طلبہ یونین کی بحالی کے حوالے سے کالموں کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ اخبارات میں بحث کو طول دینا ذاتی طور پر پسند نہیں۔ہر جگہ مناظرہ سجانے کا موقعہ نہیں ہوتا، بہتر طریقہ یہی ہے کہ اپنا نقطہ نظر بیان کر کے آگے بڑھ جائیں۔جوابی طور پر کچھ سامنے آئے، تب ایک آدھ اور تحریر لکھ دی جائے۔ پچھلے کالم میں طلبہ تنظیموں کے حوالے سے چند ناخوشگوار مشاہدات لکھے تھے۔ اس پر آنے والا ردعمل خاصا وسیع اور توقعات سے زیادہ رہا۔ بہت سے لوگوں نے میرے فیس بک پیج پر اپنے مشاہدات اور تاثرات لکھے۔ اسی طرح لاہور کی انجینئرنگ یونیورسٹی (UET)،پنجاب یونیورسٹی ، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے حوالے سے بھی میرے مشاہدات کی متعدد قارئین نے تصدیق کی بلکہ ان میں اضافہ بھی کیا۔ذاتی طور پر مجھے کسی بھی تنظیم سے کوئی مسئلہ نہیں ، الزام لگانا مقصود بھی نہیں۔زمانہ طالب علمی میں کسی طلبہ تنظیم کا ممبر نہیں رہا۔ میرا نقطہ نظر صرف یہ ہے کہ یونیورسٹیوں، کالجوں میں قبضہ کی جنگ میں یہ طلبہ تنظیمیں آپس میں برسرپیکار رہیں اور اس کے نتیجے میں نوجوانوں کی قیمتی جانیں چلی گئیں۔طلبہ یونین کے انتخابات ہی نے کیمپس میںپاور پالیٹیکس کی بنیاد ڈالی تھی۔پھر یونین کے انتخابات کرانے ممکن نہ رہے ، پھر بھی اگلے کئی برسوں تک یہ جن بوتل سے باہر ہی رہا۔ حتیٰ کہ مکمل پابندی لگی اور پھر آہستہ آہستہ غیر منظم طلبہ تنظیمیں تحلیل ہوگئیں، ایک آدھ تنظیم ہی بچی اور مسابقت نہ ہونے یا یونیورسٹی انتظامیہ کے سخت اقدامات کی وجہ سے تشدد میں نمایاں کمی آ گئی۔ اب اگر پھر سے طلبہ یونین بحال ہوں گی تو پھر یہ سویا ہوا عفریت دوبارہ جاگ اٹھے گا۔ کیمپس میں لاشے گریں گے، لہو بہے گا، لڑکے تشدد کا نشانہ بنائے جائیں گے، ہڑتالیں ہوں گی، تعلیمی اداروں میں جو تھوڑا بہت نظم وضبط اور تعلیمی سرگرمیاں چل رہی ہیں، یہ سب تلپٹ ہوجائیں گی۔ طلبہ یونین کی پابندی/بحالی کی بحث پر فیڈ بیک دیتے ہوئے احباب کا ردعمل دو طرح کا تھا۔ زیادہ تر نے اس موقف کی تائید کی اور کہا کہ یونین پر پابندی برقرار رہنی چاہیے ورنہ بہت سے مسائل پیدا ہوں گے۔دوسرے حلقہ نے ان واقعات کی تردید تو نہیں کیا، مگر ان کی دلیل یہ تھی کہ چونکہ یونین انتخابات پر پابندی تھی، اس لئے یہ مسائل پیدا ہوئے ،ورنہ اگر الیکشن باقاعدگی سے ہوتے رہتے تب طلبہ میں تشدد کے جراثیم نہ آتے۔ کئی قارئین نے لکھا کہ یہ پابندی جنرل ضیا الحق نے 1984ء میں لگائی تھی اور آپ نے 1996,97 کے واقعات لکھے ، یونین پابندی کو تب تیرہ چودہ سال ہوگئے تھے ،اس لئے ایسا خون خرابہ ہوتا رہا۔ ممکن ہے کراچی سے تعلق رکھنے یا اوورسیز پاکستانی ہونے کی وجہ سے ان میں سے کچھ کو یہ علم نہ ہو کہ طلبہ یونین پر پابندی محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں اٹھا لی گئی تھی ۔ بی بی کی حکومت میں 1989ء میں طلبہ یونینز کے انتخابات ہوئے تھے ۔ میں ان دنوں ایف ایس سی کر چکا تھا، بی ایس سی کا طالب علم تھا۔ مجھے آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ اگلے روز تمام اخبارات سے اہم مقابلوں کی تفصیل نوٹ کی تھی۔ پنجاب یونیورسٹی سے اسلامی جمعیت طلبہ، انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے قائداعظم سٹوڈنٹ فیڈریشن(QSF)جبکہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے انجمن طلبہ اسلام (ATI)جیتی تھی۔