یہ تو ابھی صرف پچیس سال پہلے کی بات ہے۔ کم از کم دو نسلیں زندہ ہیں، جنہوں نے بدترین بدامنی، تشدد، بھتہ خوری، اغواء برائے تاوان والے افغانستان کو چند مہینوں میں امن و آشتی اور انصاف کا گہوارہ بنتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس قیامِ امن کے اثرات اسقدر متاثرکن تھے کہ اس نے پاکستان سے لے کر دنیا بھر تک ، ہراس طبقے کو حیران و پریشان کر دیا ،جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ اور نفاذ ِشریعت کے خلاف گذشتہ کئی سو سال سے جنگ لڑ رہا تھا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے دنیا بھر کی نظروں میں مسلمانوں کا ایک خونخوار، ظالم اور غیر مہذب چہرہ بڑی محنت سے تخلیق کر رکھا ہے۔ یورپ پرعلم وعرفان اور تحقیق و جستجو کے تمام دروازے ،ہسپانیہ کی مسلم تہذیب نے کھولے تھے اور اسی کے زیرِ اثر سپین کے پڑوس میں واقعہ اٹلی میں 1456ء میں سب سے پہلے ’’تحریکِ احیائے علوم‘‘ (Renaissance)شروع ہوئی۔ اس علمی عروج میں سائنس، ادب، فنونِ لطیفہ اور آرٹ نے بہت ترقی کی۔ اس احیائے علوم کے نامور لوگ قرطبہ، غرناطہ اور ططیلیہ کے مسلم علمی مراکز سے فیض یاب تھے، لیکن صلیبی جنگوں میں ’’عیسائی جہادی‘‘ ضروریات کے پیش نظر ،سب سے پہلے انہی مسلمانوں کے لیے قدیم یونانی نفرت انگیز لفظ ’’ بربر‘‘ استعمال کیا گیا، جو وہ اپنے علاوہ ہر قوم خصوصاً مصریوں اور ایرانیوں کے لیے استعمال کرتے تھے۔ مسلمانوں کے لیے ’’بربریت‘‘ کا لفظ نویں صدی عیسوی میں استعمال کیا گیا اور پھر اس کے بعد جتنے خونیں، ظالم اور متشدد تصورات جو اس لفظ کے ساتھ گذشتہ صدیوں سے جڑے ہوئے تھے، سب کے سب مسلمانوں پر چسپاں کر دیئے گئے۔ بربر سے بربریت نکلا اور پھر تاریخ کی کتابوں، مصوروں کی تصویروں، کہانیوں کے کرداروں، یہاں تک کہ کھیل کھلونوں میں بھی ایک داڑھی والے چہرے پر پگڑی پہنے، جبہ و دستار میں ملبوس شخص کو ظالم جادوگر،قاتل، اغواء کار وغیرہ کے روپ میں پیش کیا جاتارہا۔ یہ سلسلہ جدید دور کے کارٹونوں تک آج بھی چلتا آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کے ماحول اور نظام تعلیم میں جوان ہونے والے بچے کو بتاناہی نہیں پڑتا کہ ایک مسلمان بنیادی طور پر ظالم ، جاہل، گنوار، بدتہذیب اور اجڈ ہوتا ہے۔ افغانستان کا المیہ یہ ہے کہ اس کی چار کروڑ آبادی میں سے ننانوے اعشاریہ نو (99.9)فیصد مرد اور عورتیں ایسی ہیں جن کے ملبوس ان قرونِ وسطیٰ کے مسلمانوں جیسے ہیں، جنہیں آج ’’بربر‘‘ کے طورپر پیش کیا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ افغان عورتیں مکمل حجاب کرتی ہیں۔ ظاہری زیبائش کے معاملے میں پشتون، ازبک، تاجک، ترک ہزارہ یا کسی اور افغانی قوم میں کوئی فرق نہیں ہے، یہاں تک کہ افغان معاشرے میںہندو یا سکھ عورت بھی مشہور عام ’’شٹل کاک‘‘برقعے میں ملبوس ہو کر بازار میں آتی ہے۔ افغان معاشرے میں اسلام اسقدر رچا بسا ہوا ہے کہ کوئی پشتون اگر کسی کو نماز نہ پڑھتے یا روزہ نہ رکھتے ہوئے دیکھتا ہے تو اسے مسلمان ہونے کی غیرت نہیں دلاتا بلکہ کہتا ہے ’’تہ سنگہ پشتانہ دی منز نہ کیہ‘‘ (تم کیسا پشتون ہے کہ تم نماز نہیں پڑھتا)۔ یہی وجہ ہے کہ عام افغانوں کی بازاروں ، گھروں، دکانوں، سکولوں یہاں تک کہ کھیل کے میدانوں کی بھی تصویریں کھینچ کر یا ویڈیو بنا کر یورپ میں دکھائیں اور انہیں بتائیں کہ یہ دیکھو،مسلمان دہشت گرد اپنی معمول کی زندگی گزارتے ہوئے ایسے نظر آتے ہیںتو یورپ کے ماحول میں پلا بڑھا بچہ فوراً یقین کرلے گا۔ پروپیگنڈہ کی اس قسم کو جدید زبان میں ’’Prototype‘‘ (تصور کی تخلیق) کہتے ہیں۔ یعنی پراپیگنڈے کے زور سے یہ ثابت کرنا کہ ایک پینٹ قمیض اور ٹائی پہننے والا شخص باعلم، مہذب اور نرم خو ہوتا ہے جبکہ ایک شلوار قمیض اور پگڑی پہننے والا جاہل گنواراور تند خو ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پگڑی اور شلوار قمیض کے برعکس وہ افغان نوجوان جو شیو کرواتے ہیں اورمغربی ملبوس پہنتے ہیں، وہ اپنی غیر معمولی وجاہت و خوبصورتی کی وجہ سے ایک دم مغرب کے کسی بھی نائٹ کلب کے ڈانسنگ فلور پر خواتین کی مرکزِ نگاہ بن جاتے ہیں۔ یہ ایک فیصد مغرب زدہ افغان وہ ہیں جو گذشتہ چالیس سالوں سے روسیوں اور امریکیوں کے لیے بحیثیت مترجم، گارڈ وغیرہ بہترین مددگار ثابت ہوئے۔یہی وہ طبقہ ہے جو کبھی کابل کی رونقِ بازار ہوا کرتا تھا۔مدتوں دنیا بھر کا افغانستان سے تعلق اور رابطہ صرف کابل شہر تک ہی محدود تھا۔ یہ شہر مغربی تہذیب کا شاندار عکس تھا۔ مردوں اور عورتوں کے ملبوس اور تفریحی جاذبِ نظر ماحول سے کسی کو یہ اندازہ تک نہیں ہوتا تھا کہ بقیہ 99.9 فیصد افغانستان کابل کی اس مصنوعی پیوندکاری سے بالکل مختلف ہے۔پشتونوں کے وہ علاقے جو برطانوی ہندوستان میں انگریز کے زیرِ تسلط آگئے تھے، وہاں کے پشتون بھی آج افغانستان کے پشتونوں کو نسبتاً گنوار اور غیر تہذیب یافتہ اور جاہل تصور کرتے ہیں۔ اس کی شاندار مثال کوئٹہ شہر میں آباد کانسی قبیلے کی لکھنوی آداب سے مرصع پشتو کے مقابلے میں افغانوں کی اکھڑلہجے کی پشتو کا واضح فرق ہے۔ مغربی دنیا سے افغانوں کا بحیثیتِ مجموعی تعارف آج سے ٹھیک چالیس سال قبل ہوا ،جب جمہوری یورپ کا بدترین دشمن سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا اور افغانوں نے اس کے خلاف ہتھیار اٹھائے۔ ان چالیس سالوں میں افغانوں پر ہزاروں کتابیں لکھی گئیں، لاکھوں مضامین تحریر ہوئے کئی سو فلمیں اور ڈاکومنٹریاں بنائی گئی۔ ان تمام سے صرف ایک تاثر یہ ابھرتا کہ افغان بنیادی طور پر ایک جنگجو قوم ہے، آزادی پسند ہے اور اپنی تہذیب کے تحفظ کے لیے جان دینا جانتی ہے۔ لیکن یہ تبصرہ کبھی کسی نے نہیں کیا تھا کہ یہ قوم، سوویت یونین کو شکست دے کر مستقبل میںایک پرامن، جدید،علم اور سائنس سے آراستہ معاشرہ بھی قائم کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب روس کی افواج افغانستان سے نکلیں اور افغان جہادی گروہ آپس میں ایک دوسرے کا خون بہانے لگے توایسا کچھ ،مغربی سکالروں کی پیش گوئیوںکے عین مطابق تھا۔تمام تبصرہ نگار اس وقت بھی یہی کہتے تھے کہ روس اور امریکہ کے جانے کے بعد افغانستان میں امن ختم ہوجائے گا۔لیکن ان تمام لوگوں کی خواہشوں کے برعکس خونریزی کے اندھے طوفان میںجب 1995ء کواسی افغانستان میں طالبان نے امن و امان کی ایک ایسے فضا قائم کر کے دکھا دی تو کسی کو یقین نہیں آتا تھا۔دنیا بھر کے مبصرین یہی ایک فقرہ اپنی تحریروں میں اکثر استعمال کرتے تھے ، ’’افغانستان میں قبرستان کا سکوت‘‘ (Silence of the Graveyard)ہے۔ یہ تھا اس نفرت کا پہلا اظہار جو طالبان حکومت کی اچانک کامیابی کے بعد دنیا بھر کی جانب سے کیا گیا۔افغانستان میں مدتوں بعد قیامِ امن کو ’’قبرستان کی خاموشی‘‘کا نام دینے والے بخوبی جانتے تھے کہ یہ افغان تاریخ کا ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ قبائل میں بٹے ہوئے افغان معاشرے کو جس طرح گذشتہ پندرہ سال کی افغان جنگ نے اسلحے سے لیس کر دیاتھا، وہاں امن قائم کرنا ناممکنات میں سے تھا۔ مزید حیرانی کی بات دنیا بھر کے لیے یہ بھی تھی کہ وہ افغان جو بندوق کو اپنا زیور سمجھتے ہیں، ان سے اس ضمانت پر اسلحہ لے لیں کہ جب ہم ’’طالبان‘‘ تمہاری نگہبانی کے لیے موجود ہیں تو تمہیں اسلحہ اپنے ساتھ رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔ (جاری) نوٹ: ایک سات سالہ بچی بری طرح جھلس گئی ہے جس کے والدین کے پاس علاج کے لیے سرمایہ نہیں۔ کوئی صاحبِ خیر اس نمبر پر رابطہ کرکے علاج کروا دے۔ 03154720676