جمہوریت محض انتخابات کا ڈھونگ رچا کر حکومتیں بدلنے کا نہیں بلکہ اجتماعی رویوں میں جمہوری انداز فکر اپنانے کا نام ہے۔رویے عادات و اطوار کا مجموعہ ہوتے ہیں جیسا کہ پنجابی میں مشہور ہے کہ وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نے،بھاویں کٹیے پوریاں پوریاں وو‘۔ اقوام کے اسی چلن کو بھانپتے ہوئے علامہ اقبال نے ا س کا اشارہ’ آئین نوسے ڈرنا ، طرز کہن پے اڑنا ‘کے طور پر کیا ہے۔ جیسا کہ آج ایک صدی بعد بھی ہم الیکشن میں جدید ٹیکنالوجی’ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کو لے کر طرز کہن پے اڑے کھڑے ہیں اور اس پر طویل بحث اور تو تکار ہو رہی ہے جس نے حکومت اورایک ادارے کو اختلاف رائے کے احترام کے بجائے ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا ہے حالانکہ حکومت اور الیکشن کمشن کا بظاہر دعویٰ اور مقصد انتخابی عمل کو شفاف اور غیر متنازعہ بنانا ہے۔ حکومت کی رائے میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے دھاندلی کو روکا جا سکتا ہے، ایسا بھی نہیں ہے کہ حکومت الیکشن کمشن کو ایسا انوکھا طریقہ کار استعمال کرنے کو کہہ رہی ہو جس کی دنیا میں کوئی مثال نہ ملتی ہو، الیکٹرانک ووٹنگ مشین دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر جمہوری ممالک آسٹریلیا‘بلجیم‘ برازیل‘ اسٹونیا‘ فرانس‘ جرمنی ‘ بھارت‘ اٹلی‘ نیمبیا‘ ہالینڈ ‘ ناروے ‘ پیرو‘ سویٹزر لینڈ‘ برطانیہ ‘ وینز ویلا‘ یہاں تک کہ فلپائن میں بھی استعمال ہو رہی ہے۔یہ سچ ہے کہ ای وی ایم کے استعمال کے باوجود بھی امریکہ ایسے ترقی یافتہ ملک میں بھی 2020ء کے انتخابات میں صدر ٹرمپ نے انتخابی شفافیت پر سوال اٹھا دیا تھا۔ای وی ایم کے استعمال پر حکومت اور اپوزیشن کے موقف میں اختلاف تو سمجھ میں آتا ہے مگر حکومت کے ماتحت ادارے کا حکومت کے خلاف پارٹی بن جانا ناقابل فہم ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمشن کی بنیادی آئینی ذمہ داری ہے۔حکومت ہو یا اپوزیشن سیاسی پارٹیاں ہونے ناطے انتخابات میں کامیابی ان کی خواہش ہی نہیں ہوتی بلکہ دنیا بھر میں سیاسی پارٹیاں اقتدار کے حصول کے لئے جائز ناجائز حربے بھی استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔حکومتی ادارے بالخصوص الیکشن کمشن کو انہی ناجائز حربوں کو روکنے کے لئے وسیع اختیارات دیے جاتے ہیں۔پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں الیکشن کمشن بھاری وسائل اور اختیارات ہونے کے باوجود اپنے فرائض کی انجام دہی میں دانستہ یا نادانستہ ناکام رہا ہے۔پاکستان کی تاریخ میں جن ایک انتخابات کو غیر متنازعہ تسلیم کیا جاتا ہے ان کے بعد ملک ہی دولخت ہو گیا تھا۔ الیکشن کمشن کی جانبداری کی ایک مثال جنوری 1965ء میں لوگوں کو فاطمہ جناح کے جلسوں میں جانے سے روکنے کے لئے نو پروجیکشن میٹنگز منعقد کرنے کی حد لگانا ہے۔جن میں صرف ڈیمو کریٹس یا صحافیوں کو شرکت کی اجازت تھی اور عوام پر ان اجلاسوں میں آنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔کیا الیکشن کمشن انتخابات میں ووٹوں کی خریداری، دھونس،دھاندلی روکنے میں اپنی ناکامی سے انکار کر سکتا ہے؟اگر ایسا نہیں تو پھر شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے انتخابی عمل میں اصلاحات سے گریزاں کیوں؟۔اصلاحاتی عمل اور طریقہ کار میں اختلاف ہو سکتا ہے مگر اس اختلاف کے اظہار کا بھی ضابطہ کار طے ہے۔