مشاہیر اسلام میں سید احمد شہید ایک بہت بڑا نام ہے ، وہ بہادر اور غیر مند مسلمان تھے ، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کوئی بات برداشت نہ کرتے تھے ۔ آپ رائے بریلی میں 1786ء میں پیدا ہوئے۔ سترہ برس کی عمر میں دہلی گئے اور شاہ عبدالعزیز کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔شاہ عبدالقادر سے آپ نے فارسی اور عربی کی کتابیں پڑھیں ۔ 1810ء میں نواب امیر خان کی رفاقت میں شامل ہو گئے۔سات برس تک نواب کے ساتھ عسکری زندگی بسر کی ۔ جب نواب نے انگریزوں سے صلح کی ، آپ کو یہ بات پسند نہ آئی اور آپ دہلی چلے آئے اور اصلاح و تجدید اور جہاد کی تیاری میں مصروف ہو گئے ۔ مسجد اکبر آبادی میں آپ نے قیام فرمایا اور ارشاد و ہدایت کا سلسلہ شروع ہو گیا ، مولاناشاہ اسماعیل اور اس خاندان کے دوسرے سرکردہ حضرات آپ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔ میرٹھ ، مظفر نگر، سہارن پوراور شمالی ہند کے بعض دوسرے اضلاع کا دورہ کیا اور لوگوں کو توحید اور ترک بدعت کے ساتھ ساتھ جہاد کا درس دیتے کہ ان دنوں سکھوں نے مسلمانوں کے خلاف ظلم کی انتہا کی ہوئی تھی ۔ لاکھوں لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور ہزاروں نے اسلام قبول کیا ۔ 1820ء میں سینکڑوں عقیدت مندوں کے ساتھ حج کے ارادے سے نکلے اور ہندوستان کے مختلف شہروں میں تبلیغ کرتے ہوئے کلکتہ پہنچ کر جہاز کے ذریعے حج کیلئے روانہ ہو گئے ۔ حج کے بعد بہت سے اسلامی ملکوں کا دورہ کیا۔ اس دوران سکھوں کے مظالم بارے آگاہی حاصل کرتے رہے ۔ حج سے 1823ء میں واپس ہندوستان آئے ،اطلاع ملی کہ سکھوں نے مسلمان عورتوں کو جبراً سکھ بنا کر ان کو قید کر لیا ہے اور خواتین سے ظلم کیا جا رہا ہے۔ یہ سن کر انہوں نے ملک بھر میں وعظ کے ذریعے سے لوگوں کو بتایا کہ سکھ مسلمانوں سے دشمنی کر رہے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف ظلم کے پہاڑ توڑ رہے ہیں اور وہ ہمارے مذہب میں مخل ہو رہے ہیں ، اب مسلمانوں پر جہاد فرض ہو گیا ہے۔ چنانچہ بہت سے لوگ مجاہدین میں شامل ہوگئے ۔ سید صاحب مجاہدین کو لے کر صوبہ پشاورتک پہنچے ۔ سکھوں کو راہ حق اختیار کرنے کی دعوت بھیجی مگر راجا بدھ سنگھ نے ان کے قاصد سے بد تمیزی کی ، تشدد کا نشانہ بنایا اور امن کا پیغام رد کرتے ہوئے سکھوں کے مسلح جتھے لاہور سے باہر مقابلے کیلئے بھیج دیئے۔ 21 دسمبر 1826 ء کو جنگ ہوئی جس میں سکھوں کو ہزیمت ہوئی اور سینکڑوں آدمی مارے گئے ، مگر سکھ مہاراجا کی ریشہ دوانیاں جاری رہیں ۔ اس نے علاقے کے مسلمان اکابر کو غداری پر آمادہ کیا ۔ آخری معرکہ بالا کوٹ کے مقام پر ہوا ، مجاہدین یہاں جمع تھے کہ مسلمان جاسوسوں نے غداری کی اور سکھ فوج کو ان کا ٹھکانہ بتا دیا ۔، چنانچہ سکھوں کی کئی گنا زیادہ فوج نے آ کر بے خبری میں گھیرا ڈال لیا ۔ مجاہدین جان توڑ کر لڑے ، مگر ہر موقع پر غداروں نے غداری کی ۔ آخر سید احمد اپنے بہادر اور مخلص ساتھیوں کے ساتھ جن میں شاہ اسماعیل بھی شامل تھے ، 6مئی 1831ء بروز جمعہ بالا کوٹ میں شہید ہو گئے ۔ آپ کا مزار بالا کوٹ میں ہے۔( سید احمد شہید تالیف مولانا غلام رسول مہر) ہندوستان پر مسلم اقتدار کو کمزور کرنے کیلئے انگریزوں نے چال چلی ، در پردہ سکھوں کی مدد شروع کر دی ۔ سکھ جو کہ ڈاکو کا پیشہ اختیار کئے ہوئے تھے اور مختلف علاقوں میں مار دھاڑ کرتے تھے ، انہوں نے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا دھندہ شروع کر رکھا تھا ۔ ڈاکوؤں کے سکھ جتھوں نے مسلح فورسز کی شکل اختیار کر لی ، جن کو سکھ مثلوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ در اصل یہ انگریز سامراج کی جنگ تھی جو کہ حکمت عملی کے تحت سکھوں کو آگے کیا جا رہا تھا ۔ مقصد یہ تھا کہ سکھ یورش کے ذریعے تخت دہلی کمزور ہو جائے اور ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ آسان ہو جائے ۔ چنانچہ جب رنجیت سنگھ نے 1799ء میں لاہور پر مکمل قبضہ کر لیا تو مسلمانوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں بڑھ گئیں ، سکھ فوج نے جموں اور سیالکوٹ کا رخ کیا ، گجرات پر حملہ کیا ، مسلم ریاست قصور پر قبضہ ہوا ، پشاور ، چنیوٹ اور جھنگ پر فوج کشی کی گئی اور آخر میں مسلم سلطنت ملتان پر بھی قبضہ کر لیا گیا ، سکھوں نے ان مہمات کو مسلم سکھ جنگوں کا نام دیا اور ان جنگوں میں لاکھوں مسلمان شہید ہوئے ۔ سکھوں کا دور طوائف الملوکی اور لوٹ مار کا دور تھا ، تاریخ میں اس عہد کو سکھا شاہی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ،کسی کی جان مال محفوظ تھی نہ ہی کسی شریف آدمی کی عزت محفوظ تھی ، اکثر مساجد سے آذانیں بند ہو گئی تھیں ، اس تمام صورتحال کو سید احمد سعید جیسا درد مند مسلمان کس طرح برداشت کر سکتا تھا ؟ سید احمد شہید ایک سچے مسلمان تھے ، نہ تو انہیں دولت کی ہوس تھی ، نہ بادشاہت کا شوق تھا ، ان کا مرنا جینا صرف اسلام کیلئے تھا ۔ سکھوں کے مظالم کے خلاف وہ رد عمل کے طور پر سامنے آئے تھے ، وہ مسلمانوں کا دفاع کرنا چاہتے تھے کہ سکھوں میں انسانیت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی تھی ،جو طاقت کے نشے میں بدمست ہو چکے تھے اور ان کا سب سے بڑا نشانہ مسلمان تھے ۔ سید احمد شہید نے ظلم کے خلاف جہاد کرتے ہوئے اپنی جان دیدی اور تاریخ میں ہمیشہ کیلئے امر ہو گئے ۔ 6 مئی 1831ء ، کفر اسلام کے معرکے میں شہادت پانے والی دوسری جلیل القدر ہستی کا نام شاہ اسماعیل شہید ہے ۔ آپ ولی اللہ دہلی کے پوتے اور شاہ عبدالغنی کے بیٹے تھے ، آپ کی پیدائش 19 اپریل 1779ء میں ہوئی ۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلی نے آپ کی تربیت فرمائی ۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ نے تاریخ ، جغرافیہ کا علم حاصل کیا ، نیز سپاہ گری ، پہلوانی اور تیراکی میں بھی مہارت حاصل کی ۔ آپ بہت بڑے مقرر تھے ۔ اسلام کی سربلندی آپ کا موضوع تھا۔ دہلی کی جامعہ مسجد کی سیڑھیوں پر کھڑے ہو کر آپ وعظ فرماتے ، ان دنوں پنجاب میں سکھوں کی ریشہ دوانیاں بڑھ گئی تھیں ، سکھ مسلمانوں کے خلاف ظلم و ستم میں پیش پیش تھے ۔لاہور کی مسجدوں کو اصطبل بنانے اور معاذ اللہ قرآن مجید کے نسخوں کو آگ لگانے کے واقعات نے آپ کی غیرت ایمانی میں اشتعال پیدا کیا اور مسلمانوں کو سکھ مظالم کے خلاف متحد ہونے کیلئے انہوں نے کام کیا اور سکھوں کے ساتھ معرکے میں سید احمد شہید اور دیگر سینکڑوں مسلمانوں کے ساتھ بالا کوٹ میں شہادت پائی ۔