گزشتہ ہفتہ بہت ہی مصروف گزرا ۔ بہت ساری مصروفیات میں سے دو میں آپ کو شریک کرنا چاہتا ہوں۔ دونوں کا تعلق یونیورسٹیوں سے ہے۔ ایک تو سیالکوٹ میں گجرات یونیورسٹی کا کیمپس ہے جو جلد ہی سیالکوٹ یونیورسٹی میں تبدیل ہونے والا ہے۔ چلتے چلتے یہ بتاتا جائوں کہ جب کوئی ایسا تجربہ ہوتا ہے تو اپنا شہر ساہیوال یاد آتا ہے جہاں نہ صرف سائنس میں پوسٹ گریجوایٹ کلاسیں ہمارے زمانے سے موجود ہیں اور بہائوالدین زکریا یونیورسٹی کا کیمپس بھی ہے۔ مگر ابھی تک یہ بحث جاری ہے کہ یہاں یونیورسٹی پوسٹ گریجوایٹ کالج کو بنایا جائے یا ملتان والی یونیورسٹی کے سب کیمپس کو۔ میں نے تو یونیورسٹی کا نام بھی سوچ رکھا ہے ۔گویا بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اس کا نام طے کر دیا ہے۔ شکر گنج یونیورسٹی آف ساہیوال(ایس یو ایس) ہے نا مزے کا نام۔ میں کدھر نکل گیا۔ بتا یہ رہا تھا کہ گزشتہ دنوں دو یونیورسٹیوں میں جانے کا اتفاق ہوا ایک تو اسی سیالکوٹ والی یونیورسٹی میں اور دوسری لاہور کی شہرہ آفاق یونیورسٹیLUMSمیں جو لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کا مخفف ہے۔ اس یونیورسٹی کا جو شہرہ ہے وہ اس کے ایلیٹ کلچر کا حصہ ہے۔ کبھی تعلیمی اداروں کے کلچر کا بھی تذکرہ کروں گا۔ ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہا تھا۔ میں نے پوچھ لیا عزیز طلبہ آپ نے اس یونیورسٹی کا انتخاب کیوں کیا۔ جواب آیا یہ لاہور کی تین لبرل یونیورسٹیوں میں سے ایک باقی ہے۔بحث کسی اور وقت کے لیے چھوڑے دیتے ہیں۔ فی الحال ان یونیورسٹیوں کا چکر لگانے کی وجہ بتائے دیتا ہوں دونوں جگہ مباحثے‘ مذاکرے تھے۔ لمز نے تو اس پر مباحثہ کرا رکھا تھا کہ عدالتی فعالیت(جوڈیشل ایکٹوازم) سے جمہوریت کو نقصان پہنچا ہے یا فائدہ۔ مجھ سے کہا گیا کہ مجھے عدالتی فعالیت کے خلاف مقدمہ قائم کرنا ہے۔ گویا یہ بتانا ہے کہ اس سے جمہوریت کو نقصان پہنچا ہے۔ عرض کیا‘ کس لیے۔ دوسری طرف سے کیوں نہیں ۔جواب ملا کہ ہم جانتے ہیں آپ اپنی تحریروں اور گفتگوئوں میں یہی بات کہتے ہیں۔ تو گویا یہ خبر وہاں تک بھی جا پہنچی۔ تحریک انصاف کے شفقت محمود اور مسلم لیگ کے مصدق ملک بھی موجود تھے۔ گویا سیاسی دنگل تھا۔ خیر میں ذرا دیر سے پہنچا تھا کہ ہائی کمشن نے ملکہ برطانیہ کی 92ویں سالگرہ پر ایک تقریب کا اہتمام کر رکھا تھا۔ سوچا کہ ہمیں کم از کم 92ویں سالگرہ کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہم نے عرصے سے سفارتی تقریبات میں جانا تقریباً موقوف کر رکھا تھا مگر اس دن وہاں بھی حاضری لگا آیا تھا۔ لمز میں سب سے پہلے تو مجھے یہ بتانا پڑا کہ یہ گفتگو عدالت کی حمایت یا عدالت کی مخالفت کے درمیان نہیں ہو رہی بلکہ تقابل اس بات کے درمیان ہے کہ عدالتی فعالیت جمہوریت کے لیے اچھی ہے یا بری۔ خیال تھا کہ اس ادارے کے طلبہ عدالتی فعالیت کو جمہوریت کے حق میں سمجھتے ہوں گے مگر طلبہ نے اس نازک مگر واضح فرق پر جب ذرا زور دار تالیاں بجائیں تو حوصلہ بڑھا اور مجھے اندازہ ہو گیا کہ شہر کے لبرل نمبر ایک ادارے میں بھی طلبہ کا خیال ہے کہ عدالتی فعالیت سے احتیاط برتنا چاہیے۔ سنا ہے جب بعد میں ووٹنگ ہوئی تو بھی نتیجہ یہی آیا۔ میں نے ذرا سنجیدگی سے ایک نکتہ یہ بھی عرض کیا کہ کیوں نہیں آپ کی یونیورسٹی میں اس مسئلے پر پی ایچ ڈی کی سطح پر ریسرچ کرائی جاتی۔ ہمارے ہاں تین دورماضی قریب میں ایسے گزرے ہیں جب عدالتی فعالیت ایسے عروج پر تھی اور داد بھی وصول کر رہی تھی بلکہ بعض لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ عدالتی مقبولیت کا گراف بلند کرنے کے لیے کیا جاتا تھا۔ ہمارے موجودہ چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور سے پہلے افتخار چودھری کا زمانہ اس سلسلے میں بہت مصروف ہے تاہم ان سے پہلے جسٹس سجاد علی شاہ بھی گزرے ہیں۔ ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ وہ اس حوالے سے بڑے مزے کی شخصیت تھے ۔یاد آیا کہ وہ چند دنوں کے لیے باہر گئے۔ غالباً عمرے پر‘ اتنے میں قائم مقام (ایکٹنگ) چیف جسٹس نے ان حالات پر غور کرنے کے لیے سپریم کورٹ کا اجلاس طلب کر لیا وہ دورہ مختصر کر کے فوراً واپس پلٹے۔ کراچی پہنچتے ہی بیان دیا کہ اب آپ کی ایکٹنگ (قائم مقامی) ختم ہو گئی گویا میں آ گیا ہوں اب یہ تاریخ کا حصہ ہے کہ ان کے ساتھ ان کے رفقاء نے کیا کیا۔ اب اس کا الزام نواز شریف پر لگتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ہم یہ کہہ رہے ہیں کہ باقی جج بک گئے۔ خدا کا خوف کرو۔ کہیں تو ہین عدالت کر رہے ہیں آپ ویسے عدلیہ کے اس شیر نے ایک آئینی ترمیم کو پہلی ہی پیشی میں معطل کر دیا تھا جی ہاں آئینی ترمیم کو اس کے اثرات جو پڑنا تھے اس کا تو موقع ہی نہ آنے دیا گیا۔ ساتھی ججوں نے انہیں ان ہی کے ایک فیصلے کی روشنی میں فارغ کر دیا۔ فیصلہ ہو گیا کہ چیف جسٹس سینئر ترین جج کو ہونا چاہیے جبکہ سجاد علی شاہ خود سینئر ترین نہ تھے چنانچہ فیصلے میں وضاحت کر دی گئی کہ اس کا اطلاق ان پر نہیں ہو گا باقی ساتھی ججوں نے کہا‘ بھئی کیوں نہیں ہو گا‘ ہم کہے دیتے ہیں۔ میرا کہنا ہے کہ ان کی روداد پر خاص طور پر ایک اسٹڈی کی جائے۔ بھارت میں بھی عدالتی فعالیت کا رواج ہے وہاں بھی ججوں نے چیف جسٹس کے خلاف بغاوت کر رکھی ہے بھارت میں تو خیر Impeachmentکا بھی قانون ہے۔بڑے بڑے دلچسپ سوال پیدا ہوتے ہیں جن پر قانون اور سیاسیات کے طالب علموں کو غور کرنا چاہیے۔ دیکھیے میں نے کیسی احتیاط برتی ہے۔ بات کو ماضی میں لے گیا ہوں یہ نہیں کہ وہاں بھی ایسا کیا ہو گا۔آخر میں دادبھی لینا تھی۔ اس کو نظر انداز کرتے ہوئے یہ کہنا چاہتا ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے ہاں اداراتی تصادم اور عدالتی فعالیت کے مختلف پہلوئوں کا یونیورسٹیوں کی سطح پر مطالعہ ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں تھنک ٹینک تو ہے نہیں‘ کم ازکم یونیورسٹیاں ہی یہ کار خیر کر لیں۔ کم از کم ذہن تو صاف ہوں گے۔ ادھر دوسری یونیورسٹی یعنی سیالکوٹ یونیورسٹی میں تو بہت ہی دلچسپ موضوع تھا اور اس میں مقرر بھی ایک اکیلا تھا۔ شعبہ ابلاغیات کی سربراہ روما شہزادی کے ساتھ نومہ خواجہ نے مل کر بہت عمدہ بندوبست کیا تھا ۔