اپنا مسکن مری آنکھوں میں بنانے والے خواب ہو جاتے ہیں اس شہر میں آنے والے ان کے ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں دیکھا جاتا کتنے روشن ہیں چراغوں کو جلانے والے لکھنے تو بیٹھ گیا ہوں پر دل بڑا مغموم ہے کہ ایک اداسی نے شہر لاہور کو گھیر لیا ہے مگر مینار پاکستان اور اس کے آس پاس کی فضا یارسول ؐ اللہ کے ورد سے گونج رہی ہے۔ کیا کروں ہمت نہیں پڑتی کہ عاشق رسولؐ کے جنازے میں جگہ پا سکوں کہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا ایک سمندر ہے ۔یہ محبت کیا شے ہے اور اللہ لوگوں کے دلوں میں کیسے ڈالتا ہے۔ یہ یعنی ہم جیسے دنیا دار شاید اس راز کو نہیں پا سکتے ،ہائے ہائے قبر میں چراغ رکھا جا سکتا ہے۔ یہ سب دیوانے جو بابا خادم حسین رضوی کا جنازہ پڑھنے آئے ہیں یقینا خوش قسمت ہیں۔ میرا کالم تو اس مرد قلندر پرجسے اقبال کا شاہیں کہا جا سکتا ہے‘ چھپ چکا ہے جس پر دوست کومنٹ بھی کر رہے ہیں مگر عزیزی عزیز محمد طاہر نے مجھے یاد دلایا کہ دس سال قبل جب میں ان کی گزارش پر مجلس علماء نظامیہ رضویہ کے بانی مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی کی یاد میں مفتی اعظم سیمینار میں گیا تھا تو وہاں محترم علامہ خادم حسین رضوی بھی موجود تھے اور خطاب کیا تھا عزیزی نے مجھے یاد دلایا کہ تب بھی میں نے اپنی گفتگو میں علامہ صاحب کی اقبال شناسی پر حیرت کا اظہار کیا تھا اور تحسین کی تھی ۔اب مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ کئی برس کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں۔ اقبال ان کے اندر سرایت کر گیا تھا۔ ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اقبال سے مکالمہ بھی کرتے تھے ان کے والہانہ اظہار سے بھی ظاہر ہوتا ہے مجھے تو کشف پر یقین ہے وہ جذبوں کا طوفان اٹھائے ہوئے تھے ان کے جنازے پہ آنے والے دیوانے اس کی دلیل ہیں: یہ سمندر بھی تو پانی کے سوا کچھ بھی نہیں اس کے سینے سے اگر لہر اٹھا لی جائے اقبال ہوتے تو وہ اس عاشق رسولؐ پر کوئی اقبالی رائے دیتے کہ جس طرح غازی علم دین شہید پر انہوں نے کہا تھا کہ ترکھان کا بیٹا ہم پر بازی لے گیا۔ اقبال دیکھئے کہ ان کا نور بصیرت علامہ خادم حسین رضوی نے لوگوں میں کیسے داخل کیا۔ ایک تحرک اور طوفان۔ زندگی سے بھر پور موجودگی اوریا مقبول جان صاحب نے اپنے کالم میں خوب تجزیہ کیا ہے کہ وہ نام نہاد لبرلز کے لئے جیسے موت کا پیغام تھے۔ یہ لوگ اتنے کھرے سچ سے گھبراتے تھے: اے سعد محمدؐ سے لازم ہے محبت یوں ہر شخص کہے تجھ کو دیوانہ ہے دیوانہ مرتے تو سب ہی ہیں مگر مر کر زندہ تھوڑے ہی ہوتے ہیں۔ صرف جنازہ ہی عاشق رسول کا نہیں اس کو کاندھا دینے والے اتنے ہیں کہ ہزاروں کی باری ہی نہیں آئی۔ شاید اتنا بڑا جنازہ کم ہی کم دیکھا گیا ہو۔ ہمارے اشک تری عاقبت سنوار چلے۔ اس محبت رسول نے اسے قدم قدم یادگار بنا دیا۔ بات یہ ہے کہ آخر وہ خادم کس کا تھا جس کی کائنات میں لوح و قلم بھی ہے ان کی تو آرزوئیں پوری ہو گئیں کہ گستاخانہ خاکوں پر ان کا غصہ دیدنی تھا کہ بے بسی آڑی آ رہی تھی کہ جیسے یہ سب کچھ سننے کے بعد وہ زندہ رہنے پر خوش نہیں تھے اور ان کے اظہار سے لگتا تھا کہ ان کے اعصاب شل ہو جائیں گے۔ دماغ پھٹ جائے گا یا دل بند ہو جائے گا وہ امام حنبل کا حوالہ دیتے تھے کہ آقاؐ کی توہین پر تو پوری قوم کو مرجانا چاہیے۔ یہ بے حس لوگ صرف زبانی کلامی مذمتیں کرتے پھرتے ہیں غیر مسلم اور اہل مغرب دیکھ رہے ہوں گے کہ نبیؐ آخرالزماں تو ان کی سوچ سے بہت اونچے ہیں ان کا ایک خادم رخصت ہوا تو اس کی تعظیم میں لاکھوں لوگ جمع ہو گئے آسمان بھی تکتا ہو گا اور یارسولؐ اللہ کی گونج فلک چیر گئی ہو گی۔ میرے معزز قارئین مجھے آغاز اس موضوع سے کرنا تھا مگر قلم مجھے کھینچ لے گیا اور یہ کالم بھی علامہ خادم حسین رضوی کے بیان کی سعادت حاصل کرنے پر تل گیا وہ اقبال کے اس مصرع کی تفسیر لگتے تھے کہ، مجھے ہے حکم اذاں لاالہ الااللہ یہ نغمہ فصل گل و لالہ کا نہیں پابند بہار ہو کہ خزاں لاالہ الااللہ کبھی کبھی ایسے لگتا ہے کہ جیسے علامہ صاحب کہتے تھے: ہم رہروان شوق تھے منزل کوئی نہ تھی منزل بنے ہیں نقش ہمارے دھرے ہوئے واقعتاً ان کی منزل جدوجہد اور جہاد تھی جو وہ آقاؐ کی حرمت پر پہرہ دے رہے تھے ان کو یہ عظیم رستہ ہی منزل تھا ،منزلیں تو پیچھے رہ جاتی ہیں: منزلیں ان کا مقدر کہ طلب ہو جن کو ہے طلب لوگ تو منزل سے گزر جاتے ہیں اب اصل مسئلہ تو ان کا پیغام ہے کہ وہ اپنے عہد کے لوگوں سے کیا کہتے تھے۔ آپ ان کا خطاب سنیں کہ وہ کس طرح اپنے عہد کے نعت خوانوں اور مولویوں پر برق بن کر گرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ یہ رنگ برنگے ریشمی کپڑے پہن کر جہازوں پر بیٹھ کر محفلیں سجانے پر بخشش نہیں ہو گی ۔آقاﷺ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں عملی طور پر دین کی سربلندی کے لئے آگے بڑھیں ان کا اپنا ہی انداز تھا ۔کہہ رہے تھے کہ یہ کیا ہوا کہ مدینے جاواں تے واپس نہ آواں۔ کیا مطلب اس کا واپس کیوں نہیں آئو۔ آ کر اس معاشرے سے محبت کرو۔ ان کا مقصد حضورؐ کی سیرت کو اپنائو ۔ دین کو دنیا سمیٹنے کے لئے استعمال نہ کرو۔ ان کی بات دلیل سے ہوتی تھی۔ کہنے لگے ک نعت کو ہم اہل سنت مانتے ہیں، مقصد کہنے کا یہ ہے کہ کوئی عملی طور پر کام کرو۔ لوگوں کی جیبیں خالی کراکے نعت پڑھتے ہوئے نعت پڑھتے وقت کہو کہ میں حاضری لگانے آیا تھا۔ وہ بے باکانہ کہتے کہ آئو حضور کے لئے پتھر کھائو۔ اتنی سچی کھری باتیں اب کون کہا کرے گا۔ کوئی جرأت بھی نہیں کرے گا۔ یہ انہی کا حوصلہ تھا حضورؐ پر مرنے کی بات نہ کرو۔ حیات میں حضورؐ پر مر جائو تو بات ہے ۔بڑی باتیں ہیں جو ان کے حوالے میں لکھتا چلا جائوں تو ختم نہ ہوں۔ پتہ نہیں میر کیوں یاد آ رہا ہے کہ اس کا شہر میں علامہ خادم رضوی کے حوالے سے کیوں لکھنا چاہتا ہوں: پڑھتے پھریں گے میرؔ انہی ریختوںکو لوگ مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں