وسیب کی سرزمین زرخیز ہونے کے ساتھ ساتھ مردم خیز بھی ہے ۔ اس خطے میں اولیاء ، علماء اور بڑے بڑے اسکالر پیدا ہوئے ۔ ان میں ایک نام مولانا پروفیسر محمد عبدالغفور غوثوی کا ہے ، جن کا گزشتہ روز انتقال ہوا ۔ موصوف کا تعلق راجن پور کے علاقے کوٹلہ دیوان سے ہے ۔ سیال برادری سے تعلق رکھتے ہیں ، ان کے بزرگ بہت عرصہ پہلے جھنگ سے کوٹلہ دیوان اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے ، مرحوم اپنی والدہ کے بطن میں تھے کہ والد مہر اللہ بخش سیال کا انتقال ہو گیا ، آپ کی پرورش آپ کے ماموں مہر احمد بخش سیال نے فرمائی ۔ جو کہ حضرت خواجہ غلام فرید کے عقیدت مند تھے ۔ آپ کے ماموں نے آپ کو مولانا نیاز احمد فریدی کے ہاں علی پور کے مدرسہ میں بغرض تعلیم بھیجا ، جہاں انہوں نے قرآن مجید ، درس نظامی اور عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی ، بعد ازاں مولانا عبدالغفور نے مدرسہ انوار العلوم ملتان میں داخل ہو کر حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی ، مولانا عبدالکریم جامپوری ، سید سعادت علی قادری اور سید محمد کاظم القادری سے تعلیم حاصل کی ۔ سند فراغت کے بعد آپ نے اپنے استاد کے حکم پر حضرت علامہ مولانا خورشید احمد فیضی کے مدرسہ ظاہر پیر ضلع رحیم یارخان میں تدریس کے فرائض سر انجام دیئے اور 15 سال وہاں پڑھاتے رہے ۔ مولانا خورشید احمد فیضی کا وسیب میں بہت بڑا نام ہے ، وہ عالم بے بدل ہونے کے ساتھ ساتھ سچے عاشق رسولؐ تھے ، وہ اتنے بڑے خطیب تھے کہ وسیب کے دیگر علماء کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا شاہ احمد نورانی ؒ اور حضرت مولانا سید احمد سعید شاہ کاظمی ؒ بھی آپ کا سرائیکی خطاب محبت سے سنتے۔ ظاہر پیر میں مولانا عبدالغفور غوثوی کے قیام نے ان کی دنیا بدل کر رکھ دی ، انہوں نے اس دوران ایم اے اسلامیات کیا اور گورنمنٹ کالج علی پور میں لیکچرر تعینات ہوئے اور علی پور کو اپنا مسکن بنایا ۔ اس دوران انہوں نے اپنے صاحبزادگان مہر حافظ محمد راشد سیال ، مہر محمد ارشد سیال ، مہر محمد امجد مغیث ، مہر محمد زاہد سیال اور مہر محمد زبیر سیال کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی ، اس کے ساتھ ان کے سینکڑوں شاگرد اعلیٰ عہدوں پر پہنچے اور مختلف مدارس میں دینی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔ موصوف نے اپنی مادر علمی جامع مسجد بہادر خان علی پور میں بھی تعلیمی خدمات سر انجام دیں ۔ اس کے ساتھ وہ خوش قسمت تھے کہ انہوں نے دیار رسولؐ میں بھی سات سال گزارے ۔ موصوف کے علمی کارنامے بہت ہیں۔ مولانا پروفیسر عبدالغفور غوثوی مرحوم کی علمی قابلیت بارے آپ کے شاگرد اور معروف ریسرچ اسکالر غلام جیلانی چاچڑ گلشن ابرار کے صفحہ 55 پر لکھتے ہیں کہ آپ کی جلالتِ علمی اور تدریسی خدمات بے مثال ہیں ۔ ترجمہ نگاری میں منفرد و ممتاز مقام کی بدولت طبقۂ علماء میں صد عزت و عظمت ، منزلت و کرامت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ۔ ولی کامل حضرت حافظ جمال اللہ ملتانی قدس سرہ کے سب سے صغیر اور بلحاظ علم سب سے کبیر ، تلمیذ و مرید ، صاحب تصانیف کثیرہ ، جامع العلوم و الفنون حضرت علامہ مولانا عبدالعزیز پرہاروی ( متوفی ۱۲۳۹ھ ) کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’ نبراس ، شرح ، شرح عقائد ( عربی ) ‘‘ جیسی بے مثال کتاب پہلی بار آپ ہی کے قلم گہر بار سے اردو سانچے میں ڈھل کر منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوئی۔ جبکہ قبل ازیں علم کلام پر مشتمل علامہ پرہاروی کی ایک اور عربی تصنیف ’’ مرام الکلام فی عقائد الاسلام ‘‘ علم بیان و بدیع اور معانی پر مشتمل ’’ نعم الوجیز فی اعجاز القرآن العزیز‘‘ اور عقائد اہل سنت پر مشتمل مختصر مگر جامع ومانع فارسی منظوم تصنیف ’’ ایمان کامل ‘‘ کے اردو تراجم آپ ہی کی محنت شاقہ کا ثمر ہیں ۔ آپ کی وفات پر وسیب کے علمی حلقوں میں سخت صفِ ماتم بچھ گئی ہے ، آپ کے سینکڑوں شاگردوں نے آپ کی وفات کو ’’ موت العالِم موت العالَم ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان جیسے عالم ومدرس روز روز نہیں بلکہ صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں ۔ یہ ٹھیک ہے کہ آپ نے کوٹلہ دیوان راجن پور سے علی پور سکونت اختیار کی مگر وہ کبھی بھی اپنے علاقے کو نہ بھولے، یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ مولانا عبدالغفور غوثوی کے خاندان کی وسیب کے لئے بہت خدمات ہیں ۔ ان کے بھائی مہر حامد علی شاکر سیال بہت اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اچھے ادیب بھی ہیں ، ان کے علمی کام نے کوٹلہ دیوان کو علمی حیثیت دے دی ہے ۔ تاریخ راجن پور مصنف احسان چنگوانی میں درج ہے کہ پروفیسر عبدالغفور غوثوی کے ساتھ ساتھ ان کے بھائی کی بھی بہت خدمات ہیں ۔ پروفیسر عبدالغفور غوثوی نے علمی حوالے سے نثر میں بہت کام کیا جبکہ ان کے بھائی مہر حامد علی شاکر سیال نعت گو شاعر ہیں ، عاشق رسول ؐ ہیں ، عشق رسولؐ کے صدقے اللہ نے ان کو اپنی عنایات سے نوازا ہے۔ اس وقت ان کے اردو نعتیہ مجموعے ’’ مدینے کے والی ‘‘ ، ’’ مہر حامد علی شاکر کا سرائیکی کلام ‘‘ ، ’’ گلدستہ نعت ‘‘ شائع ہو چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ متعدد کتابیں زیر طبع ہیں ، یہ سب کچھ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہوا ہے۔ آپ کے استاد رحیم یارخان سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر مرید حسین قیس فریدی ہیں ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد مہر حامد علی شاکر سیال نے کتابوں کی طباعت و اشاعت کی طرف توجہ دی ہے ۔ اپنے صاحبزادے مہر شکیل احمد شاکر سیال کی درخواست پر اپنے کلام کو اکٹھا کیا ۔ مہر شکیل احمد شاکر نے اس سے پہلے سرائیکی کتب کو عام آدمی تک پہنچانے کیلئے منتخب سرائیکی کلام اور سرائیکی قاعدے جیسے چھوٹے چھوٹے کتابچے شائع کرائے ۔ مختصر یہ عرض کروں کہ اس خاندان کی وسیب کیلئے بہت خدمات ہیں۔ پروفیسر عبدالغفور غوثوی سچے عاشق رسولؐ تھے اور ان کی وفات 27 رجب بمطابق 23 مارچ 2020ء بروز سوموار ہوئی ، 27 رجب 23 مارچ اور پیر کا دن یادگار ہیں اور پروفیسر صاحب بھی اپنی خدمات کے حوالے سے ہمیشہ یاد رہیں گے ۔ایسے لوگ مر کربھی زندہ رہتے ہیں اپنی خوبصورت یادوں کے حوالے سے ، ایسے ہی اشخاص کے لئے بابا بلھے شاہ ؒ نے فرمایا ’’ بلھے شاہ اساں مرنا ناہیں ، گور پیا کوئی ہور ‘‘۔