وہاں کے انچارچ کلیم رضا نے موضوع کا عمدہ تعارف کرایا پھر سٹیج میرے سپرد کر دیا۔ موضوع تھا کہ ابلاغ عامہ اور گلوبلائزیشن آف کلچر۔ بس اللہ دے اور بندہ لے مجھے تو گویا موقع مل گیا۔ عرض کیا کہ اسے گلوبلائزیشن کے بجائے ولگرائزیشن (Vulgarization) آف کلچر کہا جائے۔اس میں اپنا وہ موقف دہرایا جو ان دنوں میں اپنے کالموں میں بھی بیان کر رہا ہوں اور ٹی وی چینلوں پر اپنی گفتگو میں بھی۔ میرا کہنا ہے مغرب نے کلچر کو مار دیا۔ وہ دن گئے کہ جب ان مغربیوں نے اللہ میاں کی موت کا اعلان کر کے ساری تہذیبی قدریں ہی بدل دی تھیں۔ اب لگتا ہے کہ تہذیب کا کلچر ‘ تمدن‘ ثقافت نام کے لفظ قصہ پارینہ بن چکے ہیں۔ تہذیب مر چکی ہے۔ آپ آج کے اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ کلچر کا لفظ زیادہ سے زیادہ ہالی وڈ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ باقی سب کچھ لائف سٹائل ہے۔ یہ وہ لائف سٹائل ہے جس کا نیا شاخسانہ می ٹو کا شوشا ہے۔ کم بختوں نے کچھ چھوڑا ہی نہیں۔ مجھے خوشی ہوئی کہ اس بحث کو طلبہ نے بہت سنجیدگی سے سنا۔ بعد میں کھانے کی میز پر طلبہ نے بڑے چبھتے ہوئے سوال کیے۔ صرف بڑے شہروں کی یونیورسٹیاں ہی ان بحثوں کی سکت نہیں رکھتیں‘ چھوٹے شہروں کے طلبہ بھی بات کو بڑی باریکی سے سمجھتے ہیں۔ یہ مغربیوں کے نقال تو یہ کہتے ہیں کہ انہیں یہ بات کرنے کی اجازت ہونا چاہیے میں کہتا ہوں ڈٹ کر ہونا چاہیے پھر آپ کو ہم اخبار نویسوں اور رجعت پسندوں کی بات بھی سننا پڑے گی اور اس زبان میں سننا پڑے گی کہ جو ہماری روایت و تہذیب کے پس منظر میں زیادہ سمجھ آتی ہے۔ ہم بھی لحاظ نہیں کریں گے۔ آپ جس لائف سٹائل کو فروغ دینا چاہتے ہیں اس کے اندر مچلتی گندگی اور غلاظت کو بیان کرنے کی ہمیں بھی اجازت ہونا چاہیے۔ اس وقت تو اسے رہنے دیجیے۔ مگر یہ لوگ باز نہ آئے تو کھلم کھلا وہ بات کہنے پر مجبور ہوں گے جو ان نام نہاد لبرل مغربیوں کے دلوں میںموجیں مار رہی ہے۔ یہ بہت اہم بحث ہو گی کہ ہم جائزہ لیں کہ کس طرح خاموشی سے ہم سے ہمارا کلچر بھی چھینا جا رہا ہے۔ مذہب پر تو کب سے وار ہو رہے تھے اب کلچر بھی گوارا نہیں ہے۔ مجھے یاد ہے ہمارے لڑکپن میں یہ بحث ہوتی تھی کہ صنعتی ترقی یا جدیدیت کے فروغ کے ساتھ کلچرل گرفت کس طرح قائم رکھی جائے۔ اس میں جاپان کے حوالے سے یہ بحث مجھے اب بھی یاد ہے کہ انڈسٹریلائزیشن کو محض Westrenizationنہ کہیے۔ آپ صنعتی ترقی کے عمل پر اپنی تہذیب‘ اقدار کو کس طرح نگران بنا سکتے ہیں۔ اب یہ لگتا ہے کہ ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ ایک نیا کلچر آ رہا ہے جو شاید اینٹی کلچر ہے پھر بھی بہت ہے جس کی طرف اشارہ کیا۔ پیپسی‘ کوک یا موبائل فون صرف برانڈ یا ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ ان کے پس پردہ کن قدروںکو فروغ دیا جا رہا۔ موبائل ہے تو نائٹ پیکیج۔ یہ فاسٹ فوڈ یہ مشروبات ان کے اشتہار دیکھ لیجیے۔ سمجھ آ جائے گا اس گلوبل کلچر کے پس پردہ کیا آ رہا ہے۔ یہ بھی ایک سنجیدہ مطالعہ مانگتا ہے ۔ذرا رک کر ایک لمحے کے لیے اس پر غور تو کر لیجیے۔ ظالما‘ ذرا غور تو کر لے!