حالیہ دنوں میں پنجاب کے مختلف علاقوں میں عدالتوں کے اندر اور باہر کچھ ایسے خوفناک خونی مناظر دیکھنے میں آئے کہ مقدمہ قتل میں ملوث زیرِ حراست ملزمان کو کمرہ عدالت کے اندر قتل کر دیا گیا۔ کچھ اسی قسم کے واقعات عدالتی احاطہ کے باہر بھی ہوئے ایسے واقعات کا پے در پے ہونا ہمارے عدالتی نظام کی شفافیت، مقدمات کے فیصلوں میں غیر معمولی تاخیر ، ضابطہ فوجداری کا گنجلک پروسیجر، وکلاء کا تاخیری حربے اختیار کرنا، کمزور پراسکیوشن ،سچے گواہوں کی غیر دستیابی اور اْن کو عدالت تک با حفاظت پہنچانا، عدالتی احاطہ جات میں سکیورٹی کے ناقص انتظامات اور سب سے بڑھ کر ہمارے فوجداری نظام میں ملزم کو قانون کا ‘‘پسندیدہ بچہ’’ سمجھنا یہ ساری وجوہات مسائل کو جنم دیتی ہیں۔ بد قسمتی سے ایک انحطاط پذیر معاشرہ میں سچ لکھنا، سچ سْننا اور سچ برداشت کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ نظام عدل میں کیا خامیاں ہیں۔ ہر کوئی اس سے آگاہ ہے۔ مگر صرف اْس حد تک سچ سْننا چاہتا ہے جو اْسے پسند آئے۔ یہی حال ہمارے معاشرہ کا ہے۔ یہاں اخلاقی اور انسانی اقدار اس بْری طرح مجروح ہو چکی ہیں کہ انصاف کا مفہوم صرف یہی رہ گیا ہے کہ جو میرے حق میں ہو وہی انصاف ہے۔ میں نے خود بے شمار لوگوں سے یہ بات سْنی کہ اْنکے ساتھ انصاف نہیں ہوا کیونکہ اْن کا مقدمہ عدالت نے اْنکے خلاف فیصلہ کر دیا ہے۔ اس مائینڈ سیٹ اور سوچ میں ان پڑھ اور پڑھے لکھے کی کوئی تفریق نہیں ۔ ہمارے نظامِ انصاف میں خصوصی طور پر فوجداری نظامِ انصاف میں سچ اور جھوٹ میں اس قدر آمیزش اور تال میل ہوتا ہے کہ اکثر اوقات سچ جھوٹ کے نیچے دب جاتا ہے۔ جس کی ابتدا FIR کے اندراج سے شروع ہوتی ہے۔ پھر ناقص اور جانبدارانہ تفتیش اور عدالت سے سچ چھپانے کی شعوری کوشش اور دیگر بیشمار قانونی موشگافیاں اور اعلٰی عدالتوں کے فیصلہ جات کہ جن میں ہر چھوٹے سے چھوٹے شک کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں جب مدعی مقدمہ مایوسی اور نااْمیدی کے گہرے سایوں کی لپیٹ میں آتا ہے تو پھر جذبہ انتقام غالب آنا شروع ہوتا ہے۔ اور اس طرح کے خونی واقعات با کثرت رْونما ہوتے ہیں۔ یہاں معاملہ جو زیر بحث آ سکتا ہے وہ یہ ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز کو انصاف میں تاخیر گراں گزرتی ہے۔ یہ ایک کڑوا سچ ہے۔ اسے ماننا پڑے گا۔ اپنے طویل عدالتی تجربات کی روشنی میں کچھ اہم نکات اس غیر ضروری تاخیر جو کہ عدلیہ کے لیے ایک stigma بن چکی ہے پر کچھ عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 1996 سے قبل تک ہمارے سول جج صاحبان صرف سول نوعیت کے مقدمات سن رہے تھے۔ اْنکی کاز لسٹ کنٹرول میں تھی۔ ابھی بھی کسی بھی سول جج کو 40/50 کے قریب روزانہ مقدمات کی کاز لسٹ دے دیں مقدمات جلد فیصلہ ہونا شروع ہو جائیں گے۔ زیادہ معاملہ خراب اچانک فوجداری مقدمات جو کہ انتظامیہ اور عدلیہ کی علیحدگی کی صورت میں ہمارے حصّہ میں آئے، وہاں سے شروع ہوا۔ ہم شاید ذہنی طور ہر اس بوجھ کو اٹھانے کے لیے تیار نہ تھے۔ نہ ہی ہائی کورٹ کی طرف سے کوئی ہوم ورک کیا گیا تھا۔ لہٰذا اْس وقت تقریباً تین سو کے قریب سول ججوں پر سینکڑوں ایگزیکٹو مجسٹریٹ صاحبان کی عدالتوں کے لاکھوں مقدمات کا بوجھ اچانک آن پڑا۔ نتیجہ سامنے تھا۔ اتنی قلیل تعداد میں سول جج اتنا بوجھ اٹھانے کی پوزیشن میں نہ تھے۔ نہ ہی ہمارے پاس مناسب تربیت اور انفراسٹرکچر تھا۔ لہٰذا جب توجہ فوجداری کام کہ جس میں ہمیشہ involve urgencyہوتی ہے، کی طرف مبذول ہوئی تو سول کام عدم توجہی کا شکار ہو گیا۔ اس طرح نئے سول ججز کی بھرتی تک چار پانچ سال کام اکٹھا ہونا شروع ہو گیا اور backlog کی ایک اہم وجہ بنا۔ یہاں ایک دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی کہ وہ جسمانی ریمانڈ کی درخواست جو ایگزیکٹو مجسٹریٹ کے پاس کبھی شاذ ہی argue ہوتی تھی اب ہمارے پاس ہر مقدمہ میں پہلی تاریخ پر ہی زوردار طریقہ سے contest ہونا شروع ہو گئی۔ درخواست ہائے ضمانت، درخواست سپرداری کے فیصلہ کرنے میں خاطر خواہ وقت لگتا ہے۔ جس سے روٹین کی کاز لسٹ کا متاثر ہونا ایک فطری عمل ہے۔ جسکی وجہ سے اصل سول و فوجداری مقدمات نظر انداز ہونا شروع ہو گ گئے اور پھر کئی سالوں میں یہ تعداد لاکھوں تک پہنچ گئی۔ اب کوئی حل اس گھمبیر صورتحال سے نکلنے کا نظر نہ آ رہا ہے۔ 1988 سے شروع ہو کر گزشتہ تیس سال کے دوران تین چار سال بعد عام انتخابات کی نگرانی عدلیہ کے سپرد کر دی گئی اور ہر مرتبہ تقریباً تین ماہ تک عدالتی کام معطّل رہا کہ سبھی ججز الیکشن ڈیوٹی کے قومی فریضہ میں مصروف ہونے کی بنا پر عدالتی فرائض سر انجام دینے سے قاصر تھے۔ اس الیکشن ڈیوٹی کی وجہ سے عدلیہ کے حصّہ میں نیک نامی کی بجائے بیشمار الزامات اور تہمتّیں جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق واسطہ نہ تھا وہ برداشت کرنا پڑیں اور ساتھ جوڈیشل ورک کو بھی ناقابل تلافی نقصان بھی اْٹھانا پڑا۔ اس بات کی مزید وضاحت کے لیے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت گزشتہ تقریباً دو سال سے کرونا وائرس کی وجہ سے دیگر شعبہ ہائے زندگی کی طرح عدالتی نظام بھی شدید متاثر ہوا ہے۔ اور اب جو مقدمات کرونا وائرس کی وجہ سے ملتوی ہو رہے ہیں وہ تقریباً ایک ایک دو دو سال سیدھے نہیں ہو پائیں گے۔ یہی صورت حال ہر الیکشن کے بعد ہم نے نوٹ کی۔ عدالتی طریقہ کار، گنجلک پروسیجر، سو سال سے زائد رائج ضابطہ دیوانی اور ضابطہ فوجداری اور بے شمار دیگر عوامل اس نظام انصاف کی سْست روی کے ذمّہ دار ہیں۔ (کالم نگار کی زیرِ طبع کتاب ‘‘عدل بیتی’’ سے لیا گیا ایک اقتباس) ٭٭٭٭٭