وزیر اعظم عمران خان سے امید اور توقعات کی انتہا یہ ہے کہ ٹیکساس کی امریکی جیل میں چھیاسی برس کی بھیانک سزا کاٹتی نحیف و نزار کچی‘ بکھری ریزہ ریزہ عافیہ صدیقی نے بھی عمران خان کو ان کا وعدہ یاد دلایا ہے کہ ان کی رہائی کے لیے کچھ کریں۔ یہ وہ وعدہ ہے جو وزیر اعظم عمران خان جب ایک دبنگ اپوزیشن لیڈر تھے تو اکثر تواتر کے ساتھ دھرایا کرتے اور اس وقت کے حکمرانوں کو غیرت یاد دلاتے کہ جنہیں امریکہ کی طرف سے اٹھنے والی ڈومور کی صدا نے مسمرائزاثر کر دیا تھا وہ اس طرح سے مسمرائزہو چکے تھے کہ دن دیہاڑے وہ پاکستانی نوجوانوں کو گولیاں مار کر ہلاک کرنے والے امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کے لیے ہر طرح کے سفارتی اور قومی حدودو قیود۔ قاعدے اور قوانین یکسر فراموش کر کے اس قاتل کو پاکستانی عدالتوں کے چنگل سے نکال کر امریکی آقائو ںکے سامنے پیش کر کے کورنش بجا لاتے تھے۔ پوری پاکستانی قوم کی غیرت جاگ اٹھی تھی۔ قوم گویا بپھر گئی تھی سو اپوزیشن کی سیاست کرتے سیاستدانوں کے لیے سیاست کرنے کو اس سے اچھا موقع کہاں تھا۔ پھر اپوزیشن کی سیاست کرنے میں کپتان کا کوئی ثانی بھی نہ تھا۔ کنٹینر‘ دھرنے‘ الزامات بلند وبانگ دعوے۔ وعدے۔ قومی غیرت اور ملی حمیت کی حفاظت کے دعوے ۔سو کم نصیب عافیہ کا معاملہ بھی اس زمرے میں آتا۔ مجھے یقین ہے کہ عمران خاں دل سے عافیہ صدیقی اور ان کے خاندان کی اذیت کو محسوس کرتے ہوں گے۔ وہ اپنے ہر انٹرویو میں جب عافیہ کے سوال کا جواب دیتے تو دو ٹوک کیا کرتے تھے کہ ہم حکومت میں آ کر عافیہ کی رہائی کا معاملہ اٹھائیں گے۔ عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی جو عافیہ رہائی موومنٹ کی سربراہ ہیں ان سے تحریک انصاف کے چیئرمین نے کئی ملاقاتیں کیں اور ہر بار ان کو امید دلائی کہ عافیہ کی رہائی کا ایشو ان کے لیے پاکستانی قوم کی غیرت اور حمیت کا معاملہ ہے یہ ایشو پھر ان کے منشور میں بھی شامل تھا۔ عافیہ رہائی موومنٹ کے ترجمان محمد ایوب بھی حالیہ الیکشن کے دوران سب کو یاد دہانی کرواتے تھے کہ تحریک انصاف کو سپورٹ کریں کیونکہ عافیہ کی رہائی اس جماعت کے منشور میں شامل ہے اور انہیں ہمیشہ عمران خان کی طرف سے اس معاملے پر اخلاقی سپورٹ حاصل رہی ہے۔ سو یہ ہے وہ پس منظر ۔امید کی وہ فصل جو گزشتہ کئی سالوں سے تحریک انصاف نے بوئی ‘امید پر دنیا قائم ہے اور عافیہ بھی شاید اسی امید پر زندہ ہے زندگی گزرنے اور محض زندہ ہونے میں بھی بہت فرق ہے۔ امریکہ کی ریاست ٹیکساس میں قید تنہائی کاٹتی ہوئی عافیہ صدیقی۔ بدترین تشدد کا نشانہ بنتی۔ وہ عافیہ تو شاید مر چکی ہو۔جو ایک قابل ’’ذہین‘‘ ہمدردی سائنس دان تھی۔ جو اپنے بچوں کو محبت کرنے والی ماں تھی۔ جس کی زندگی میں خوشیاں تھیں‘ خواب تھے۔ قہقہے تھے۔ مسکراہٹیں تھیں۔ وہ عافیہ صدیقی تو اب کہیں دور رہ گئی ہے۔ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔ ہاں مگر یہ عافیہ صدیقی جو اپنی پرانی تصویر کے خدوخال سے تک نہیں رکھتی۔ کوئی اور نصیبوں جلی ہے۔ امریکی قید خانے کی تنہائی میں۔ ٹوٹے ہوئے عکس تلاش کرتی زندگی کے سارے امکانات سے کوسوں دور۔ سانس‘ سانس‘ دن سے رات اور رات سے دن کے پہاڑ کو کاٹتی ۔