پلوامہ حملہ کے بعد بھارتی حکومت‘ میڈیا اور عوام ذہنی توازن کھو بیٹھے‘ سیکولرازم‘ لبرلزم اور جمہوریت کا سارا میک اپ ایک فرضی یا حقیقی کردار عادل ڈار نے اتار دیا ؎ کاغذ کے پھول سر پہ سجا کے چلی حیات نکلی برون شہر تو بارش نے آ لیا بھارت تو خیر بھارت ہے‘ چانکیہ کوتلیہ کا پیروکار اور جھوٹ کا بیوپاری‘ پاکستان میں بھی برسوں سے یہ سن سن کر کان پک گئے کہ وہاں بنیاد پرستی ہے نہ تنگ نظری‘ جمہوریت اور سیکولرازم نے ایک ایسی قوم کو جنم دیا جہاں ہر مذہب اور عقیدے کے لوگ مل جل کر بھائیوں کی طرح خورسند رہتے اور اپنے آپ سے کام رکھتے ہیں‘ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو۔ وہاں تو ہر گھر میں ‘‘مسجد ‘مندر ہِکڑونور‘‘ نظر آتا ہے اور ’’رام ‘رحیم کا رولا‘‘ نہیں‘ بالی وڈ کی فلمیں دیکھ کر یوں لگتا تھا کہ ایک ہی گھر میں خاتون نماز پڑھ رہی ہے‘ مرد رام رام جپ رہا اور چوکیدار دروازے پر بابا گورونانک کے بھجن گارہا ہے ‘کسی کو ایک دوسرے سے سروکار نہیں مگر پلوامہ حملہ کے بعد یوں لگا کہ بھارت محض ایک تنگ نظر ہندو ریاست ہے۔ اور بس‘بھارتی میڈیا کی پختگی اور پیشہ وارانہ انداز فکر کے اس قدر گن گائے گئے کہ ہم پاکستانی صحافی بالخصوص اردو صحافت سے وابستہ کارکن احساس کمتری کا شکار بغلیں جھانکنے لگتے۔ پلوامہ واقعہ نے مگر اس جھوٹ کی قلعی کھول دی ع خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا پانچ چھ روز سے بھارتی ٹی وی پر اینکر‘ تجزیہ کار‘ رپورٹر اور نیوز ریڈر ہر ایک پر جنون طاری ہے اور سڑکوں پر کہیں کشمیری طالب علم زدو کوب کئے جا رہے ہیں کہیں عمران خان کے پتلے جل رہے ہیں اور کہیں پاکستان کو سبق سکھانے کا مطالبہ ہو رہا ہے۔92نیوز کے کالم نگار اور نامور کشمیری صحافی کے ساتھ نئی دہلی میں جو بیتی اس کا ذکر افتخار گیلانی نے اپنے کالم میں کیا‘ بھارتی انتہا پسندوں کے ڈر سے وہ اپنے بیوی بچوں کو لے کر مختلف ہوٹلوں میں کمرہ تلاش کرتے رہے ‘مگر انہیں کمرہ نہ ملا اور اگر مقامی آبادی انہیں نہ بچاتی تو ان کے اپنے بقول وہ بدترین انجام کے لئے ذہنی طور پر تیار تھے۔ اکیلے افتخار گیلانی نہیں ہندوستان بھر میں بسنے والے کشمیری اذیت ناک حالات کا شکار ہیں۔ مسلمانوں‘ کشمیریوں اور پاکستان کے خلاف اس قدر جذبات کارگل جنگ کے دوران بھڑکائے گئے نہ ممبئی حملوں کے بعد‘ بھارت میں کم و بیش ایک لاکھ کشمیری نوجوان زیر تعلیم ہیں‘ امتحانات سر پرہیں مگر ان کا تعلیمی مستقبل مخدوش ہے۔ انہیں کسی نہ کسی بہانے ہاسٹلز اور تعلیمی اداروں سے نکالا جا رہا ہے اور خوف کا یہ عالم ہے کہ وہ اپنے ہی کلاس فیلوز کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتے مبادا کشمیریوں سے ہمدردی کا تاثر ملے اور کلاس فیلوز کی بھی کم بختی آ جائے۔ نئی دہلی میں مقیم ایک سینئر کشمیری صحافی نے پاکستانیوں کو پیغام دیا ’’گزشتہ تین یاچار روز سے بھارت میں پاگل پن کی جو کیفیت ہے اس میں پاکستانیوں کے لئے سبق یہ ہے کہ اپنے ملک کی قدر اور عزت کرو‘ آپ کے حکمران خواہ بدعنوان اور نااہل ہوں آپ کے ساتھ معاشرے میں یہ سلوک نہیں ہو گا‘ سوچئے آپ کس قدر خوش قسمت اور ہم کتنے بدنصیب ہیں‘‘ چند سال قبل سنڈے آبزرور کے ایڈیٹر اور بزرگ صحافی سعید نقوی نے اس سے ملتی جلتی بات ہمارے ایک دوست صحافی سے کی تھی۔ مودی کی حکمرانی میں ہندو توا نے صحافیوں بالخصوص مسلمان صحافیوں کا جینا حرام کیا تو سعید نقوی نے کہا ’’آج میں قائد اعظم کی بصیرت اور مستقبل شناسی کا قائل ہوں‘ اگر پاکستان نہ بنتا تو موجودہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کا حشر ہندوستانی مسلمانوں سے بدتر ہوتا‘ کاش پاکستانی مسلمان اپنے ملک کی قدر کریں اور قائد اعظم کو دعائیں دیں جنہوں نے انہیں ہندو توا کے شر سے محفوظ رکھا‘‘ محبوبہ مفتی بی جے پی کی اتحادی ہیں اور جموں و کشمیر میں مودی کی قابل اعتماد ساتھی مگر گزشتہ روز انہوں نے عمران خان کی تقریر پر مثبت ردعمل ظاہر کیا تو بھارتی تنگ نظرمیڈیا نے انہیں غدار اور پاکستانی ایجنٹ ثابت کیا ‘جبکہ عمران خان کی تقریر میں مذاکرات‘ مفاہمت اور جنگی جنون سے گریز کی بات کی گئی تھی جو روشن خیالی اور انسان دوست بھارتی صحافیوں‘ تجزیہ کاروں اور دانشوروں کو بھی پسند نہیں آئی۔ بھارت کے حکمران‘ سیاستدان اور دانشور دراصل پاکستان اورمسلمانوں سے متنفر اورخوفزدہ ہیں۔ ہزار سالہ غلامی نے ان کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں اور 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد بھی وہ اس خوف کی نفسیات سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پائے۔1990ء سے 2018ء تک بھارت کو یہ سہولت حاصل رہی کہ پاکستان میں برسر اقتدار گروہ تحریک پاکستان کے مقاصد سے ناواقفیت ‘ غیر نظریاتی سوچ اور ذاتی و کاروباری مفاد کی بنا پر بھارت کے رقبے‘ آبادی‘ فوج اور معاشی حجم سے خوفزدہ ہر کڑوی کسیلی شے کا عادی تھا‘ امریکی دبائو کا شکار اور قومی حمیت کے جذبے سے عاری مگر اب سیاسی اور عسکری قیادت دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانے اور کئی برسوں پر محیط جنگ جیتنے کے بعد پرعزم و پرجوش ہے اور اس حقیقت سے آگاہ کہ دو ایٹمی قوتوں میں جنگ کے بارے میں نریندر مودی جیسا جنونی تو سوچ سکتا ہے پاکستان کے سمارٹ بموں اور فوجی صلاحیت سے آگاہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ اور عالمی برادری نہیں جو برصغیر کو کھنڈر بنتا دیکھنے کی خواہش مند ہے نہ پاگل پن کی روادار رہے پاکستانی عوام تو وہ صدیوں سے غزوہ ہندکے منتظر ہیں۔ بھارت میں ایک لطیفہ مشہور ہے کہ پٹھان کچھ کرنے کے بعد سوچتے ہیں جبکہ بنیے کچھ کرنے سے قبل سو بارسوچتے اور پھر سوچتے ہی رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں اتفاق سے ایک پٹھان وزیر اعظم ہے جس نے گزشتہ روز مودی سے یہ کہا ’’حملے کی حماقت کی تو ہم جوابی ردعمل کے بارے میں سوچیں گے نہیں بلکہ بھرپور جواب دیں گے‘‘ بھارتی فوج اس وقت دل شکستہ ہے‘ مایوس اور خوفزدہ ۔ بھارتی فوجی ناکافی سہولتوں ‘ غذائی کمی اور ناکارہ ہتھیاروں کا رونا روتے ہیں اور ایک ہفتے کے دوران تین جنگی جہازوں کی تباہی نے بھارتی پائلٹوں کی مہارت اور فضائی قوت کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے اس کے باوجود اگر بھارت مہم جوئی پر آمادہ ہے تو پاکستان کے گھوڑے تیار ہیں۔ اگر تیاری نہ ہوتی تو وزیر اعظم عمران خان پلوامہ حملے کے بعد سعودی ولی عہد کو اس قدر خوش دلی اور خوش مزاجی سے خوش آمدید کہتے نظر نہ آتے اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا چہرہ استقبالیہ تقاریب میں مطمئن و شاد دکھائی نہ دیتا۔ پلوامہ حملہ نے بھارت اور عالمی برادری کو یہ سوچنے کا موقع فراہم کیا ہے کہ کشمیری عوام کو حق خود ارادیت دیے بغیر خطے کا امن محفوظ ہے نہ مستقبل یقینی۔ کشمیری عوام ’’اب یا کبھی نہیں ‘‘کا معرکہ لڑ رہے ہیں ‘ پہلے وہ بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تھے‘ اب وہ اسے تباہ کرنے کے خواہش مند ہیں کہ انتہا پسند برہمن قیادت نے اس کے سوا کوئی آپشن باقی نہیں چھوڑا ع ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے 9/11کے بعد بھارت کے حوصلے بلند ہوئے سترہ سال بعد حالات مگر بدل چکے‘ افغان عوام نے امریکہ کی عقل ٹھکانے لگا دی‘ وہ مذاکرات کی میز پر محفوظ واپسی کی بھیک مانگ رہا ہے ‘ آج نہیں تو کل بھارت کوبھی پاکستان اور کشمیری عوام کے ساتھ مل بیٹھ کر مسئلہ کا پرامن حل نکالنا پڑے گا۔ کچھ باتیں ولی عہد محمد سلمان مودی کو سمجھا کرجائیں گے باقی کشمیری مجاہدین سمجھا دیں گے۔ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا تو مٹ جاتا ہے خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائیگا خاک صحرا پہ جمے یا کف قاتل پہ جمے فرش انصاف پہ یا پائے سلاسل پہ جمے تیغ بے داد پہ یا لاشہ بسمل پہ جمے خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائیگا ظلم کی بات ہی کیا‘ ظلم کی اوقات ہی کیا ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے ایسی شکلیں کہ مٹائو تو مٹائے نہ بنے ایسے شعلے کہ بجھائو تو بجھائے نہ بنے ایسے نعرے کہ دبائو تو دبائے نہ بنے