گزشتہ آٹھ برسوں میں پہلی بار بھارتی و زیراعظم نریندر مودی کی حکومت کو دنیانے غیر ملکی دباؤ کے سامنے بری طرح جھکتے دیکھا۔ حکمران بی جے پی کو ایک لائیو ٹی وی شو میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں توہین آمیز گفتگو کرنے والے اپنے دوترجمانوں کو پارٹی سے نکالنا پڑا۔ جس دن یہ ٹی وی شو چلا تھا اسی دن سے بھارتی مسلمان لیڈر مطالبہ کررہے تھے کہ بھارتی حکومت ان ترجمانوں پر توہین مذہب کا مقدمہ قائم کرے۔وزیراعظم نریند ر مودی کے کانوں پرلیکن جوں تک نہ رینگی۔ قطر نے پہلا پتھر پھینکا اور مطالبہ کیا کہ بھارت توہین رسالت کے مرتکب افراد کے خلاف نہ صرف قانونی کارروائی کرے بلکہ مسلمانوں سے معافی بھی مانگے۔ سعودی عرب، کویت، اومان،اردن، ترکی، پاکستان ، ایران اورملائیشیا نے بھارتی سفارت کاروں کو دفتر خارجہ طلب کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ بھارتی امیدوں پر اس وقت پانی پھرا جب مشرق وسطی میں اس کے حلیف خاص متحدہ عرب امارات کو بھی چپ کا روزہ توڑناپڑا۔ امارتی وزارت خارجہ نے بھی مذمتی بیان جاری کیا۔او آئی سی، رابطہ عالم اسلامی،مصرکی جامعہ الازہر سمیت درجنوں بین الاقوامی مسلمان تنظیموں نے بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلامو فوبیا پر تحفظات کا اظہار کیا۔ کویت سمیت چند ممالک کے کاروباری طبقہ نے رضاکارانہ طور پر بھارتی مصنوعات کی فروخت کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کیا۔ عالم عرب سے اٹھنے والی آوازوں پر بھارت کے ایک مشہور قلمکار نے ٹیویٹر پر طنزیہ لیکن برمحل تبصرہ کیا۔اشوک سوائن کہتے ہیں : اسلامی ممالک کو بیدار ہونے میںآٹھ سال کیوں لگے؟ کیا ان کے لیے صرف نبیﷺ کی اہمیت ہے، مسلمانوں کی نہیں۔ مسلمانوں کو سرعام مارا پیٹاجارہاتھا۔انہیں شہریت سے محروم کیاجارہاتھا۔ مساجد گرائی جارہی تھیں۔ مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوز کیا جا رہا تھا لیکن اسلامی ممالک کے حکمران کسی رد عمل کا اظہار نہیں کررہے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ عرب یا مسلم ممالک کبھی بھی بھارت کی طرف متوجہ نہ ہوتے اگر بی جے پی کے ترجمان توہین رسالت کے مرتکب نہ ہوتے۔بی جے پی کے ترجمانوں کو اندازہ نہیں تھا کہ دنیا بھر کے مسلمان پیغمبر اسلا مﷺ کے ساتھ محبت کے رشتے میں بندھے ہیں ۔ آپﷺ کی شان میں کوئی گستاخی کا ارتکاب کرے اور وہ اس کے ساتھ معمول کے کاروباری اور دوستانہ روابط برقراررکھ سکیں‘ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ انگریزی میں کہتے ہیں کہ ریڈلائن عبور نہ کرنا۔ بی جے پی کے ترجمانوں نے دراصل ریڈ لائن کراس کی جس نے دنیا بھر کے خوابیدہ مسلمان حکمرانوں اور عوام کو جگادیا۔حالیہ برسوں میں توہین رسالت کے دنیا بھر میں بہت لوگ مرتکب ہوئے لیکن عمومی طور پر انہیں ریاستی سرپرستی حاصل تھی نہ وہ کسی سرکاری عہدے یا سیاسی عہدے پر فائز تھے۔ خاص طور پر مغربی ممالک میں پائے جانے والے شا تم رسول کی اکثریت کا عمل ذاتی فعل تصور کیا جاتاتھا، البتہ ان کی حکومتیں ان افراد کے خلاف قانونی کارروائی سے گریزاں تھیں۔اب یہ منظر بھی بدل رہاہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسلامو فوبیا کو عالمی مسئلہ تسلیم کیا ہے۔