اپنی قوم کی بے غیرتی‘بے حسی در غلامی کے چرگے اپنی روح پر سہتی۔ یہ تار تار ہوتی مسلی ہوئی ریزہ ریزہ بکھری ہوئی عافیہ کوئی اور ہی مخلوق ہے۔ اب اس عافیہ کے اس امید بھرے خط کو ذرا پڑھیں۔ اور چند لمحوں کے لیے آنکھیں بند کر کے محسوس کریں عافیہ نے عمران خان کے نام لکھا ہے کہ ’’آپ نے ہمیشہ میری رہائی کے معاملے کو اٹھایا ہے اور اسے سپورٹ کیا ہے۔ آپ ہمیشہ سے میرے ہیرو رہے ہیں۔ میں امریکہ کی غیر قانونی قید میں رہائی کی منتظر ہوں اس خط میں عافیہ صدیقی نے عمران خان کو تنبیہ کی وہ منافقتوں سے دور رہیں۔‘‘ یہ خط 9اکتوبر 2018ء کو امریکہ میں پاکستانی قونصل جنرل عائشہ فاروقی کو دیا گیا ۔دراصل عافیہ صدیقی کو یقینا امریکی قید خانے میںخط لکھنے کی سہولت میسر نہیں۔ انہوں نے عائشہ فاروقی کو ایک زبانی پیغام ملک کے نئے وزیر اعظم کے نام بھیجا۔ اور عافیہ کے الفاظ کو خط کی صورت میں عائشہ فاروقی نے لکھا اور یہ خط 10اکتوبر کو پاکستان کی وزارت خارجہ کو بھجوایا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ایک ماہ تک عافیہ کی طرف سے بھجوائے گئے اس پیغام پر پاکستانی حکومت کی طرف سے ایک پراسرار خاموشی کیوں چھائی رہی؟ اس خط کا تذکرہ میڈیا میں نومبر کے پہلے ہفتے میں ہوا۔ جب عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری سے ملاقات کی اور انہیں انسانیت کے نام پر بطور انسان عافیہ کے انسانی حقوق یاد دلائے پھر نئی نویلی حکومت کو کچھ ہوش آیا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی ایک بیان جاری کیا کہ ہم عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے امریکی حکام سے رابطے میں ہیں اور عافیہ کی 86برس پر مبنی غیر انسانی قید سے اسے ضرور رہائی دلوائیں گے۔اس طرح ایک بار پھر عافیہ صدیقی کا ایشو اب میڈیا میں دوبارہ زندہ ہوا ہے۔ وزیر خارجہ اور انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری کے یقین دہانی کے بیانات نے عافیہ صدیقی کی بوڑھی والدہ اور دو بچوں کو دل میں امید کی ایک جوت جگا دی ہے۔11نومبر بروز اتوار یعنی آج ہی کے دن ڈاکٹر فوزیہ کے گھر پر آیت کریمہ کے ورد کی محفل رکھی گئی ہے۔ اللہ ان دعائوں کو شرف قبولیت عطا کرے اورعافیہ صدیقی کو اس ہولناک آزمائش سے جلد از جلد نکالے۔ نجات کا کوئی راستہ اللہ نکال دے‘ تو حالات کے سدھار کی امید پیدا ہوتی ہے‘ ورنہ زمینی حقائق تو یہ ہیں کہ بلند وبانگ دعوے کرنیوالی تحریک انصاف کی حکومت اپنے ہی کئے ہوئے بیانات کے یوٹرن پر بیٹھیReal Politikکا کھیل کھیل رہی۔ سیاست کی وہ قسم ہے جس میں اعلیٰ اقدار پر مبنی آدریش اور آرزوئیں ۔ پاکستانی سیاست کے زمینی حقائق کے سامنے رفتہ رفتہ دم توڑ جاتی ہیں۔ رئیل پولٹیک میں اخلاقیات کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا‘ اس لیے شہر اقتدار میں داخل ہونے سے پہلے کے خواب‘ امیدیں اور وعدے پورے ہونے کے امکان کم کم ہوتے ہیں اس لیے کہ حاکم شہر کی روایت ہی رہی ہے کہ شہر میں داخل ہونے سے پہلے سچائی‘ دیانت اور اعلیٰ اقدار پر مبنی وعدے اور شہر کے دروازے پر پڑی ڈسٹ بن میں ڈال کر شہر سیاست کے زمینی حقائق کا چوغہ پہن لے اور اقتدار سے لطف اندوز ہوتا رہے!