اسلام آباد(خبر نگار) آرٹیکل 63اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی ہے کہ پہلے طے کرنا ہے کہ کیا پارٹی سے انحراف جرم ہے ؟ ،اگر جرم ہے تو پھردیکھنا ہوگا کہ اس کے اثرات کیا ہیں۔ دوران سماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائک دلائل دیتے ہوئے موقف اپنایا کہ ملک اس وقت افراتفری( انارکی) کی جانب بڑھ رہا ہے ، کوئی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے کو تیار نہیں۔جس پر چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک کو کہا کہ حالات اتنے خراب نہیں عمومی بات نہ کریں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے سینٹ الیکشن بارے ریفرنس میں رائے دی لیکن کسی نے اسکی پیروی نہیں کی۔چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ ،سیاسی جماعتیں پارٹی انحراف پر نیوٹرل کیوں ہیں؟،پارٹی سے انحراف کرنے والے کو دوسری جگہ عہدہ دیدیا جاتا ہے ،فرض کریں وزیراعظم کے خلاف چوتھے سال عدم اعتماد آتی ہے اورمنحرف اراکین کے خلاف ریفرنس الیکشن کمیشن جاتا ہے لیکن الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سے فیصلہ آنے میں ایک سال لگ جائے اور فیصلے تک اسمبلی مدت پوری کر جائے تو کیا منحرف رکن کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو گی؟۔جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دیے کہ ہمارے ملک میں یہ کلچر بن گیا ہے کہ فیصلہ حق میں آئے تو انصاف اور اگرخلاف آئے تو انصاف تار تار ہو گیا۔جسٹس اعجاز الااحسن کا کہنا تھا کہ تاریخ گواہ ہے کہ پارٹی سے انحراف صرف ضمیر جاگنے پر نہیں ہوتا، مغربی ممالک میں پارٹی سے انحراف رکوانے کی کوشش کی جا رہی ہے ، پارٹی سے انحراف کی سزا کیا ہو گی یہ اصل سوال ہے ؟۔فاروق ایچ نائیک نے کہا منحرف ہونے پر رکن اسمبلی کی نااہلی اسمبلی کی بقیہ مدت تک ہو گی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کرتے ہو ئے کہا آپ پارٹی سے انحراف کو جرم تسلیم کررہے ہیں لیکن اگر پارٹی سے انحراف جرم ہے تو پھر مجرم کا ووٹ کیوں شمار ہوتا ہے ۔منگل کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لاجر بینچ نے کیس کی سماعت کی پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل دیتے ہوئے کہا منحرف اراکین کی کیا سزا ہے اس بارے آئین واضح ہے ۔انھوں نے صدارتی ریفرنس میں اٹارنی جنرل کے دلائل کو رد کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ اٹارنی جنرل کی طرف سے تاحیات نااہلی پر کوئی آئینی دلیل نہیں دی گئی۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بظاہر آرٹیکل 63 اے کا مقصد پارٹی سے انحراف روکنا تھا، دیکھنا ہے کہ منحرف ہونے کی سزا اتنی سخت ہے کہ رکن کے دل میں ڈر پیدا ہو یا نہیں۔جسٹس جمال خان نے استفسار کیا یہ کیسا جرم ہے جس کی آئین میں اجازت دی گئی ہے ۔فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 1973 کے اصل آئین میں آرٹیکل 96 پارٹی انحراف سے روکنا تھا، 1973 کے اصل آئین میں منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ فوجی آمر نے آئین میں آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کو شامل کیا۔جسٹس جمال خان نے کہا کہ عوام کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ فیصلہ کیا آیا ہے ، جو بات لیڈر کرتا ہے ، عوام اسکے پیچھے چل پڑتی ہے ،جہاں بھی اختیار حد سے زیادہ ہو گا وہاں استعمال غلط ہو گا۔جسٹس مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا الیکشن کمیشن منحرف اراکین کے خلاف ریفرنس مسترد کر سکتا ہے ؟،منحرف ہونا اتنا بڑا جرم ہے تو وزیراعظم کے خلاف ووٹ دینے پر پابندی کیوں نہیں لگائی گئی؟۔ فاروق نائیک نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے کی آئین میں شمولیت کی نیت بھی دیکھنی ہو گی،آرٹیکل 62 اور 63 میں 1973 سے آج تک بہت پیوند لگے ہیں،ہر حکومت اور آمر آرٹیکل 58 ،62,63 اور 96 میں ترمیم کرتے رہے ،جرم کی سزا کتنی ہے اصل سوال یہ ہے ،آرٹیکل 58(2)b کے خاتمے پر آرٹیکل تریسٹھ اے شامل کیا گیا۔انھوں نے کہا پاکستان میں جمہوریت ابھی میچور نہیں ہوئی،الیکشن کمیشن نااہلی ریفرنس پر مقررہ مدت تک فیصلے کا پابند ہے ،آرٹیکل تریسٹھ اے کا مطلب منحرف رکن کو سیاسی پھانسی دینا نہیں۔فاروق ایچ نائیک کے دلائل جاری تھے کہ عدالت نے سماعت آج دن ایک بجے تک ملتوی کر دی اورچیف جسٹس نے کہا جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کی وجہ سے سماعت جلد ملتوی کررہے ہیں۔