یہ اختلافات اور تحفظات باہمی گفتگو اور اشتراک عمل سے حل ہونا چاہئیں ناکہ عوامی فورمز پر۔ اگر معاملات عوامی عدالت میں ہی طے ہونا ہیں تو پھر کیا حکومتی اراکین کا یہ کہنا درست نہیں؟ اگر الیکشن کمشن نے اپنی سفارشات حکومتی اداروں سے پہلے میڈیا کے ذریعے عوامی عدالت میں ہی لے کر جانا ہے تو پھر ادارے کے اہلکار اصلاحات نہیں سیاسی میدان میں اتریں۔الیکشن کمشن کے الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اعتراضات خود الیکشن کمشن کی کارکردگی پر سوال کھڑا کرتے ہیں، مثال کے طور پر الیکشن کمشن نے ای وی ایم پر جو 37 اعتراضات اٹھائے ہیں ان میں سے ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ای وی ایم ووٹنگ کی کم شرح کو روکنے‘خواتین کی ووٹنگ کے کم ٹرن آئوٹ کے سدباب میں ناکام رہے گی۔ گویا الیکشن کمشن گھرسے ووٹ ڈالنے کے لئے نہ نکلنے والے مرد خواتین کی کمی پوری کرنا بھی اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے؟اعتراض یہ بھی کہ مشین ریاستی اختیار کے غیر قانونی استعمال کو روکنے میں ناکام اور ووٹ خریدنے کے عمل کے سدباب میں ناکام رہے گی ۔اگر سب کچھ مشین نے ہی کرنا ہے تو الیکشن کمشن کس مرض کی دوا ہے؟الیکشن کمشن تو ایسی مشین چاہتا ہے جو انتخابی عمل میں تشدد اور سرکاری وسائل کے ضیاع کو بھی روکے، حالانکہ یہ کام الیکشن کمشن کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا اور قومی ادارے کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ یہ ادارہ ملکی تاریخ میں ایک متنازعہ الیکشن کا انعقاد بھی ممکن نہ کروا سکا۔ بدقسمتی تو یہ بھی ہے کہ الیکشن کمشن کا رویہ تو جو ہے سو ہے حکو،متی ارکان بھی جس جمہوری درخت کی شاخ پر بیٹھے ہیں اسی کی شاخ کو کاٹنے کے درپے ہیں۔تحریک انصاف کے غیر جمہوری طرز عمل پر حیدر علی آتش کا یہ شعر صادق آتا ہے: لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب زبان بگڑی تو بگڑی تھی خبر لیجیے دہن بگڑا تحریک انصاف کے اراکین کا الیکشن کمشن کے حوالے سے رویہ اپوزیشن سے بھی بدتر ہوتا جا رہا ہے۔بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور حکومتی ادارہ انتخابی اصلاحات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کے بجائے اپنی اپنی انا کے دائروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔ جس کا نقصان حکومت اور الیکشن کمشن کی ساکھ کو تو ہو گا ہی۔یہ رویہ جمہوری نظام کے لئے بھی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ الیکشن کمشن اور حکومت کے درمیان تنائو میں حکومت کا رویہ ہٹ دھرمی پر مبنی ہے توالیکشن کمشن بھی اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرتا محسوس ہوتا ہے کیونکہ حکومتی اراکین کی سیاسی وفاداری کی وجہ سے انتخابات میں کامیابی خواہش ہو نا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ ممکن ہے حکومتی پارٹی اس حوالے سے غیر قانونی حربے بھی استعمال کرنے کی بھی متمنی ہو مگر بحیثیت ادارہ یہ الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابی عمل میں شفافیت کو یقینی بنائے۔ دھاندلی کی کوشش اپوزیشن کرے یا حکومت سدباب کے لئے اقدامات الیکشن کمشن کو کرنا ہی ہوتے ہیں اگر حکومت اور الیکشن کمشن عملی اقدامات کے بجائے یونہی چونچیں لڑاتے رہے تو انتخابی عمل اس طرح متنازعہ اور مذاق بنا رہے گا اور ضمیر جعفری کا یہ کہنا سچ ثابت ہو گا: مسلم کو بے شک ایسی مساوات چاہیے عارف ہمیشہ مست مے ذات چاہیے