سب کہتے ہیں کہ عارف نظامی بہت بڑے صحافی تھے ، میں نے بہت قریب رہ کر دیکھا کہ وہ بڑے انسان بھی تھے۔ عارف نظامی صاحب عمر کے اس حصے میں تھے جہاں اختلافِ رائے کو برداشت کرنا آسان نہیں رہتا۔یوں بھی میرے اور ان کے بیچ بہت سی چیزیں مختلف تھیں ۔ سب سے بڑا فرق تو عمر کا تھا۔ہم ایک ایسا شو کرتے تھے جس میں ایک نوجوان صحافی ملک کے تجربہ کار ترین بزرگ صحافی سے بھِڑتا نظر آتا۔ یہ کمبی نیشن ناظرین کے لیے دلچسپی کا باعث بن گیا۔ شو کی پسندیدگی کا یہ نکتہ میرے ہاتھ لگا تو میں نے اسے معمول بنا لیا۔ میں روز پروگرام میں مختلف موضوعات پر نظامی صاحب سے بحث کرنے لگا۔ میرے پاس پروفیشنل دلیل یہ تھی کہ ناظرین کے پاس تصویر کے دونوں رخ پہنچنے چاہییں ۔ عارف نظامی صاحب بھی اس سے متفق ہو گئے کہ پروگرام میں ہلکی پھلکی نوک جھوک لوگ پسند کرتے ہیں ۔ نظامی صاحب اپنے وسیع تجربے کی روشنی میں میرے یارکرز اور باونسرز کو کبھی بلاک کرتے ، کبھی لیفٹ کرتے اور کبھی اپنے تجربے کی روشنی میں اتنا اچھاکھیلتے کہ مجھے اپنی کم علمی کا احساس ہونے لگتااور الٹا کبھی وہ مجھ ہی پہ سوال داغ دیتے۔ نیب ، سیاستدانوں پر بنائے گئے کرپشن کیسز، اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی نوجوان قیادت کی سیاسی حکمت عملی اور نئی حکومت کی معاشی پالیسیاں اکثر ہمارے اختلافات کا موضوع ہوتے ۔ ان موضوعات پر میرے اور نظامی صاحب کے خیالات مختلف ہونے کے باعث پروگرام میں اکثر بحث ہوتی۔ کبھی کبھار جب میں انہیں زچ کر دیتا تو مجھ سے نہ کہتے کہ مجھے برا لگے گا، شو کے پروڈیوسر عاطف مجید سے ہلکا پھلکا شکوہ کرتے کہ اسد صاحب نے زیادتی کی ہے ۔ میری عمراگرچہ اُن کے تجربے سے بھی کم تھی اس کے باوجود مجھے کبھی اسد کہہ کر مخاطب نہ کرتے ،ہمیشہ اسد صاحب کہتے۔ ایک روز یوں ہوا کہ پروگرام میں کسی بات پر بحث ہو گئی۔ میں نے ترکی بہ ترکی دو تین سوال کیے تو غصے میں آ گئے۔لائیو شو میں کہنے لگے یوں تو میں آپ کے ساتھ پروگرام نہیں کر سکتا۔ میں ان کے اس غیر متوقع رد عمل سے ابھی سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ خود ہی بریک انائونس کر دی۔ بریک لیتے ہی مائیک اتار کر کھڑے ہو گئے ،غصے میں کہنے لگے آپ کے ساتھ پروگرام کرنا ممکن نہیں ، آپ اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہیں ، وغیرہ وغیرہ۔ میں وضاحت دینے کی کوشش کرتا رہا مگر نظامی صاحب غصے میں تھے۔ پراگرامنگ ڈیپارٹمنٹ کی انتظامیہ کے متعلقہ لوگ بھاگ کر سٹوڈیو میں داخل ہوئے ۔ نظامی صاحب کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور بڑی مشکل سے پروگرام دوبارہ شروع کرایا ۔ بقیہ پروگرام کے دوران میں سوچتارہا اب شاید نظامی صاحب کے ساتھ پروگرام کرنا ممکن نہ رہے لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب شو کے بعد مجھے ہاتھ پکڑ کر ایک کونے میں لے گئے اور دوران پروگرام غصے کا اظہار کرنے پر معذرت کرنے لگے ۔کہنے لگے میں نے آپ کے ساتھ سختی سے بات کی میں معذرت چاہتا ہوں۔ مجھے یہ سن کر بڑی شرمندگی ہوئی ، میں نے کہا سر اس کی ضرورت نہیں شاید میں نے ہی ایسے سوالات کر کے آپ کو اس پوزیشن میں دھکیلا۔ اس کے بعد جب تک میں نے ان کے ساتھ پروگرام کیا اس تلخی کا کبھی انہوں نے ذکر نہ کیا۔ عارف نظامی صاحب بڑے ظرف کے آدمی تھی۔ ایسے رکھ رکھائو والے لوگ ہمارے میڈیا میں بہت کم ہوتے ہیں۔ سینئرز کو ہمیشہ زعم ہوتا ہے کہ وہ سینئرز ہیں۔ صحیح اور غلط کا تعین کیے بغیر ہمارے اکثر بڑے صرف سینئر ہونے کو صحیح ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں ۔ لیکن نظامی صاحب ایسے نہ تھے۔ وہ سب کے خیالات تحمل سے سنتے ، سب سے مشورہ لیتے اور پھر اپنی رائے کا اظہار کرتے۔پروگرام میں موضوعات کا انتخاب ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے ۔ بعض اوقات مجھ میں اور نظامی صاحب میں اس بات پر اختلاف ہو جاتا لیکن ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے ویٹو کیا ہو کہ بس کہہ دیا تو کہہ دیا۔ دلائل سے مجھے قائل کر لیتے یا خود قائل ہو جاتے۔ پروگرام میں میرے تجویز کردہ موضوعات کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے جتنی اپنے موضوعات کو۔ پروگرام میں بیٹھتے تو میرے اور اپنے سبھی موضوعات پر ایک جیسی دلچسپی سے بات کرتے۔ ہم جب بھی نظامی صاحب کی محفل میں بیٹھتے تو ہمیں لگتا جیسے نظامی صاحب ہم عمر دوستوں میں بیٹھے ہیں۔ماضی کے واقعات بڑی دلچسپی سے سناتے اور بڑے شوق سے جونئیرز کی معلومات میں اضافہ کرتے۔ کبھی کبھار شو کے دوران میں کسی مہمان سے الجھ پڑتا تو نظامی صاحب فورا مہمان کی سائیڈ لینے لگتے،مجھے کبھی کبھی عجیب لگتالیکن وہ کہتے کہ مہمان کے ساتھ الجھنا آداب کے منافی ہے ۔ میرے ٹیڑھے سوال پر نصیحت کرتے کہ ہمارا مقصد دوسرے کا موقف لینا ہوتا ہے ، اسے ہرانا یا اس کی بے عزتی کر کے گھر بھیجنا نہیں۔ حالانکہ یہ بات اینکرنگ کے رائج اور مقبول طریقوں کے منافی تھی لیکن ان کی شخصیت میں موجود رکھ رکھائو اور لحاظ انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہ دیتا تھا۔ دو ڈھائی سال کے مختصر عرصے میں نظامی صاحب سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ سیاسی اور صحافتی شخصیات کے ساتھ ان کے روابط شاندار تھے۔تمام سیاسی جماعتوں میں ان کے بہترین دوست موجود تھے۔ سبھی ان کی ایک جیسی عزت کرتے تھے۔ خبریں ہر وقت ان کے پاس بے شمار ہوتیں ،اکثر ہم سے بھی شئیر کر لیتے۔ نظامی صاحب سے میں نے سیکھا کونسی سے خبر دینی ہے اور کونسی مناسب وقت تک کے لیے روک لینی ہے ۔صحافت کے طالب علموں کو ان سے سیکھنا چاہیے کہ بائونس ہو جانے کے خوف سے بے نیاز ہو کر بڑی بڑی خبریں کس حوصلے سے جاری کی جاتی ہیں ۔ نظامی صاحب صحافتی اقدار کے امین تھے ۔ ان کی صحافت اور طرز صحافت پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن ان کی شخصیت کے بھی کئی ایسے پہلو تھے جن پر روشنی ڈال کر صحافتی اقدار کو زندہ رکھا جا سکتاہے ۔ طرز صحافت کے بدلتے کلچر میں عارف نظامی صاحب جیسی شخصیت کا اتباع مزید کچھ عرصہ صحافت کو ڈوبنے سے بچا سکتا ہے ۔