چند روز پیشتر میں نے فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے بارے میں ایک کالم لکھا تھا جس میں چیئرمین صاحب کی توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف مبذول کروائی تھی۔ اس اہم مسئلے کا تعلق سی ایس ایس کے انگریزی کے پرچے سے تھا۔ اس کالم کی اشاعت کے بعد طلباء نے جو فیڈ بیک دیا وہ میرے اندازے سے کہیں بڑھ کر تھا۔ سب نے میرے خیالات کو حقیقت پر مبنی قرار دیا۔ طلباء کی اکثریت اس بات پر میری شکرگزار ہوئی کہ میں نے ان کی آواز بن کر ان کے مسائل اور احساسات کو کمیشن کے ارباب اختیار تک پہنچایا۔ میرا مذکورہ کالم سی ایس ایس کے Comprehensionکے پرچے کے بارے میں تھا جس کے پہلے سوال میں انگریزی زبان کے چند ایسے الفاظ کے معانی دریافت کئے گئے تھے جنہیں فاضل ممتحن نے اللہ جانے کہاں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کیا تھا۔ یہ الفاظ انگریزی زبان کے بڑے بڑے سکالرز اور پروفیسرز نے تو شاید دوچار بار سنے ہو لیکن بے چارے طلباء کے لیے یہ الفاظ آسمان سے نازل ہونے والی بلائے ناگہانی سے کم نہ تھے۔ میں 65سال سے انگریزی پڑھ اور پڑھا رہا ہوں اور مجھے بھی ہر سال اس سوال کے کئی ایک الفاظ کو آکسفورڈ ڈکشنری آف انگلش کی 36جلدوں میں ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ اگر میرا یہ حال ہے تو چوبیس پچیس سال کے طالب علم کا کیا حال ہوتا ہو گا۔ یہ وہ الفاظ ہوتے ہیں جن کی Frequencyایک یا دو فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی۔ اگر آپ کا ارادہ طلباء کو فیل کرنا ہے تو خوشی سے کیجئے لیکن خدارا انہیںمشکل میں نہ ڈالیں۔ احساس کمتری میں مبتلا نہ کریں۔ امتحانی نظام متنفر نہ کریں۔ انہیں یہ احساس نہ دلائیں کہ ممتحن یہ نہیں جاننا چاہتا کہ انہیں کیا آتا ہے بلکہ وہ پورا زور یہ جاننے کی طرف لگا رہا ہے کہ ان کو کیا نہیں آتا۔ اگر میں اس نیت سے انگریزی کا پرچہ مرتب کروں تو میں دعوے سے کہتا ہوں کہ یہ فاضل ماہرین انگریزی 40فیصد نمبر حاصل نہیں کر سکیں گے۔ ع من خوب می شناسم پیرانِ پارسارا میں تقریباً ہر سال ان فاضل پروفیسروں کے مرتب کردہ پرچوں میں اغلاط کی نشاندہی کرتا ہوں۔ مثال کے طور پر ایک دو Blundersکا ذکر کئے دیتا ہوں۔ یہ اغلاط پچھلے تین چار سال کے پیپروں میں نہیں۔ فاضل پروفیسر فرماتے ہیں کہ اس فقرے کو درست کرو: He went direct to th principal لیجئے صاحب کریں اس فقرے کو درست۔ اس سال بہت سے طلباء نے ممتحن کی علمیت پر اعتبار کرتے ہوئے فقرے کی یوں تصحیح کر دی۔ He went directly to the principal۔ آپ ہی کہیں اس جواب کی مارکنگ کیسے ہو گی۔ مزید سنیں: ڈائریکٹ اینڈ ان ڈائریکٹ کے سوال میں فاضل پروفیسر یہ جملہ تحریر فرماتے ہیں: He has contributed to the disastrous fund. یہ فقرہdisastrousانگریزی کی بہترین مثال ہے۔ اب آگے چلیے، اس پیپر میں Precisاور Comprehnsion کے لیے انگریزی کے دو پیراگراف دیئے جاتے ہیں۔ یہ سوالات مرتب کرتے وقت پیراگرافس کی طوالت اور وقت مقررہ کا خیال نہیں کیا جاتا۔ بعض اوقات کوئی پیراگراف اتنا طویل ہوتا ہے کہ اسے پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ایک گھنٹے سے بھی زیادہ وقت چاہیے۔ ان سوالوں کی طوالت دیکھ کر ہی بے چارے امیدوار کے ہاتھ پائوں پھول جائیں۔ پائوں بے شک پھول جائیں لیکن پھولے ہوئے ہاتھوں سے وہ لکھے گا کیسے۔ ان پیراگرافس کی سلیکشن میں بھی نہایت غیر ذمہ داری بلکہ اذیت پسندی کا ثبوت دیا جاتا ہے۔ وہ پیرا جسے سمجھنے کے لیے امیدوار نے برٹرینڈ رسل کی ہسٹری آف گریک فلاسفی پڑھ رکھی ہو۔ وہ پیرا جسے سمجھنے کے لیے امیدوار نے کولرج، ورڈ ورتھ اور ٹی ایس ایلیٹ کی تنقید پڑھ رکھی ہو۔ وہ پیرا جس کی تفہیم کے لیے امیدوار نے فرائیڈ، ینگ اور کیلنگ کی نفسیات پڑھ رکھی ہو۔ وہ پیراگراف جسے سمجھنے کے لیے امیدوار نے فزکس میں کم از کم بی ایس سی کر رکھی ہو۔ وہ پیراگراف جسے سمجھنے کے لیے امیدوار نے شیکسپیئرکے چار پانچ مشہور ڈرامے پڑھ رکھے ہوں۔ وہ پیرا گراف جس کی زبان ڈاکٹر جانسن کی سطح کے زبان دان ہی سمجھ سکیں، وہ پیراگراف جسے سمجھنے کے لیے امیدوار فن شاعری کے تمام اسرار و رموز سے واقف ہو۔ ایسے پیراگراف ہی ان فاضل اساتذہ کے پسندیدہ پیراگرافس نہیں۔ یہ حضرات طلبا سے سوال نہیں کرتے بلکہ انہیں چیلنج کرتے ہیں کہ مرد کے بچے ہو تو ہمارے پیپر میں پاس ہو کر دکھائو۔ آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی پرچہ مرتب کرنے والے نے کوئی پیراگراف خود لکھا ہو۔ یہ تمام پیراگرافس مختلف کتابوں سے اٹھا لیے جاتے ہیں۔ خود لکھنے سے گھبراتے ہیں۔ ایک تن آسانی اور دوسرا یہ خوف کہ غلط انگریزی لکھی جائے گی۔ جس تلوار سے یہ لوگ طلباء کا قتل عام کرتے ہیں وہ ان کی اپنی بنائی ہوئی نہیں ہوتی بلکہ کسی پرانے اسلحہ خانے کی ہوتی ہے۔ بعض اوقات کہیں سے کوئی پیراگراف لیتے وقت یہ خیال بھی نہیں رکھا جاتاکہ مناسب سیاق و سباق کے بغیر یہ پیراگراف بے معنی سا لگے گا اور طلباء کو بدحواس اور پریشان کر دے گا۔ اس موقع پر مجھے یاس یگانہ چنگیزی کا یہ شعر یاد آ گیا ہے ؎ سنا فسانۂ ہستی تو درمیاں سے سُنا نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم Comprehensionکے پیراگراف کے آخر میں جو سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ بعض اوقات ان میں سے ایک دو سوالات کا کوئی جواب اصل پرچے میں نہیں ہوتا۔ جواب رہا ایک طرف بعض اوقات جواب کا کوئی مناسب Clue بھی پیراگراف میں نہیں ہوتا۔ اسے Comprehensionنہیں بلکہ Confusionکہنا چاہئے۔ اسی پرچے میں ایک سوال محاورات Idiomsکے بارے میں بھی ہے۔ یہاں بھی سوال میںچُن چن کر وہ محاورات اکٹھے کر دیئے جاتے ہیں جو بعض اوقات Idiomsکی ڈکشنری میں بھی نہیں ملتے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ڈکشنری میں آثار قدیمہ کی کھوج لگانے کے پیچھے کون سا فلسفہ کام کر رہا ہے۔ جو محاورات روزمرہ کے استعمال میں آتے ہی نہیں جو کسی بہت بڑی ڈکشنری کے اوراق میں عرصے سے منہ چھپانے پڑے ہیں۔ جنہیں کوئی رائٹر استعمال ہی نہیں کرتا۔ وہ ان غریب طالب علموں کے علم میں کیسے ہو سکتے ہیں۔ ایسے سوالات نہ صرف طلبا میں شدید مایوسی کا سبب بنتے ہیں بلکہ ان سے وہ مقصد بھی حاصل نہیں ہوتا جس کی خاطر امتحانی پرچہ مرتب کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر آپ طالب علموں سے ایسے سوالات کریں جن میں تمام طلبا کو صفر نمبر ملیں۔ تو کیسے پتہ چلے گا کہ طلباء میں کون لائق، کم لائق یا نالائق ہے۔ سب کو چاروں شانے چت گرا کر اور ان کی حالت سے منفی خوشی حاصل کرنا کیا کسی استاد کا کام ہے؟ جو طلباء یہ امتحان پاس کر کے ملازمت کے حصول میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر وہ ہوتے ہیں جو کتابی کیڑے اور رٹو طوطے ہوتے ہیں جو کتابوں میں ڈوب کر دنیا و مافیہا سے غافل اور زندگی کے عملی تقاضوں سے لاتعلق ہوتے ہیں۔ ایسے طلباء جو عملاً اچھے افسر ثابت ہو سکتے ہیں۔ اس نظام میں جگہ نہیں پاتے۔ یہ بات میں اپنے 56سال کے تدریسی تجربے کی بنا پر کہہ رہا ہوں۔