پیغمبروں کی سرزمین فلسطین کا دل یروشلم ہے جہاں مسجد اقصیٰ واقع ہے۔ یروشلم یا القدس کی بستی مسلمانوں کے تاریخی جاہ و جلال کی امین ہے اسی القدس میں امریکہ نے اپنا سفارت خانہ منتقل کرنے کا دسمبر میں اعلان کیا تو فلسطینیوں نے واضح کر دیا کہ یہ ریڈ لائن ہے جسے امریکہ اسرائیلی خوشنودی کے لیے عبور نہ کرے۔ امریکہ نے 14مئی کو یہ ریڈ لائن عبور کر لی۔ اس پر غزہ کے غیور اور بہادر فلسطینیوں نے شدید مگر مکمل طور پر پرامن اور غیر مسلح احتجاج کیا۔ غزہ اور اسرائیلی سرحد پر ہونے والا یہ احتجاج امریکی سفارت خانے سے ایک سو کلو میٹر دور تھا مگر یہودی نخوت و رعونت کو یہ بھی گوارا نہ تھا۔ اسرائیلی فوجیوں نے بندوق کی گولیوں اور ٹینکوں کے گولوں سے چند گھنٹوں میں 60سے زیادہ زندہ انسانوں کو چڑیوں کی طرح پھڑکا دیا اور ہزاروں کو زخمی کر دیا۔ طاقت کے بدترین وحشیانہ مظاہرے پر چاہیے تو یہ تھا کہ سارا عالم اسلام بالخصوص مسئلہ فلسطین کو اہل عرب کا مسئلہ کہنے والے عرب قائدین تڑپ اٹھتے اور امریکہ و اسرائیل کو للکار کر بتاتے کہ فلسطینی تنہا نہیں ان کی پست پر اگر ساری انسانیت نہیں تو کم از کم ڈیڑھ ارب مسلمان موجود ہیں مگر کون سے مسلمان؟ وہی مسلمان جن کے بارے میں مرشد اقبال نے فرمایا تھا کہ ع مسلمان نہیں راکھ کا ڈھیر ہے گزشتہ کئی صدیوں سے اس راکھ کے ڈھیر سے شعلہ جوالا بننے والی چنگاریاں کبھی کبھی بھڑک اٹھتی ہیں ایسی ہی ایک چنگاری شاہ فیصل شہید تھے اور اب کئی سالوں سے ترک صدر طیب اردوان بے بس مسلمانوں کے لیے آس اور امید بنے ہوئے ہیں۔ یہ بھی علامہ اقبال نے ہی فرمایا تھا کہ ؎ عطا مومن کو پھر درگاہ حق سے ہونیوالا شکوہ ترکمانی‘ ذہن ہندی نطق اعرابی ’’شکوہ ترکمانی‘‘ گزشتہ کئی برس سے ایک بار پھر رجب طیب اردوان کی صورت میں جلوہ گر ہے جبکہ نطق اعرابی منقار زیر پر ہے اب 14مئی کو فلسطینی مسلمانوں پر پھر خنجر چلا تو سارے عالم عرب پر سکوت مرگ طاری ہو گیا دو چار روکھے پھیکے جملوں کا کوئی مردہ سا بے جان احتجاجی بیان کچھ ملکوں کی طرف سے رسمی طور پر سامنے آیا اور بس قصہ ختم مگر جو شخص حقیقی معنوں میں تڑپ اٹھا اور اس نے عزت ایمانی اور حمیت ملی کا بھر پور ثبوت دیا وہ ترک صدر طیب اردوان ہی تھا انہوں نے اسرائیلی وحشت و بربریت کی بھر پور مذمت کی اور امریکہ کے اقدام کو بھی نشانہ تنقید بنایا۔ انہوں نے اہل غزہ کو تسلی دی اور کہا کہ امریکی سفارت خانے کے یروشلم آ جانے سے تاریخی حقائق مسخ نہیں کئے جا سکتے۔ القدس مسجد اقصیٰ اور ارض فلسطین کل بھی آپ کی تھی اور آج بھی آپ کی ہے۔ طیب اردوان اس وقت برطانیہ کے دورے پر تھے۔ انہوں نے وہاں سے ہی او آئی سی کا ہنگامی اجلاس 18مئی کو ترکی میں بلا لیا اور وہی اس اجلاس کی میزبانی کا شرف حاصل کریں گے۔ عالم اسلام کو سب سے زیادہ حیرت سعودی عرب کی خاموشی پر ہوئی کیونکہ کسی زمانے میں سعودی عرب ہی فلسطین کاز کا سب سے بڑا حامی اور مددگار تھا۔ جن لوگوں کی گزشتہ سال ڈیڑھ سال کے حالات پر نظر ہے انہیں البتہ کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہیے۔ چند ماہ قبل جب سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان امریکہ کے دورے پر گئے تو وہاں ان کے بارے میں یہ رپورٹ شائع ہوئی تھی کہ انہوں نے فلسطینی لیڈر شپ سے شدید برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ قیادت کئی دہائیوں سے اسرائیل کے ساتھ امن قائم کرنے کے ہر اقدام کو مسترد کرتی چلی آ رہی ہے اب فلسطینی قیادت یا تو امن کی تجاویز کو قبول کرے یا پھر خاموشی اختیار کرے۔ پرنس محمد بن سلمان کو شاید تاریخ یاد نہیں۔ 1993ء میں تمام تر فلسطینی مخالفت کے باوجودپی ایل او کے چیئرمین یاسر عرفات نے 1993ء میں امریکہ کی گارنٹی کے مطابق اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور خود مختار آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی یقین دہانی پر اعتماد کر لیا۔ اس بات کو اب 25برس ہو چکے ہیں مگر اسرائیل مسلسل قیام امن کے اس منصوبے کو پائوں تلے روند رہا ہے اور آئے روز فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلتا ہے۔ غزہ کا محاصرہ کر لیتا ہے اور فلسطینیوں کی ناکہ بندی کر کے ان تک خوراک اور ادویات بھی نہیں پہنچنے دیتا۔ چند برس پیشتر پرنس فہد کے چچا شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے زمین کے بدلے امن کا منصوبہ پیش کیا مگر اسرائیل نے اسے بھی کوئی اہمیت نہ دی۔ 15مئی فلسطینی یوم نکبہ کی تلخ یادوں کو تازہ کرتے ہیں مگر اس برس 15مئی تو تلخ تر ہو گیا کیونکہ 14مئی کو جام شہادت نوش کرنے والے 60سے اوپر شہدیوں کو 15مئی کو دفنایا گیا ان شہیدوں میں اکثریت نوجوانوں پر مشتمل تھی اور ایک آٹھ ماہ کی بچی بھی شامل تھی۔ اپنی ننھی عروسہ کو سفید ملبوس میں خصت کرتے ہوئے اس کی ماں ماہی بے آب کی طرح کی یوں تڑپ رہی تھی کہ جسے دیکھ کر یقینا دشمن بھی غمناک ہو گئے ہوں گے۔ یوم نکبتہ کیا ہے؟ جنگ عظیم اول کے خاتمے پر انگریزوں نے یہودیوں کو مسلمانوں کی سرزمین ارض فلسطین پلیٹ میں کھ کر اسرائیل کے نام سے صیہونی ریاست کے قیام کے لیے تحفتاً پیش کرنے کا فیصلہ کیا کیونکہ یہودیوں نے مال و دولت سے انگریزوں کی جنگ کے دوران مدد کی تھی۔ ان کی ریاست کے لیے انگریزوں نے فلسطین کا خطہ دینے کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ وہ اسے ایک لاوارث سرزمین سمجھتے تھے۔ انیسویں صدی کے آواخر میں فلسطین میں مسلمان 85فیصد‘ عیسائی 11فیصد اور یہودی صرف 4فیصد تھے۔1948ء تک یہودی ریاست قائم ہو چکی تھی۔ 15مئی 1948ء کو یہودیوں نے ارض فلسطین کے اصل مالکان فلسطینیوں کو لاکھوں کی تعداد میں بزور شمشیر فلسطین سے نکال دیا اسی حوالے سے مصائب و مشکلات کے اسی دن کو یوم نکبہ کہا جاتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں۔ اگر بدن کا کوئی ایک حصہ تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے تو پھر پورا جسم درد کی شدت اور بخار کی حدت میں تڑپتا ہے۔