وزیراعظم عمران خان نے ملک بھر کی تمام طلبہ یونینز کی بحالی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ یونیورسٹیاں مستقبل کے لیڈرز کو پروان چڑھاتی ہیں اور طلبہ یونینز مستقبل کے لیڈرز بنانے میں اہم ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کی جامعات میں طلبہ یونینز پرتشدد بن چکی ہیں اور جامعات میں علم و دانش کا ماحول مکمل تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ طلبہ یونینز کی بحالی کے لیے جامع ضابطہ اخلاق مرتب کریں گے۔ دوسری جانب وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے طلبہ کے مسائل کے حل کے لیے ہدایات جاری کر دی ہیں۔ اپنے ٹوئٹر اکائونٹ کے ذریعے معاون خصوصی نے کہا کہ طلبہ کے حقوق کے تحفظ اور مسائل کے فوری حل کے لیے وزیر اعظم نے وفاق اور صوبوں کو جامع حکمت عملی مرتب کرنے کی ہدایات دی ہیں۔وزیر اعظم کا بیان خوش آئند ہے ، کہ طلباء یونین سے پابندیوں کا خاتمہ ہونا چاہئے کہ تعلیمی اداروں سے ہی سیاسی قیادت اُبھرتی ہے۔ اگر یونین پر پابندی ہو تو پھر سیاستدان نہیں روبوٹ پیدا ہوتے ہیں ، مگر اس بات کا بھی خیال رکھا جانا ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں ملک و قوم کی بہتری کے بجائے اپنے ذاتی اغراض کیلئے طلباء کو استعمال نہ کریں ، ان کو تعلیم کے بجائے تشدد کے راستے نہ لے جائیں اور ان سے کتاب چھین کر ان کے ہاتھ کلاشنکوف نہ دیں ۔ طلبہ یونین کی نئی بحث لاہور میں ایک طلبہ تنظیم کی طرف سے سرخ پرچموں کے بعد سامنے آئی ہے ۔ اس پر معروف تجزیہ نگار اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں ۔ ملک کے معروف اور صاحبِ بصیرت صحافی جناب ارشاد احمد عارف نے بجا لکھا کہ ’’ ملک میں ایک نیا فتنہ سر اٹھا رہا ہے۔ فرمایا ’’ مومن اپنے آپکو ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسواتا ‘‘ مگر ہم ایک ہی سوراخ سے دوبارہ بلکہ سہ بار نہ ڈسے جائیںتو ہمارا ایمان کامل ہوتا ہے۔ نہ دل و دماغ مطمئن۔ بہتر سالہ تاریخ میں ناکام تجربوں کا ریکارڈ ہم نے قائم کیا اور باز اب تک نہیں آئے۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونینوں کی بحالی کا جوش ہمیں اس وقت چڑھا جب مولانا کے آزادی مارچ اور دھرنے کے بعد آرمی چیف کے تقرر کا معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہوا ،پورے ملک نے سکھ کا سانس لیا اور ہر طرف سے حکومت کو مشورہ ملا کہ وہ اب معیشت کی بحالی، سیاسی استحکام اور بہتر کار گزاری سے خاک نشینوں کے دکھ کا درماں کرے ۔ پاکستان میں طلبہ یونینوں پر 1984ء میں پابندی لگی ،وجہ ضیاء الحق کا مارشل لا تھا نہ فوجی ڈکٹیٹر کا اندرونی خوف۔ 1977 ء تا 1984ء تک کامل سات سال فوجی آمریت طلبہ یونینوں کو برداشت کرتی رہی ،تعلیمی ادارے مختلف طلبہ تنظیموں اور منتخب یونینوں کی باہمی چپقلش ، مار دھاڑ اور دادا گیری کا مرکز بنے رہے، کسی نے تعرض نہ کیا ۔ طلبہ یونینوں سے حکومت کو خطرہ تھا نہ باہم دست و گریباں سیاسی جماعتیں اس قابل کہ وہ اپنی بغلی طلبہ یونینوں کو حکومت کے خلاف استعمال کر سکیں ۔ جنرل ضیا 1983ء میں ہی 1985ء کو انتخابات کا سال قرار دے چکے تھے۔ایم آر ڈی کی احتجاجی تحریک میں دم خم باقی نہ رہا اور بلدیاتی اداروں کی شکل میں فوجی حکومت کو کسی نہ کسی حد تک سیاسی سپورٹ حاصل تھی ۔ طلبہ یونیوں پر پابندی کا سبب تعلیمی اداروں میں امن و استحکام کی بگڑتی ہوئی صورتحال تھی اور امتحانی نظام میں تعطل کی بناء پر نوجوان نسل کا مخدوش مستقبل۔