سودی معیشت سے تخلیق کردہ مصنوعی کاغذی دولت سے تعمیر کردہ جدید عالمی جمہوری سیاسی نظام اپنے ظلم اور قتل و غارت کو درست، جائز اور انسانیت کے لیئے ضروری ثابت کرنے کے لئے اسی سودی معیشت پر پلنے والے ’’بھونپو‘‘ (Megaphone,Amplifier) یعنی ’’میڈیا‘‘ کا سہارا لیتا ہے۔ آپ گذشتہ ایک سو سال کی تاریخ نکال کر دیکھ لیں آپ کو ہر بڑی جنگ، ہر بڑے قتلِ عام یا ہر بڑی سرکاری دہشت گردی سے کچھ عرصہ پہلے میڈیا پر ایک پراپیگنڈہ مہم ضرور نظر آئے گی، جس کے ذریعے ثابت کیا جارہا ہوگا کہ اگر فلاں جگہ فوجی ایکشن نہ کیا گیا، فلاں ملک کی حکومت کو نہ بدلا گیا، فلاں گروہ کو دہشت گردی سے نہ روکا گیا تو پوری انسانیت خطرے میں پڑ جائے گی۔پہلے ہدف طے کر لیا جاتا ہے اور پھر روزانہ نئی نئی خبریں برآمد ہوتی ہیں، ڈاکومنٹریاں بنتی ہیں، ریسرچ پیپر لکھے جاتے ہیں، بڑے بڑے تھنک ٹینک رپورٹیں مرتب کرتے ہیں اور دنیا کو قائل کیا جاتاہے کہ ابھی جس جنگ اور قتل و غارت میں ہم کودنے جا رہے ہیں، یہ بلا جواز نہیں بلکہ دنیا میں موجود چند ہزار یا چند لاکھ لوگ جو معاشرے کا ناسور ہیںان کا قتل، عالمی امن کو بچانے کے لئے بہت ضروری ہو گیاہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی کسی بڑے عالمی سطح کے اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر کو ایسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جانے لگے، جیسے دنیا پر بسنے والے سات ارب انسانوں کا سب سے اہم مسٔلہ ہی یہی ہے، تو چشم ِ تصور میں آنے والے ظلم کے مناظر گھومنے لگتے ہیں۔ عالمی سطح پر صدام حسین کے خلاف کیمیائی ہتھیاروں کی جھوٹی کہانیاں ایسی رنگا رنگی سے پیش کی گئی تھیں کہ بقول برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن پورے عراق کے نقشے پر کیمیائی ہتھیاروں کوکسی ویڈیو گیم کی طرح سجایا گیا تھا ۔بالکل ویسے ہی پاکستان میں سوات کی لڑکی پر کوڑے برسانے والی جعلی ویڈیو سے یہ تاثر پھیلایا گیا تھا جیسے پورے علاقے سے قانون کی حکمرانی ختم ہو چکی ہے اور عوام اب طالبان کے رحم و کرم پر ہیں۔ اسی طرح ملا محمد عمرؒ کے پرامن افغانستان کے خلاف دو منٹ سے بھی کم کی ویڈیوجس میں کھمبے پر ٹیلی ویژن سیٹ لٹکائے گئے تھے اور برقعہ پوش عورتوں کو ہانک کر گھروں کو بھیجا جا رہا تھا۔ ان تمام جھوٹی ویڈیوز، بے بنیاد رپورٹوں اور بغیر ثبوت چلائی جانے والی پراپیگنڈہ مہم کی بنیاد پرجو قتلِ عام شروع کیا گیا،جتنے لوگ بے گھر ہوئے اور جیسے ملک اجڑے، اس مکروہ منظر نامے کو میڈیا خوبصورت الفاظ کے حسن اور شاندار کامیابیوں کے تصور سے خوشنما بنا کر پیش کرتارہتا ہے۔ بہت دنوں سے اس بات کا خطرہ تھا کہ جوبائیڈن کے آنے کے بعد میڈیا کب افغانستان میں آئندہ امریکی ظلم و دہشت گردی کو جاری رکھنے کے جواز کے لئے راہ ہموار کرنا شروع کرے گا۔ آج، 5مارچ 2021ء کو نیویارک ٹائمز کے صفحہ اوّل سے یہ آغاز ہو گیا۔اخبار کے صفحہ اوّل پر جو عموماً 20x12انچ کا ہوتا ہے، اس میں 12x9انچ کا ایک باتصویر مضمون چھپا ہے جس کا عنوان ہے ’’Taliban Universe of suffering‘‘ یعنی ’’طالبان کی اذیت ناک دنیا‘‘۔ اس میں چار گمنام لوگوں کے انٹرویو اور تصاویر ہیں جو طالبان کی قید میں رہے اور وہاں کی اذیتوں کے بارے میں کہانیاں سنا رہے ہیں۔ یہ وہی عالمی میڈیا ہے جس نے چند ماہ پہلے طالبان کی قید میں رہنے والے آسٹریلوی پروفیسر ’’ٹموتھی ویکس‘‘ (Timothy Weeks) کی رہائی، قید کے دوران مسلمان ہونے اور طالبان کے شاندار روّیے کے تذکروں کامکمل ’’بلیک آؤٹ‘‘ کیا تھا۔میڈیا کی اس پراسرار خاموشی کو توڑنے کے لئے میں نے پروفیسر ٹموتھی ویکس جس نے اپنا اسلامی نام ’’جبرائیل عمر‘‘ رکھا تھا،ا سے اپنے پروگرام میں بلا کر براہ راست انٹرویو بھی کیا۔ لیکن میری یہ کاوش بھی صدا بصحرا چلی گئی، کیونکہ میڈیا والوں کے لئے خبر تو وہی ہے جو اسلام یا مسلمانوں کے خلاف آئے کیونکہ سنسنی تو اسی سے پیدا ہوتی ہے اور ایسی ہی خبر ’’ایجنڈے کی تکمیل‘‘ بھی کرتی ہے۔ نیویارک ٹائمز میں چھپنے والا یہ مضمون ایک آغاز ہے اس پراپیگنڈہ مہم کا جس سے ایک ایسی فضا پیدا کی جائے گی کہ یورپ اور امریکہ میں بسنے والے سادہ لوح عوام یہ تصور کرنے لگ جائیں کہ افغانستان کے ’’سانپوں‘‘ کو کچلنا امریکی سلامتی اور مغرب کی عالمی عزت کو بچانے کے لئے بہت ضروری ہے۔ ارون دتی رائے نے اپنی ایک تقریر میں میڈیا کے اس خوفناک چہرے سے نقاب اتارتے ہوئے کہا ہے کہ پوری امریکی جمہوریت میڈیا کے ’’کھوکھلے ستون‘‘ پر کھڑی ہے۔ اس کے نزدیک امریکہ اس دنیا میں جہاں چاہے ایک جہنم آباد کر نا چاہے تو کر سکتا ہے اور میڈیا اسے مکمل طور پر جائز بتائے گا۔ تین جولائی 1988ء کو خلیج فارس میں موجود امریکی جہاز سے ’’حادثاتی‘‘ طورپر ایک میزائل ایران کے مسافر طیارے پر داغاگیا جس سے 290مسافر جاں بحق ہوگئے۔ اس وقت امریکہ میں ’’جمہوری الیکشنوں ‘‘کا میلہ سجا ہوا تھا۔ جارج بش سینئرسے اس پر تبصرہ کرنے کو کہا گیا تو اس نے کہا’’میں امریکہ کی جانب سے معافی نہیں مانگوں گا اور مجھے اس بات کی پرواہ بھی نہیںکہ اصل حقائق کیا ہیں‘‘۔ امریکہ اور مغرب اصل حقائق کو جاننا ضروری نہیں سمجھتے بلکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ حقائق تو وہ ہوں گے جنہیں ہم خود میڈیا کے ذریعے تخلیق کریں گے۔ جب امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو نیویارک ٹائمز کے CBS سروے کے مطابق 42فیصد امریکی عوام اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ صدام حسین گیارہ ستمبر کے حملے میں براہ راست ملوث ہے۔ اے بی سی کے سروے کے مطابق 55فیصد امریکی عوام سمجھتے تھے کہ صدام القاعدہ کی براہ راست مدد کرتا ہے۔ ان دونوں میں سے کسی ایک بات کا بھی کوئی ثبوت نہیں تھا۔ لیکن یہ رائے عامہ دو میڈیا تکنیکوں سے تخلیق کی گئی تھی۔ ایک اشارہ کنایہ سے الزام (Insinuation)لگانا اور دوسری لوگوں کے ذہن میں اپنی مرضی کی رائے ڈالنا (Autosuggestion)۔یوں اس کھلے جھوٹ کو امریکہ میں کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے عوام میں پھیلا کر رائے عامہ حاصل کی گئی۔ایسے ہی میڈیا کو ’’فری پریس‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ عراق اور القاعدہ کے ساتھ تعلقات کے جھوٹ کے ساتھ ساتھ عراق کے کیمیائی ہتھیاروں سے لوگوں کے دلوں میں ایک انجانا خوف پیدا کیا گیا اور جب یہ معاملہ ’’چھوٹے‘‘ جارج بش کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے کہا کہ، ’’عراق پر حملہ نہ کرنا دراصل پورے امریکہ کے لئے خود کشی کے مترادف ہوگا ‘‘۔ پھر اس کے بعد ایک لمبی داستان ہے۔ عراق بموں، میزائلوں، ٹینکوں ، توپوںکی زد میں تھا اور لاکھوں لوگ بارود اور آگ کی نذر ہو رہے تھے۔ عراق تو ایک تازہ مثال ہے لیکن ایسے ظلم کی داستانیں تو کیوبا، نکاراگوا، لیبیا، گرینڈا، پانامہ اور ویت نام جیسے لاتعداد ممالک میں بکھری ہوئی ہیں جہاں میڈیا امریکی مظالم کو خوبصورت بنا کر پیش کرتا ہے۔ ہالی ووڈ ریمبو جیسی فلمیں بناتا ہے اور شکست خوردہ امریکی سپاہیوںکا مورال بلند کرتا ہے اور قوم کو قتل و غارت کا جواز فراہم کرتا ہے۔ ہر انسان کو چین کی نیند سونے کیلئے اپنے جرم کا جواز چاہیے ہوتا ہے، میڈیا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یہ جواز فراہم کرتا ہے۔وہ ان کے قتل و غارت کونہ صرف مقدس بنا کر پیش کرتا ہے، بلکہ عام آدمی کے دلوں اور ذہنوں میں بھی مظلوم کا تصور بھی بدل کر رکھ دیتا ہے۔ میڈیا عراق میں کئی منزلہ عمارت پر گرنے والے میزائل کو براہ راست دکھاتے ہوئے کبھی اس میں موجود کئی سو عورتوں اور بچوں کی چیخیں نہیں سنواتا ،لیکن ایک امریکی سپاہی کے تابوت سے لپٹے ہوئے بچے کی ویڈیو دکھا کر یہ تاثر دیتا ہے کہ ’’اصل مظلوم‘‘ تو یہ بچہ ہے جس کا والد افغانستان میں نہتے لوگوں پر بم برسانے گیا تھا اور مارا گیا۔وہ کئی سو بچے اور عورتیں جو اس عمارت میں مارے گئے وہ تو دہشت گرد تھیں۔ نیویارک ٹائمز کے اس مضمون کو اگر آج ایک آغاز سمجھ لیا جائے تو یاد رکھیںاب نئے نئے بدترین جھوٹوں کے پراپیگنڈے کے دن ایک بار پھرآنے والے ہیں جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں ایک بار پھرایک بدترین جنگ مسلط ہوگی اور اس جنگ کا میدانِ جنگ۔۔ وہ تو بیس سال پہلے سے سجا ہوا ہے۔