اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس قدر حوصلہ، وسیع القلبی اور معاف کرنے کا جذبہ طالبان کی موجودہ قیادت کو عطا کیا ہے، اس کی نظیر کم از کم گذشتہ نصف صدی کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ طالبان کے گذشتہ پانچ سالہ اقتدار میں کہیں کہیںانتقام اور خصوصاً قبائلی طرزِ انتقام کی جھلکیاں نظر آتی تھیں اور ان میں افغان معاشرے کی سخت گیری بھی موجود تھی۔ طالبان نے جب کابل کو فتح کیا تو پورے شہر میں ایک انجانا خوف تھا جسے نجیب اللہ کی سرعام پھانسی نے مزید گہرا کر دیا۔ اس کے بعد جب دنیا بھر کی قوتیں شمالی اتحاد کے ذریعے ان کے خلاف برسرِ پیکار ہوئیں تو جیسا ظلم انہوں نے طالبان قیدیوں کے ساتھ روا رکھا، غصے میں بپھرے ہوئے طالبان نے بھی جب ان کے کچھ علاقوں پر قبضہ کیا تو وہ اپنے زیرِ سایہ مقامی کمانڈروں کے غیظ و غضب کو کنٹرول نہ کرسکے۔لیکن گذشتہ بیس سال طالبان مجاہدین نے جس طرح ہر قسم کا ظلم و جور برداشت کیا ہے، اسکی بھی مثال نہیں ملتی۔ گوانتا ناموبے کے قیدیوں کی داستانیں، بگرام اور قندھار کے عقوبت خانوں کے قصے اسقدر لزرا دینے والے ہیں کہ آدمی سو نہیں پاتا۔ ان کی تاریخ مرتب ہوگی تو یہ ٹارچر اور ظلم کی ایک علیحدہ داستان ہوگی۔ان بیس سالوں کا آغاز 25نومبر 2001ء کے اس واقعے سے ہوا جب مزار شریف میں طالبان محاصرے میں آگئے اور انہوں نے رشید دوستم کی افواج کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت تین ہزار طالبان نے ہتھیار ڈال دیئے۔ان طالبان محصورین کو چالیس فٹ لمبے، آٹھ فٹ اونچے اور آٹھ فٹ چوڑے سٹیل کے کنٹینروں میں پگڑیوں، بالوں اور کپڑوں سمیت گھسیٹ کر ڈالا گیا۔ ہر کنٹینر میں تقریباً دو سو افراد تھے۔ کنٹینرز میں کسی طرح کی ہوا کا کوئی بندوبست نہ تھا۔ ان میں کل 1250طالبان اور باقی دیگر قومیتوں کے لوگ تھے، جنہیں کنٹینروں میں بند کرکے شبرغان جیل کے قریب دشتِ لیلیٰ کی دھوپ میں چھوڑ دیا گیا۔یہ راز ہی رہتا لیکن ایک ڈرائیور محمد نے یہ راز اس وقت کھولا جب اچانک دشتِ لیلیٰ میں گدھ نمودار ہوئے۔ لوگ وہاں پہنچے تو انہیں وہاں کچھ انسانی ہڈیاں نظرآئیں جن کے ساتھ گوشت لگا ہوا تھا۔ کھودا گیا تو پانچ فٹ نیچے ایک چھ گز لمبی قبر میں پندرہ طالبان کی لاشیں پڑی تھیں۔ ڈرائیور محمد نے بتایا کہ کنٹینروں کی روانگی کے چند گھنٹے بعد انہوں نے کنٹینر کو پیٹنا شروع کیا، آوازیں دیں، ہم مر رہے ہیں، ہمیں پانی دو، ہم انسان ہیں، وہ نیچے اترا تو کنٹینر کے ایک چھوٹے سے سوراخ کے پاس گیا ہی تھا کہ اچانک وہاں دوستم کے فوجی آگئے انہوں نے سوال کیا کہ تم کیا کر رہے ہو۔ میں نے کہا یہ سوراخ دیکھنے آیا تھا کہ قیدی یہاں سے بھاگ نہ جائیں۔ جب فوجی چلے گئے تو اندر ایک شخص بولا کیا تم مسلمان ہو۔ میں نے کہا ہاں۔ اس نے اپنی زبان سوراخ میں سے باہر نکالی اور کہا کہ دیکھو، زبان پانی کی کمی کی وجہ سے پھٹ چکی تھی۔ ڈرائیور محمد نے ایک فانٹا کی خالی بوتل میں پانی ڈال کر بوتل اندر پھینکی۔ پورے کنٹینر سے الحمد اللہ کی آوازیں آئیں۔ محمد کے مطابق چند اور ڈرائیوروں نے بھی مدد کرنے کی کوشش کی، لیکن دوستم کے فوجیوں نے انہیں دیکھ لیا اور پانچ ڈرائیوروں کو رائفل کے بٹ مار کر زخمی کر دیا گیا۔محمد کے بقول اس کے کنٹینر کے 200میں سے 176افراد زندہ بچ گئے کیونکہ اس نے دوستم کی حکم عدولی کی تھی ۔ ایک ٹرک ڈرائیور ایسا بھی تھا جس کے مکینوں نے پاکستانی 45000روپے دیئے کہ ان کے کنٹینر میں سوراخ کر کے پانی دیا جائے۔ یہ تمام کے تمام 150افراد زندہ بچ گئے۔ایک اور ڈرائیور عبدل کے کنٹینر سے صرف 20افراد زندہ باہر آسکے۔ اس قافلے کے ہر فرد کے ہاتھ اور پاؤں بندھے ہوئے تھے۔ ان میں 1500کے قریب پاکستانی اور باقی افغان، عرب اور چیچن تھے۔ زندہ بچنے والوں کے بقول عالمِ پیاس اور وحشتِ ِموت عجیب تھی۔ پہلے چند گھنٹے اطمینان سے گزرے۔ پھر لوگوں نے کنٹینر کی دیواروں پر ٹھڈے اور مکے مارنے شروع کیے ،پھر ایک دوسرے کے کپڑوں پر آیا ہوا پسینہ چوسنا شروع کیا اور آخر میں بالکل پاگل سے ہوگئے۔ ایک دوسرے کو کاٹتے تھے کہ کہیں سے پانی نام کی کوئی چیز میسر آجائے۔اس سارے آپریشن میں جنرل دوستم کا ساتھ امریکہ کی فوج کی کمپنی نمبر 595دے رہی تھی، جس کا انچارج کیپٹن فشے تھا، جو اس دوران اس علاقے میں موجود رہا اور اپریل 2002ء میں کنساس سٹی کی اسمبلی نے اس کے حق میں قرارداد منظور کی اور اسکی بیوی بچوں کو بلا کر امتیاز نے نوازا گیاتھا۔ یہ ابھی جنگ کا آغازہی تھا اور طالبان جانتے تھے کہ اس طرح ظلم کے اصل محرک شمالی اتحاد کے لوگ ہیں جن کی سرپرستی اور مدد امریکہ، بھارت، ایران اور تاجکستان مل کر رہے ہیں۔ اس واقعہ سے لے کر اب تک دو سو مہینوں سے بھی زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور امریکی افواج نے اپنی کاسہ لیس افغان حکومت کے ساتھ مل کر جو ظلم روا رکھے اس کی فہرست طویل بھی ہے اور خونچکاں بھی۔ لیکن داد دینی چاہیے کہ گذشتہ ایک سال سے جو بھی افغان سپاہی، مسلح کمانڈر یا عام سرکاری اہلکار حتیٰ کہ مترجم اور ’’سویلین مددگار‘‘ بھی ہتھیار ڈال دیتا ہے، اس کے لیئے طالبان کی جانب سے عام معافی کا اعلان ہے۔ بارہا ایسا موقع آیا کہ طالبان کے سامنے ایسے افغان فوج کے کمانڈر پیش ہوئے جنہیں وہ جانتے تھے کہ انہوں نے لاتعداد طالبان کو اذیتیں دے کر شہید کیا تھا لیکن انہیں بھی معاف کر دیا گیا۔ ہر روز ہتھیار ڈالنے والے کم سے کم بیس اور زیادہ سے زیادہ سو افراد کی فہرست بمعہ نام اور عہدہ شائع ہورہی ہے۔ یہی حسنِ سلوک تھا جس کی وجہ ہے کہ آج اسّی فیصد افغانستان پر طالبان کا قبضہ مستحکم ہے۔ سب سے مشکل مرحلہ ان ممالک کے ساتھ تعلقات ازسرِ نو استوار کرنا تھا جو گذشتہ بیس سال آنکھ جھپکائے بغیر طالبان کے مخالف امریکہ کا ساتھ دیتے رہے۔ ان میں نیٹو ممالک اور بھارت تو کھل کر تھے لیکن باقی پڑوسی مسلمان ممالک بھی خوف، لالچ اور ملکی مفاد کے زیرِ اثر امریکہ اور عالمی طاقتوں کا ہی ساتھ دے رہے تھے۔ طالبان نے ان تمام پڑوسی ملکوں کے گذشتہ بیس سالہ ماضی کو مکمل طور پر فراموش کر دیا،اور جیسے ہی طالبان اور امریکہ مذاکرات شروع ہوئے تو آئندہ آنے والے حکومت کے حوالے سے ان ملکوں سے تعلقات کی راہ ہموار کرنا شروع کر دی۔ دو پڑوسی ممالک اُزبکستان اور ترکمانستان چونکہ خاموش رہے تھے، اس لیئے معاملہ مشکل نہ تھا۔ لیکن اس عرصہ میں تاجکستان، ایران اور پاکستان کا کردار ہرگز دوستانہ نہیں تھا۔ طالبان کیلئے آسانی یہ بھی ہوئی کہ، گذشتہ دو سالوں سے پاکستان کا کردارطالبان کے لیئے بہت خوش کن رہا اور اب ایک بہتر رشتہ استوار ہوتا چلا جارہا ہے۔ ایران نے بیس سال ایسے گزارے ہیں کہ دونوں اطراف کو بھی پتہ نہ چلے کہ اس کی زیادہ ہمدردیاں کس جانب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان کے گذشتہ دنوں ایران میںہونے والے مذاکرات نے آئندہ قائم ہونے والی طالبان حکومت کے استحکام کی راہ ہموار کر دی ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پڑوس میں موجود دو عالمی طاقتوں روس اور چین کا معاشی مفاد اور پانچ پڑوسی ممالک کا علاقائی مفاد ان ملکوں کو مجبور کردے گا کہ وہ عالمی برادری کے عین برعکس طالبان حکومت کو تسلیم کرلیں اور اپنے لیئے بھی ایک پرسکون ماحول کی ضمانت حاصل کریں۔(جاری)