وزیر اعظم عمران خان کی حکومت قائم ہوئے دو سال ہوگئے ہیں۔ حکومت بننے پر زیادہ تر عوام نے بھنگڑے ڈالے کہ اب نیا پاکستان بنے گا۔ لیکن دو سالوں میں نیا پاکستان تو نہ بن سکا یہ ضرور ہوا کہ سابق حکمرانوں کو نتھ ڈالنے والا کوئی نہ تھا ۔ وہ عمران خان نے اپنے دور حکومت میں نواز شریف اور آصف علی زرداری نے جو ایک دوسرے کے خلاف نورا مقدمات بنا رکھے تھے اُن کی پاداش میں دونوں خاندانوں میں جنہوں نے ملک کی دولت لوٹ کر لندن ، دبئی اور دیگر ممالک میں منی لانڈرنگ کر کے محلات بنائے تھے اُن کو گرفتار کیا گیا اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ لوٹی ہوئی دولت کا ایک پیسہ بھی وصول نہیں کیا گیا جبکہ اس پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود نیب اور دیگر ادارے کچھ حاصل نہیں کرسکے۔ اب جس عوام نے عمران خان کی حکومت آنے پر بھنگڑے ڈالے تھے اُن کے بھنگڑے غم میں تبدیل ہوگئے کیونکہ عمران خان نالائق ٹیم کے ذریعے حکومت چلا رہے ہیں۔ عوام مہنگائی کی چکی میں پِس رہے ہیں اور حکومت بے بس گھوڑے کی طرح بے لگام ہو چکی ہے۔ عمران خان نے جو عوام کے ساتھ وعدے کیے اور 22 سال تک جن اصلاحات کی باتیں کرتے رہے اُن کے برعکس کام ہوئے۔ مافیا کے خلاف باتیں تو انہوں نے بہت کیں ۔ لیکن مافیا ان کے دائیں بائیں بیٹھ کر پلتے رہے۔ دبنگ طریقے سے شوگر مافیا کے خلاف عمران خان کی طرف سے شائع کردہ رپورٹ ان کو بہت بڑا کریڈٹ دے سکتی تھی PIA کراچی کے حادثہ کی رپورٹ شائع کرنا عمران خان کا بڑا کارنامہ ہے لیکن اس سے جو جگ ہنسائی ہوئی پاکستان کے پائلٹوں کو جس طریقے سے ان کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور وزیر ہوا بازی غلام سرور خان شرمندہ ہونے کی بجائے پائلٹوں کے خلاف باتیں کرتے رہے۔ عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل تعلیم، صحت اور دیگر جن معاملات پر اصلاحات کی بات کی تھی وہ ساری تدبیریں اُلٹ ہوگئیں۔ دوہری شہریت کے لوگوں کو لندن، امریکہ اور دیگر ممالک سے بلا بلا کر اپنا وزیر، مشیر بنایا گیا۔ یہ تمام لوگ سوٹ کیس پکڑ کر آئے اور ان کے من میں تھا کہ اٹیچی کیس بھر کر واپس جائیں گے۔ لیکن ان کی آمد کے بعد ملک میں ایک افراتفری کا عالم ہوا ، اپوزیشن کو بار بار عمران خان کے استعفیٰ کا مطالبہ کرنا پڑا لیکن عمران خان نے اپنی ضد نبھاتے ہوئے کوئی بھی اقدام ایسا نہیں کیا جس سے عوام خوش ہو کر ان کو داد دے سکتی۔ عمران خان نے اپوزیشن کو صرف اس لیے کبھی اپنے پاس نہیں بلایا اور نہ خود کبھی اُن کے پاس گئے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں کی ملک کی دولت لوٹنے والی پارٹیاں ہیں اس لیے میں ان سے کسی معاملے پر بھی ہاتھ نہیں ملا سکتا۔ لیکن عمران خان بھولے بادشاہ ہیں خود پاکستان کے آئین اور قانون میں اپوزیشن کا ایک رول ہے جس کے بغیر حکومت چلانا مشکل کام ہے۔ جو بھی قوانین ترامیم کیلئے ہوں یا نئے بنائے گئے ہوں اُن کے لیے حکومت کے پاس 2/3 میجارٹی ہونی چاہیے جو کہ بدقسمتی سے نواز شریف کو تو حاصل رہی ، عمران خان کو نہ مل سکی اور ان کو مانگے تانگے کے لوگ ملا کر اپنی حکومت بنانا پڑی۔ اس لیے عمران خان کو یہ مشکلات درپیش ہیں۔ اُس کا پڑھے لکھے لوگوں کو ادراک ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان جو کچھ اپنے ذہن کے مطابق کر رہے ہیں کیونکہ وہ حکومت میں آنے کے بعد اندر کی تمام کہانیاں خزانے کا خالی ہونا اور جن جن محکموں سے لوٹ مار کر کے بیرون دنیا میں محلات بنائے گئے ان لوگوں کے ساتھ میری نہیں بن سکتی میں آخری حد تک ان کا مقابلہ کروں گا۔ لیکن عمران خان یہ نہیں جانتے ان دونوں حکمرانوں نے بیوروکریسی میں اپنے اپنے شیر پال رکھے ہیں جو عمران خان کو آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے دھکیل رہے ہیں کسی بھی فائل پر دستخط کرانے کے لیے جان جوکھوں سے کام لیا جاتا ہے اور فائل کو آگے بڑھانے کے لیے نوٹوں کا استعمال کسی حد تک اب بھی ہو رہا ہے۔ عمران خان کرپشن ختم کرنے کے لیے آئے تھے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ مہنگائی کا انہوں نے خاتمہ کرنا تھا لیکن مہنگائی نے پنجے گاڑھ لیے۔ آٹا، چینی، گھی، دالیں، چاول، سبزیاں اور دیگر روز مرہ کی اشیاء ضروریات کی قیمتیں کئی سو گنا بڑھ گئی ہیں۔ بجلی اور گیس کے بل عوام کی پہنچ سے باہر ہوچکے ہیں۔ عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنی ٹیم میں تبدیلی کر کے اپنی پارٹی تحریک انصاف کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو شامل کریں اور جو بریف کیس مافیا ہیں اُن سے جان چھڑائیں۔ شوگر مافیا جس کے بارے میں عمران خان نے بار بار اعلان کیا تھا کہ ان میں کوئی نہیں بچے گا ، اِن کو گرفتار کریں اور قوم و ملک کی لوٹی ہوئی پائی پائی وصول کریں اور عوام پر خرچ کریں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق چینی کا ریٹ 70/- روپے فی کلو کے حساب سے ہر خاص و عام کو مہیا کریں۔ عمران خان پنجاب کو اپنا صوبہ بنانے کے لیے یہاں کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی کو بار بار ملنے کا موقع دیں اور ہر ڈویژن کے ارکان اسمبلی کو ایک وقت پر بلائیں اور ترقیاتی کاموں کے بارے میں باہمی مشاورت سے کام لیں۔ میرے خیال کے مطابق عمران خان اگر عوام میں آجائیں تو لاہور آئیں تو گورنر ہاؤس میں اپنے کارکنوں اور ساتھیوں کو مدعو کیا کریں تاکہ پارٹی کے اندر جو گلے شکوے پائے جاتے ہیں اُن کو دور کیا جاسکے۔ اگر انہوں نے صوبہ پنجاب کو بچانا ہے تو اپنے اتحادیوں جو کہ پنجاب میں مؤثر رول ادا کر رہے ہیں اُن کے ساتھ کُٹی ختم کریں اور مشاورت کرکے صوبہ پنجاب کو بہتر انداز میں چلائیں۔ پھر دیکھتے ہیں کہ شہباز شریف یا بلاول بھٹو زرداری آپ کے خلاف کیا سازش کر سکتے ہیں؟ ہمارا بس مشورہ ہے آگے اس پر عمل کرنا نہ کرنا آپ کی اپنی صوابدید ہے۔