دنیا کو اس مسئلہ کی سنگینی سے آگاہ کرنے کے لیے ہر سال ایک دن بھی منانے کافیصلہ کیا ہے۔ کہتے ہیں رسی تو جل گئی پر بل نہیں گیا۔عرب ممالک سے اٹھنے والی احتجاجی صداؤں نے نریندر مودی کی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا۔ دونوں ترجمانوں کو پارٹی سے نکال دیاگیا لیکن وزیراعظم نریندر مودی نے اس واقعے پر اظہار افسوس کیا اور نہ ہی ان کے خارجہ امور کے وزیرنے ۔ محض ایک وضاحتی بیان جاری کیاگیاکہ بھارت تمام مذاہب کا احترام کرتاہے۔ البتہ بھارت کے طول وعرض میں یہ بحث زور پکڑ گئی کہ بھارتی حکومت کیونکر عرب ممالک کے دباؤ کے سامنے ڈھیر ہوئی؟رواں برس بھارت نے عرب ممالک جن میں بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، کے ساتھ تقریباً نوے بلین ڈالر کا کاروباری لین دین کیا۔ اس کے نوے لاکھ کے لگ بھگ شہری ان ممالک میں بسلسلہ روزگار یا کاروبار مقیم ہیں۔ متحدہ عرب امارات بھارت کا تیسرا بڑا کاروباری شراکت دار ہے۔ کویت کی حکومت خوراک کا نوے فی صد بھارت سے درآمد کرتی ہے۔حال ہی میں سعودی عرب کے ساتھ بھارت نے اسٹرٹیجک تعلقات استوار کرنے میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ ایران پہلے ہی بھارت کے قریب ترین حلیفوں میں سے ایک ہے۔حکمران بی جے پی کے لیے اتنے بڑے کاروباری اور اسٹرٹیجک مفادات سے دستبردار ہونا ممکن نہ تھا لہٰذا اس نے اپنے ترجمانوں کی چھٹی کرادی لیکن یاد رہے کہ بی جے پی کے سیاسی فلسفہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ بھارت میں اقلیتوں پر جوقیامت گزررہی ہے دنیا اس سے بے خبر نہیں۔ چند دن قبل امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلکن نے کہا کہ بھارت میں اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوںپر ہونے والے حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھارت میں بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کی طرف متعدد بار اشارے دیئے۔ بھارت میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کا یہ عالم ہے کہ لوک سبھا کی 543 نشستوں میں بی جے پی کے پاس 301 نشستیں ہیں لیکن ایک بھی مسلمان رکن پارلیمنٹ کا تعلق بی جے پی سے نہیں ۔ جینوسائیڈ واچ کے بانی پروفیسرGregory H Stanton نے اس سال جنوری میں تیسری مرتبہ دنیا کو متنبہ کیا کہ بھارت تیزی سے مسلمانوں کی نسل کشی کی جانب گامزن ہے۔ آج کی دنیا میں یہ ممکن نہیں رہا کہ کوئی ملک داخلی سطح پرا تنہاپسندی کا رویہ اختیار کرے اور بیرونی دنیا میں اعتدال پسند اور صلح جو مملکت کا مقام حاصل کرے۔داخلی اور خارجہ پالیسی میں پایاجانے والا تضاد اور دوغلا پن اب چلنے والا نہیں۔ بھارتی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں اب پورے اعتماد سے کہاجاتاہے کہ آرایس ایس کے نظریہ کی علمبردار بی جے پی اور اس کی لیڈر شپ نے بھارت کی جمہوری اور سیکولر ملک کی ساکھ کو ملیامیٹ کر دیاہے۔کہتے ہیں کہ بسااوقات شرسے خیر برآمد ہوجاتاہے۔عرصے بعد لبرل اور سیکولر عناصر کو موقع ملا ہے کہ وہ عوام کوبی جے پی کے قتدار کے منفی پہلوؤں سے آگاہ کریں۔انہیں باور کرائیں کہ کیسے بی جے پی والوں نے بھارت کے سافٹ امیج کو خراب کیا۔ امید ہے کہ اس بحث ومباحثے کے نتیجے میں بھارت کے اندر کثیر الجہتی ثقافت پر یقین رکھنے والی سیاسی قوتوں کی طاقت میں اضافہ ہوگا۔