‘‘ اسی طرح محترم اوریا مقبول جان نے بھی بجا اور درست لکھا کہ ’’لاہور کی سڑکوں پر سرخ سویرے کا پرچم اٹھائے یہ وہی لوگ ہیں جو گزشتہ پچیس سال سے امریکا، یورپ اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کے بڑے بڑے بتوں کے سامنے سجدہ ریز تھے۔ اپنا قبلہ بدلنے میں کمال رکھتے ہیں ، جس دن سویت یونین کے شہر لینن گراڈ میں غصے میں بپھر ہوئے ہجوم نے سویت یونین کے بانی ولادی میر لینن کا مجسمہ گرایا ، پچھتر سال سے روس پر مسلط جبر و استبداد کے نظام کا بوسیدہ لباس اتارا ، لینن گراڈ کا نام بدل کر واپس مذہبی شخصت کے نام پر سینٹ پیٹرزبرگ رکھا تو عین اسی دن یہ سب کے سب اپنا نظریہ چھوڑ کر کیمونزم کے دشمن اول ، امریکا اور سرمایہ دارانہ سامراج کے کاسہ لیس ہو گئے۔ ظاہر ہے جب کوئی اللہ کا انکار کرتا ہے تو پھر اسے پرستش کرنے کیلئے اپنے ہاتھوں سے بت تراشنا پڑتا ہے تاکہ اسکی پوجا کر سکے۔‘‘ یہ ہمارے سامنے کی بات ہے کہ روس کی شکست کے بعد بہت سے سامراج دشمن امریکا اور دیگر یورپی ممالک سے بذریعہ این جی او بھاری گرانٹیں لیتے نظر آئے ۔ پاکستان کی اپنی پہچان ہونی چاہئے ، پاکستان کے لوگ نہ سوشلسٹ بننا پسند کرتے ہیں اور نہ تنگ نظر مذہبی انتہا پسند ۔ پاکستان کے لوگوں کو دائیں بائیں اور سرخے سبزے کے چکر سے نکالنا ہوگا اور پاکستان کو انسان دوست ثقافتی ملک بنانا ہوگا۔ جس میں پاکستان میں بسنے والی قومیں اپنے اپنے کلچر سے پیار کریں ، اپنی زبانوں سے پیار کریں ، خوشبو سے پیار کریں ، رنگوں سے پیار کریں ، تمام انسانوں سے پیار کریں اور پاکستان وہ ریاست بنے جو سب کی ماں ہو اور قائد اعظم کے فرمان اور آئین پاکستان کے مطابق بلا رنگ ، نسل و مذہب سب کو برابر کے حقوق حاصل ہوں ۔ میرے پیارے بھائی محترم عامر ہاشم خاکوانی جن کے پاس بہت اچھی لائبریری ہے اور ہمارے سیاسی استاد محروم افضل مسعود صاحب کی سوچ اور فکر بھی زندگی کا حصہ ہے ، نے سرخ پرچموں کے جلوس کا خوبصورتی سے نقشہ کھینچا ہے۔ آپ لکھتے ہیں ’’ جب لال لال لہرائے گا ، تب ہوش ٹھکانے آئے گا ، سرخو ہو گا سرخ ہو گا ایشیاء سرخ ہوگا ۔یہ اور اس طرح کے نعرے ہم نے چند دن پہلے لاہور کے فیض امن میلے میں سنے۔ انداز دلچسپ تھا ،نوجوان ایک گروہ میں دائرہ سا بنا کر کھڑا ہو جاتا ، ایک لڑکا گول سے ساز (طبوقہ ) پر طبلہ کے انداز میں سنگت کا ساتھ دینے لگتا، جبکہ باری باری لڑکے لڑکیاں تالیوں کی تال پر بلند آواز نعرے لگانے لگے ۔فطری طور پر لوگ متوجہ ہوئے ، نوجوانوں کا جوش و خروش دیدنی تھا ۔ ‘‘ اِدھر تھانہ سول لائن پولیس نے مال روڈ پر طلبہ ریلی کے منتظمین اور شرکاء کے خلاف مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کر دی ہے۔ سب انسپکٹر محمد نواز کی مدعیت میں درج کئے جانے والے مقدمے میں پروفیسر عمار علی جان، سماجی کارکن فاروق طارق، عالمگیر وزیر، اقبال لالہ، محمد شبیر اور کامل خان کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ مقدمے میں 250 سے 300 نامعلوم افراد کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ایف آئی آرکے مطابق ناصر باغ سے نکلنے والی ریلی کے شرکاء نے مال روڈ، فیصل چوک میں ٹریفک بلاک کر دی۔ وہ ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت انگیز، اشتعال انگیز تقاریر اور نعرے بازی کر کے طلبہ کو اکساتے رہے۔ علاوہ ازیں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے طلبہ مارچ کے منتظمین اور شرکاء کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی مذمت کی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ پرامن مارچ کے طلبہ کے خلاف مقدمے کا اندراج ریاستی جبر ہے۔