انسانی زندگی تلاش اور جستجو سے عبارت ہے۔ انسان نہ چاہتے ہوئے بھی، لاشعوری طور پر، اپنے آپ کو کسی خاص طبقہ، شعبہ یا مخصوص عوامل کی جانب جھکا ہوا محسوس کرتا ہے۔ ’تم چاہتے کیا ہوـ‘۔۔۔یا میری ماں بولی میں ’ توں چاہنا کی ایں ‘ ویسے تو ایک ایسا سوال ہے جسے زبان زدِ عام بنا کر قابل ِ غور رہنے ہی نہیں دیا گیا۔ بلکہ اسے تو صرف تب پوچھا جاتا ہے جب کوئی مکالمہ اپنے عروج پر ہو اور ایک نے دوسرے کو لاجواب کرنا ہو، تو یہ سوال اس کے سامنے پھینک دیا جاتا ہے۔ البتہ اس سوال کی معنویت کو سمجھنا ، اس پر غور و فکر کرنا، اور اسے موضوعِ سخن بنانا ہماری ترجیحات میں شامل نہیں۔ ایک طالب علم کی مثال لے لیجئے۔ وہ اعلی تعلیم کا فیصلہ کر رہا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ اس کے ساتھی طلباء کسی خاص منزل کا ارادہ رکھتے ہیں، سو وہ فیصلہ کرتا ہے کہ کل کو وہ بھی اسی منزل کا مسافر بنے گا۔ سوال یہ ہے کہ آیا یہ سب وہ اس لیے کر رہا ہے کہ اس کی طبیعت کی اپنی رغبت اس طرف اسے لے کر آئی ہے؟ کیا اس خاص ماحول یا فیلڈ کو اپنانا اس کی اپنی پسند ہے؟ کیا یہ سب کرنا اس کی اپنی خواہش ہے؟جواب آپ کو بھی معلوم ہے ، اور مجھے بھی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ یہ امر صرف زمانہ طالب علمی تک محدود نہیں۔ عملی زندگی میں ایسے مراحل اس سے بھی بڑھ کر سامنے آتے ہیں۔ ضرورت اور خواہش، دو مختلف چیزیں ہیں، یہ تو ہم سب کو معلوم ہے،لیکن خواہش کہتے کسے ہیں ۔۔۔؟یہ ہمیں نہیں معلوم ۔ خواہش "Desire"کا تعلق در اصل ان عوامل یا ان چیزوں سے ہوتا ہے جو آپ کو کرنے میں اچھی لگتی ہیں۔ دوسرے الفاظ میں جو آپکے intellectual appitite (فطری خواہشات جنہیں آپ کا دل و دماغ ہر حالت میں قبول کرنے کو تیار ہو) کا حصہ ہوں، البتہ ان کا حصول آپ کی ظاہری ضرورت نہیں،بلکہ باطنی طلب ہو۔ مثال کہ طور پر آپ ادب سے لگائو رکھتے ہیں،کسی ضخیم ادبی شاہکار کو مکمل پڑھ لیناجو آپ کو خوشی دیگا، یا اگر آپ ریاضی سے وارفتگی رکھتے ہیں، ریاضی کا مشکل سوال حل کرلینا، جو آپ کے لیے مسرت کا باعث بنے گا ،وہ آپ کی کسی ضرورت کو پورا نہیں کرے گا، البتہ آپ کی لازوال فطری خواہش کو راحت بخشے گا۔ دوسرے الفاظ میں کہوں تو، ایک قلم کار ہے، اس کی خوشی اچھا لکھنے سے جڑی ہے۔ ایک استاد ہے، اچھا پڑھانا اس کیے لیے مسرت کا سامان مہیا کرتاہے۔ ایک مقرر ہے، اچھی تقریر کا خیال اس کی بجھی ہوئی طبیعت کو روشن کر دیتا ہے۔ انسان کی لاشعوری خواہشات انسان کی شخصیت کی عکاس ہوتی ہیں۔ انسان کی شخصیت تین محرکات پر مبنی ہوتی ہے، جس میں سے سب سے پہلے جینز آتے ہیں۔ آپ کے جنیٹکس آپ کے روپ کا تعین کرتے ہیں۔ دوسرا محر ک وہ ماحول ہے جس میں آپ پنپتے ہیں۔ وہ ماحول آپ کی طبیعت ، سوچ اور مزاج کو ایک خاص رنگ عطا کرتا ہے ۔ البتہ ان دو اسباب کے علاوہ ایک اور factor بھی ہے جو انسان کی شخصیت سازی میں اہم ترین کردار کا حامل ہے اور وہ ہے محبت ، انسان کی اپنی چاہت یا اس کا دلی لگائو۔ یعنی وہ محرک جو انسان کی شخصیت کو نکھارتا ہے، اسے ڈھلنے کے لیے ایک خاص سانچہ عطا کرتا ہے، وہ ہے اس کی قلبی وابستگی۔ گویا یہ وہ آگ ہے جس پر انسان اور اس کی فطری خواہشات پکتی ہیں ، تو ان میں پختگی آتی چلی جاتی ہے۔ فرانسیسی ماہرِ معاشرتی علوم اپنی رائے کا اظہار ایک مختلف پیرائے میں کرتے ہیں۔رینے جرارڈ کا کہنا ہے کہ خواہش کا تعلق آپ کی اپنی ذات سے کم بلکہ اس امر سے زیادہ ہے کہ آپ اپنی زندگی میں کن چیزوں کی کمیوں کو سب سے زیادہ محسوس کرتے آئے ہیں۔خواہشات پر انسان کا اختیار نہیں۔ نہ ہی انسان کسی مخصوص خواہش کو مصلحتاً اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے۔ بلکہ یہ ایک سماجی رویہ اور برتاو کا نتیجہ ہے ۔ کیوں کہ انسان فطرتاً رٹو طوطا نہیں۔ آپ اسے سبق آموز حکایات تو رٹا سکتے ہیں، البتہ اس کی نظروں کی سامنے ہونے والی چیزوں کے اثرات جو اس کی ذات پر اتر رہے ہیں ، ان سے انحراف نہیں کر سکتے۔ تیرہویں صدی کے فلسفی، تھامس ایقیونیس لکھتے ہیں کہ آپ کی فطری خواہشات کا دوسرا نام "will" بھی ہے۔ جب انسان کچھ حاصل کرنے کے لیے ہمت کے ساتھ سچی طلب رکھتا ہو، تو اس کی جانب بڑھنے کی کوشش نہیں،سعی کرتا ہے۔ اگر وہ حصول کو ممکن بنانے میں کامیاب ہوجائے، تو اسے طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ وہ خوشی اور مسرت سے لبریز ہو جاتا ہے اور وہ اس خوشی کے حصار میں تب تک رہتا ہے جب تک اپنا رابطہ اس طلب اور تڑپ کے ساتھ مضبوط رکھنے میں کامیاب رہے۔ تھامس ایقیونیس کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ انسان کی زندگی میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ جستجو کے لیے موجود رہتا ہے۔ یہ امر انسان کو متحرک تو رکھتا ہے، مگر تکالیف،بے چینی اور فرسٹریشن بھی اُس سے دست و گریباں رہتے ہیں۔ یہ لاحاصل کی تلاش اور کچھ کرنے کی تڑپ دردو سوزِ آرزو مندی کے لیے متاعِ بے بہا کا درجہ رکھتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں کہوں تویہ راہِ شوق، راہِ فنا سے کم نہیں۔ انسان کا سب کچھ اس پر لگا دینے ، قربان اور وار دینے کو جی چاہتا ہے۔ فنا ہو جانے کو جی چاہتا ہے۔ یہ جاننا کہ ’توں چاہنا کی ایں‘ بہت اہم ہے۔ اس سوال کا جواب وہ طاقت رکھتا ہے ،جس پر بقول غالب کوئی زور نہیں۔ انسان چراغِ آرزو کی اِس آتشیںلَو سے اپنے آس پاس چھائے ، نا امیدی کے اندھیروں میں راستہ تلاش کرتا ہے۔ کوشش کرتاہے۔ لاحاصل کے حصول کی سعی کرتا ہے۔ پھر افتخار عارف کی زبانی : انتظار کرتا ہے ایک ایسے لمحے کا ایک ایسی ساعت کا جس میں سانحہ ہوجائے پھر وہ کھیلنے نکلے تالیوں کے جھرمٹ میں… انسان کے ہاتھ میںتلاش، جستجو اور کوشش کے علاوہ صرف اچھے کی امید ہے ۔ میاں محمد بخشؒ کا مشہورِ زمانہ شعر یاد آیا: مالی دا کم پانی دینا بھر بھر مشکاں پاوے مالک دا کم پھل پھُل لانا لاوے یا نا لاوے