساتھ اور دل ہمارے ماں جائے یعنی ہمسائے کے ساتھ ہے۔ دوسری حقیقت یہ سامنے آئی کہ ٹرمپ بندہ ٹھیک نہیں۔ ایک تو کشمیر پر دو تین بار ثالثی کا کہہ کر مکر گیا کہ اپنے مسئلے خود حل کرو اور دوسری واردات اور بھی بری تھی۔ پہلے ہمارے خان صاحب سے کہا، ایران کے ساتھ ثالثی کروائو، خان صاحب مان گئے تو مکر گیا، کہا، میں نے تو کسی کو ثالثی کرنے کا کہا ہی نہیں حالانکہ ہماے شاہ محمود قریشی نے یہ خبر دی تھی کہ ٹرمپ نے ثالثی کی درخواست کی ہے۔ قریشی صاحب اپنے بڑے سجادہ نشین ہیں۔ وہ غلط بیانی تھوڑا ہی کر سکتے ہیں۔ پکی بات ہے، ٹرمپ نے ثالثی کی درخواست کی، پھر مکر گیا۔ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ جہانگیر ترین نے مصیبت میں پھنسی کسی یورپین قوم کو ’’ریسکیو‘‘ کیا، خطرے سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچایا۔ ترین صاحب ریسکیو کی خدمات انجام دینے کے لیے خاصے مشہور ہیں۔ سال بھر پہلے انہوں نے درجنوں ارکان اسمبلی کو اس وقت ریسکیو کیا تھا جب وہ گم کردہ راہ تھے، کسی اور کو ووٹ دینے کا سوچ رہے تھے۔ ترین صاحب ایک ایک کے گھر اپنا اڑن کھٹولہ لے کر گئے، انہیں صراطِ مستقیم پر لائے اور بنی گالا کی ہدایت گاہ پر پہنچایا۔ ترین صاحب کی توجہ کے منتظر کروڑوں لوگ ہیں۔ سال بھر پہلے چینی 48روپے کلو تھی، اب 80کو چھو رہی ہے۔ ترین صاحب سے گزارش ہے کہ ریسکیو کی ایک نظر ادھر بھی۔ سنا ہے کوئی شوگر کنگ اربوں کما رہا ہے۔ ترین صاحب اس کا بھی پتہ چلائیں کہ کون ہے۔ کس کے سہارے یہ بازار گرم کر رکھا ہے۔ ٭٭٭٭٭