ملتان سے جمعیت کے مقابلے میں تمام تنظیمیں (ایم ایس ایف، پی ایس ایف، اے ٹی آئی، جے ٹی آئی وغیرہ)ذکریا طلبہ اتحاد کے نام سے اکٹھی ہوگئی تھیں، اسی طرح زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے زرعی انقلابی کونسل کے نام پر تمام جمعیت مخالف عناصر متحد تھے۔ لاہور میں سائنس کالج وحدت روڈ اور اسلامیہ کالج سول لائنز جمعیت کا گڑھ تھیں جبکہ ایم اے او کالج اور دیال سنگھ کالج سے ایم ایس ایف جیتی تھیں۔ اگر کوئی محقق مزاج نوجوان ہمت کرکے ان الیکشنز کے اگلے دن کے اخبارات چیک کرے تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ ان انتخابات میں کتنے طلبہ زخمی اور کتنی جانیں گئی تھیں۔ان دنوں کراچی میں مہاجر قومی موومنٹ کی طلبہ تنظیم اے پی ایم ایس او کاخوفناک کنٹرول ہوچکا تھا ، کراچی یونیورسٹی ، کراچی کے میڈیکل کالجز اور دیگر اداروں میں کسی کی ہمت نہیں تھی کہ سر اٹھا سکتا۔ جمعیت نے کراچی میں اے پی ایم ایس او کے ہاتھوںبہت جبر، تشدد سہا، بہت سے نوجوان شدید زخمی، معذور تک ہوئے، کئی قیمتی جانیں چلی گئیں۔ حالات ایسے تھے کہ سندھ حکومت چاہتے ہوئے بھی وہاں طلبہ یونین کے انتخابات نہ کرا سکی۔ ادھر پنجاب میں طلبہ یونین انتخابات کا تجربہ ایسا خوفناک رہا کہ دوبارہ کسی حکومت کو اسے دہرانے کی ہمت نہ ہوئی۔ یونین انتخابات کے چکر میں کئی تنظیمیں فعال اور سرگرم ہوئیں، ورنہ اس سے پہلے ایم ایس ایف، پی ایس ایف کا عملی وجود نہیں تھا۔ مختلف یونیورسٹیوں میں کیمپس پر قبضے کا ایسا کھیل شروع ہوا جس سے اگلے کئی برسوں میں بڑا خون بہا۔یونیورسٹیاں ہر بار ٹکرائو کے بعد کئی کئی ماہ تک بند رہتیں۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد جو خالصتاً ٹیکنیکل، پروفیشنل نوعیت کا تعلیمی ادارہ ہے،وہ نوے کے عشرے کے وسط میں اکثر بند رہتی۔ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کا چار سال کا کورس ان دنوں چھ سات برس سے پہلے مکمل نہیں ہو پاتا تھا۔یہ تو نوے کے عشرے کے اواخر میں سپریم کورٹ نے طلبہ یونین پر پابندی لگائی، تعلیمی اداروں میں ہر قسم کی سیاسی سرگرمیاں بین قرار دی گئیں اور ہر طالب علم سے اس بارے میں بیان حلفی لیا جانے لگا، تب جا کر سکون ہوا۔ میاں شہباز شریف کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں جنرل ریٹائر اکرم کو وائس چانسلر لگایا، جنہوں نے ایسا موثر آپریشن کلین اپ کیا کہ یونیورسٹی کا ماحول اور طلبہ کی تقدیر ہی بدل گئی۔ تب چارسال کا کورس سات کی جگہ پونے چار سال میں مکمل ہونے لگا۔اسی طرح زرعی یونیورسٹی اور دیگر اداروں میں بھی جہاں کہیں یونیورسٹی انتظامیہ مضبوط تھی، اس نے مکمل امن وامان قائم کر دیا۔ یہ تنظیمیں اس قدر طاقتور اور بے لگام تھیں کہ یونیورسٹی میں اساتذہ کا احترام بھی محفوظ نہیں تھا۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میںقابض طلبہ تنظیم نے اپنی ایک خاتون استاد کے خلاف شہر بھر میں وال چاکنگ کی ، جس میں فضول ، غیر شائستہ نعرے لکھے۔اسی تنظیم کے ایک لیڈر نے ایک بار مجھے بتایا تھا کہ ہم (نامور دینی سکالر )ڈاکٹر حمید اللہ کے لیکچرز پر مبنی مشہور کتاب’’ خطبات بہاولپور‘‘ پر پابندی لگوانے کی تحریک چلانا چاہ رہے تھے۔ ان لڑکوں کے خیال میں ڈاکٹر حمیداللہ نے اپنے لیکچرز میں کہیں پر ایسا جملہ استعمال کیاجو توہین رسالتﷺ کے زمرے میں آتا ہے۔ قارئین جانتے ہوں گے کہ ڈاکٹر حمید کس پائے کے دینی سکالر تھے اور وہ دینی شعار میں کس درجہ محتاط اور تقویٰ رکھنے والے اجلے، منور شخص تھے۔جنرل ضیا ء الحق کی دعوت پر وہ فرانس سے پاکستان آئے،اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں انہوں نے شاندار لیکچرز دئیے تھے۔ وہ خطبات بہاولپور کے نام سے چھپے، پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازی جیسے جید دینی سکالر نے برسوںبعدمیں اسی طرز پر اپنے مشہورلیکچرز کی سیریز منعقد کی جو محاضرات قرآن، محاضرات حدیث، محاضرات سیرت ،محاضرات فقہ وغیرہ کے نام سے شائع ہوئے۔ کوئی پڑھا لکھا شخص یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ ڈاکٹر حمید اللہ جیسے لیجنڈری سکالر کی علمیت اور دلائل کی جانچ کسی مقامی طلبہ تنظیم کے لونڈے کریں اور وہ فیصلہ کریں کہ یہ کتاب شائع ہونی چاہیے یا نہیں۔ یہ’’ کرشمے‘‘صرف طلبہ یونین اور ان کی پیداوار منہ زور طلبہ تنظیموں کی وجہ سے ہی ممکن ہوسکتے ہیں۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ خاکسار سیاست کا ہرگز مخالف نہیں۔ سماج کو غیر سیاسی بھی نہیں بنانا چاہتا۔ نوجوانوں میں سیاسی شعور پیدا ہونا چاہیے۔ طلبہ تنظیموں کا بھی مخالف نہیں، اگرچہ انہیںسیاسی جماعتوں کا ذیلی ونگ نہیں ہونا چاہیے کہ اس سے ان کی فیصلہ سازی متاثر ہوتی ہے۔میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ تعلیمی اداروں کا ماحول پرامن ، پرسکون اور تعلیم کے لئے حوصلہ افزا رہے۔ جن طلبہ کو سیاست میں دلچسپی ہے ، وہ ضرور اس طرف جائیں۔ طلبہ تنظیموں کو جوائن کریںیا فراغت کے بعد سیاسی جماعتوں کے یوتھ ونگ کا حصہ بنیں، الیکشن لڑیں، اپنا کردار ادا کریں۔ طلبہ تنظیمیں نوجوانوں کے لئے کیرئرکونسلنگ پروگرام کرائیں، سیمینار، ڈرامے، کتاب میلے اور دیگر پروگرام کرائیں۔اس کے لئے کیمپس کے اندر یا باہر آرٹس کونسل وغیرہ میں جگہ دی جا سکتی ہے۔ تاہم چند ایک پرجوش نوجوانوں کے سیاسی ایڈونچرازم کا نشانہ پورا کیمپس کیوں بنے؟ہمارے سماج میں ابھی بہت سی خرابیاں ہیں ، جنہیں ہم دور کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ہتھیار یہاں عام ہیں اور معمولی سے جھگڑے پر مخالف کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔سیاسی جماعتیں طلبہ ونگز بنا کر تعلیمی اداروں میں مداخلتیں کرتی ہیں۔صوبائی حکومتیں تک اپنے فیورٹ گروپس اور طلبہ تنظیموں کی سرپرستی کرتی اور قبضہ گیری میں ان کی معاونت کرتی ہیں۔ہر کوئی جانتا ہے کہ ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کرانا ممکن نہیں۔ اس لئے طلبہ یونین کی بحالی کے بجائے یونیورسٹیوں،کالجوں میں سٹوڈنٹ سوسائٹیز کو سپورٹ کرنا چاہیے۔ سائنس سوسائٹی، آرٹس سوسائٹی، ہسٹری سوسائٹی ، جغرافیہ، لٹریچر سوسائٹی وغیرہ کے انتخابات کرائے جائیں، مثبت سرگرمیاں ہوں، تقریری مقابلے، کوئز ،ڈرامہ وغیرہ ۔ ان سوسائٹیز سے چند طلبہ کو بطور نمائندہ یونیورسٹی کے اتنظامی سٹرکچر میں جگہ دی جائے۔ یہ طلبہ اپنے مسائل اٹھا سکیں گے۔ ایسا کرنے والے چونکہ حقیقی طالب علم ہوں گے، اس لئے یہ سرگرمی ٹھوس اور بامقصد رہے گی۔