آجکل کشمیر کا محاذ گرم ہے۔ جو کچھ مقبوضہ کشمیر میں ہو رہا ہے یا لائن آف کنٹرول کی صورت حال ہے‘ وہ اپنی جگہ مگر یوں لگتا ہے کہ صبح شام ہم نے بحث کا ایک بازار گرم کر رکھا ہے کل پنجاب یونیورسٹی میں بڑا ذی شان سیمینار تھا۔ تو آج یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی(یو ایم ٹی) میں ایک شاندار نشست تھی اور جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہوں گے ہم لوگ یونیورسٹی آف سیالکوٹ سے لوٹ چکے ہوں گے۔ اس کے علاوہ بھی سیمینار‘ اجلاس ‘ نشین‘ جلسے شیڈول ہیں۔ جس میں ہم نے جانا ہے ڈر مجھے اس بات کا ہے کہ ہم کہیں یہ سمجھنے نہ لگ جائیں کہ ہم اسی طرح کشمیر کا مسئلہ حل کر لیں گے ۔اچھی بات ہے کہ ہم اپنی الجھنیں دور کر رہے ہیں اور جو باتیں بھول چکے ہیں‘ ان پر اعلیٰ ترین اکیڈمک سطح پر بات کر رہے ہیں۔ اسے قوم کی طرف سے ایک اجتماعی لاڈڈ تھنکنگ یا بلند کلامی کہہ لیجیے۔ مسئلہ مگر ہے کہ ہمیں طے کرنا ہے کہ ہم نے آگے چل کر کرنا کیا ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ یہ مسئلہ ایک دو دن میں حل ہونے والا نہیں ۔ ہم تو خیر یہ بات بھی طے کر چکے ہیں کہ اس تنازعہ کا حل جنگ نہیں ہے۔ کئی بار تو یوں لگتا ہے کہ ہمارا ایمان ہے کہ جنگ بری چیز ہے۔ اس سے بچنا چاہیے اور امن کا راگ اونچے سروں میں جاری رکھنا چاہیے کیونکہ صرف اسی صورت میں دنیا کو ہم سے ہمدردی پیدا ہو گی اور دنیا ہماری بات سنے گی۔ خورشید محمود قصوری کے ہاں ایک نشست میں یہی ’’رائے عامہ‘‘ بن رہی تھی تو میں نے ایسے یہ پوچھ لیا کہ یہ تو درست ہے کہ ہمیں دنیا کے سامنے خود کو ایک امن پسند ملک کے طور پر پیش کرنا چاہیے کیونکہ دنیا امن کی کی بات سنتی ہے۔ بس ذرا اتنا بتا دیجیے کہ بھارت تو نہ صرف یہ کہ امن کی بات نہیں کرتا ‘ بلکہ اس نے دھونس ‘ تشدد اور دھاندلی سے کشمیر کو ایک طرح سے غصب کر لیا ہے۔ پھر بھی دنیا اس کی بات سنتی ہے ہماری نہیں سنتی ایسے میں اقتصادی ضروریات کا حوالہ نہ دیجیے۔ صرف یہ بتائیے اگر دنیا صرف امن کی بات پر خوش ہوتی ہے تو بھارت سے کس بات پر خوش ہو رہی ہے۔ دلیل کمزور ہے کوئی بات سوچیے۔ یو ایم ٹی کے سیمینار میں سلمان غنی نے ایک عمدہ بات کی کہ جنگ سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جنگ کے لئے تیار رہا جائے۔ بات درست ہے یہ جو ہمیں اپنے گھوڑے تیار رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تو اس کا یہی مطلب ہے۔ہم ہیں کہ شور مچا رہے ہیں دیکھنا جنگ نہ ہونے پائے۔ لائن آف کنٹرول کے پاس نہ جانا جو شخص کشمیریوں کی مدد کا سوچے گا یعنی عملی مدد کی‘ وہ کشمیر اور پاکستان سے دشمنی کرے گا۔ ادھر آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے یہ کہہ کر ایک بھونچال پیدا کر دیا کہ سری نگر کی عورتیں ہر روز اپنے دروازوں سے جھانک جھانک کر دیکھتی ہیں کہ شاید پاک فوج ان کی مدد کو آن پہنچی ہے۔ وزیر اعظم آزاد کشمیر فاروق حیدر ایک مجاہد آدمی ہیں اور پنجاب یونیورسٹی میں وہی مہمان خصوصی تھے۔ فیصل آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا اور لوگ ان کی بات سننے پہنچے ہوئے تھے۔ ہمارے گورنر چودھری سرور کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ وہ یوں تو دودھ دہی کی دکان کے افتتاح پر بھی جا پہنچتے ہیں۔ مگر آج کہیں مصروف تھے۔ یہ جلسہ غیر اہم نہ تھا۔ اس میںپنجاب یونیورسٹی کی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے ساتھ الطاف حسن قریشی ‘ اورپائنا اور متحدہ علماء کونسل نے بھی تعاون کیا تھا۔ وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز اختر اس کی صدارت کر رہے تھے اورجیسا کہ میں نے کہا یہ مجلس فیصل آڈیٹوریم میں برپا تھی۔ یہ آڈیٹوریم اتنا اہم ہے کہ یہاں آنا بڑے بڑے سیاست دانوں کا خواب رہا ہے۔ بھٹو نے اقتدار میں آتے ہی سب سے پہلے یہی خواہش کی تھی۔ بہرحال تین گھنٹے تک یہ اجتماع جاری رہا۔ سٹاف ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر ممتاز احمد ویسے بھی بڑے فعال استاد ہیں۔ ان کی محنت نظر آ رہی تھی۔ تمام سیاسی جماعتوں نے اپنے نمائندے بھی بھیج رکھے تھے۔ پی ٹی آئی کے اعجاز چودھری ‘ پیپلز پارٹی کے قمر الزماں کائرہ اور جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے عبدالرشید ترابی نے اپنے اپنے انداز میں رنگ جمایا۔ تاہم وہاں تو اہل علم اور اہل دانش کی ایک قطار تھی جو باری باری آتی سوالات اٹھاتی اور ان کے جوابات دیتی۔ وہی اجتماعی بلند کلامی کا ایک ماحول تھا۔ جس میں بڑے اہم نکات کھل کر سامنے آئے۔ آغاز تو الطاف حسن قریشی نے اپنے کلیدی خطاب میں بڑے مدبرانہ اور مفکرانہ انداز میں کر دیا تھا۔پھر سلسلہ چل پڑا۔ یہ تو خیر بڑا جلسہ تھا جسے سیمینار کہا گیا۔ مگر یو ایم ٹی میں جب سے ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے شعبہ ابلاغیات کا چارج سنبھالا ہے وہ اپنی افتاد طبع کے مطابق لہو گرم کرنے کے بہانے تراشتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ہمارے پرانے دوست ہیں اور چار یونیورسٹیوں میں ابلاغیات کے شعبوں کو جدید خطوط پر منضبط کر چکے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے احیائے نو کے بعد سپیرئیر یونیورسٹی ‘ یونیورسٹی آف سنٹرل پنجاب اور اب یو ایم ٹی میں وہ اپنے مزاج کے عین مطابق سرگرم بھی ہیں‘ یہ خالص سمینار تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے دائیں بائیں سابق سیکرٹری خارجہ اور مجیب الرحمن شامی اور رائونڈ ٹیبل پر چیدہ چیدہ چند افراد جنرل غلام مصطفی‘ محمد علی درانی ‘ ارشاد عارف‘ سلمان غنی‘ سلمان عابد‘ افتخار احمد‘ عطاء الرحمن‘ امیر العظیم اور ان کے ساتھ یہ خاکسار بھی۔ آخر میں اوریا مقبول جان بھی آن پہنچے۔ جو پہلو تشنہ رہ گیا تھا۔ انہوں نے اس کی بھی جوت جگا دی۔ یہاں کئی تجاویز سامنے آئیں۔ مثلا امیر العظیم نے کہا کشمیر کی جلاوطن حکومت بنائی جائے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ اس دن کشمیر کے فیصلے کا کوئی پہلو تشنہ رہ گیا ہو۔ افتخار احمد نے اپنے انقلابی انداز میں ایک اچھی تجویز دی۔ انہوں نے طلبہ کو مخاطب کیا جو اس گول میز کے چاروں طرف پیچھے سب کچھ سن رہے تھے۔ ان سے کہا کہ ہماری یونیورسٹیوں میں کتنے لاکھ طالب علم ہوں گے۔ میں یہ نہیں کہتا آپ ریلی نکالیں۔ جلوس میں نکلیں‘ کشمیر کا مسئلہ ایسے حل نہیں ہو گا۔ آپ صرف اتنا کریں کہ دنیا جہاں میں موجود انسانی حقوق کی انجمنوں ‘ یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینک کو پیغاما ت ای میل کریں۔ ڈرافٹ تیار کریں‘ اساتذہ کی مدد لیں۔ ایڈریس اکٹھے کریں اور ایک ایسی تحریک چلائیں کہ دنیا سوچنے پر مجبورہو جائے کہ اس خطے میں ضرور توجہ دینا پڑے گی۔ یہ سب باتیں ٹھیک ہیں مگر ہمیں تیار رہنا چاہیے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے اور دنیا کیا چاہتی ہے۔ نائن الیون کے ایک سال بعد ہم سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی دعوت پر امریکہ میں تھے۔ وہاں کا ہر تھنک ٹینک یہی بتاتا تھا کہ کشمیر کے مسئلے کا حل لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد مان لیا ہے۔ جب پوچھا جاتا کس لئے؟ جواب ملتا کہ بھارت اس سے زیادہ پر تیار نہ ہو گا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا ظالم سے پوچھ کر انصاف کرنا چاہتی ہے اور اس کی مرضی کے بغیر اور کوئی حل تلاش نہیں کرتی۔ مشرف نے آئوٹ آف باکس تجاویز میں جو فارمولا بنایا تھا وہ کشمیر کو پہلے مختلف خطوں میں بانٹنے کا تھا۔ لگتا ہے کہ اس کا اختتام بھی اس بات پر ہونا تھا کہ زیادہ سے زیادہ لائن آف کنٹرول کو مان لیا جائے۔ ابھی سرتاج عزیز کا ایک انٹرویو ٹی وی پر آیا ہے جس میں لگتا ہے کہ ان کے زمانے میں جو مذاکرات ہو رہے تھے۔ وہ بھی انہی خطوط پر تھے۔ میرا سوال امریکی تھنگ ٹینک سے بھی وہی تھا جو آج سب سے ہے۔ اگر بھارت اور پاکستان کسی ایسے فارمولے پر متفق ہو جائیں تو کیا کشمیر کا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ میں دوبارہ پوچھتا ہوں ہمارے ’’مک مکا‘‘ سے کشمیری مطمئن ہو جائیں گے۔ ہم نے سوچا ہے کہ کرفیو اٹھنے کے بعد کشمیر کی کیا صورت ہو گی۔ اس وقت ہماری کیا ذمہ داری ہو گی جو تاریخ ہمارے کندھوں پر ڈال دے گی۔ ہم چاہیں یا نہ چاہیں ہمیں یہ ذمہ داری نبھانا پڑے گی۔ وگرنہ پاکستان دنیا کے سامنے اپنی شناخت ایسے کھو دے گا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ یہ سقوط مشرقی پاکستان سے بڑا دھچکا ہو گا۔ چواین لائی نے سقوط ڈھاکہ کے وقت کہا تھا کہ یہ اختتام نہیں یہ اختتام کی ابتدا ہے۔ چواین لائی کی بات کا دوسرا مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ کشمیر ہی نہیں‘ بھارت کے اندر رہنے والے مسلمانوں کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہو گا۔ اوریا نے آ کر بتایا القاعدہ برصغیر بڑی منظم ہو رہی ہے۔ گویا اب بھارت کی باری ہے۔ مسلمان ہی نہیں‘ وہاں اور بھی کئی گروپ‘ سکھوں سمیت کسی وقت بھی بپھر سکتے ہیں۔ ایسا ہوا تو کسی اسد مدنی یا محمود مدنی یا کسی اور مدنی کی کوئی نہیں سنے گا۔ پنجاب یونیورسٹی کے جلسے میں عالمی امور کے ممتاز ماہر محمد مہدی نے بڑی عمدہ بات کی۔ آپ کشمیریوں کی فی الحال براہ راست مدد کرنے سے ڈرتے ہو تو بھارت کی ان اقلیتوں کے مدد کیجیے جن کا اجلاس ادھر کہیں مشرق بعید میں ہوا ہے۔ مودی جتنا آسان سمجھتا ہے کہ اس نے کشمیر کو ہڑپ کر دیا۔تایہ ریخ سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ کشمیر کے خلاف اس کا یہ اقدام اور اس کی ہندوتاکی خواہش بھارت کو بھی ہڑپ کر سکتی ہے۔ ابھی اختتام نہیں ہوا یہ تو ابتدا ہے۔ اختتام شاید آپ کی نظر میں نہیں۔