کورونا وایر س نے جہاں دینا میں لاکھوں لوگوں کی جانیں لی ہیں وہیں دنیا کی بہت ساری فلک بوس معیشتوں کو زمین بوس کر دیا ہے۔ اس وائرس کے ذریعہ سب سے پہلے چین کی معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔ پھر اس کے بعد اس نے اٹلی، جرمنی اور اسپین کو اپنے لپیٹ میں لیا ہے پھر اس نے ایرانی عالمی پابندیوں کی وجہ سے پریشان تھا لیکن کورونا وائرس کے قہر نے اسکی معیشت کی کمر توڑ دی ہے۔ پھر بھی ایران بہت زیادہ پر امید ہے۔ اس نے امریکی امداد بھی ٹھکرادی۔ ایران نے کورونا سے نبردآزما ہونے کیلئے ایک دوا بھی ایجاد کرلی ہے لیکن اب مستقبل ہی اس دواکی کامیابی کے معیار کوطے کر پائے گا کہ یہ دوا کتنی موثر ہے۔طبی ماہرین کے مطابق ابتدا میں کسی بھی وائرس کاکوئیی معقول علاج موجود نہیں ہوتا۔ لہٰذا احتیاطی تدبیر ہی اس کا بہترین علاج ہے۔ اور اس کا مناسب احتیاط گھروں میں مقید ہونا ہے۔ جو ممالک اپنے عوام کو گھروں میں قید کرنے اور کورونا کے مریضوں کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے کسی حد تک اس معاملے پر قابو پالیا لیکن وہ ابھی بھی اس سے باہر نہیں نکل پائے ہیں۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے تقریباً دو سال کا عرصہ چاہیے۔کسی بھی ملک کی معیشت میںپیداوار کی مقداراورکھپت بہت ہی کلیدی رول ادا کرتا ہے۔ عوام کو قرنطینہ کرنے کی صورت میں دونوں چیزیں متاثر ہوتی ہیں جو معاشی بحران کا باعث بنتی ہیں لیکن اس صورتحال میں پیداوار اور کھپت کے علاوہ ملک میں ملازمتوں کی شرح بھی کم ہو جاتی ہے اور یہ چیز بھی ملکی معیشت کے لیے ایک خطرناک عمل ہے۔ اسکے علاوہ اگر ملازمت کی شرح ملک میں گھٹتی ہے تو لوگوں کی آمدنی متاثر ہونے لگتی ہے۔ عالمی عداد وشمار کے مطابق دنیا میں ملازمت کرنے والے لوگ زیادہ ہیں اور اس میں بھی یومیہ کام کرنے والوں کی تعداد بہت ہی زیادہ ہے۔ لہٰذا لاک ڈائون کی صورت میںان لوگوں کے پاس نہ کوئی کام ہوگا اور نہ ہی کوئی سرمایہ‘ جس سے اپنے کھانے و پینے کا کوئیی معقول انتظام کرسکیں۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ یہ سارے لوگ بیماری سے یا افلاس سے مر جائینگے۔ اگر حکومت ایسے لوگوں کو بچانا چاہتی ہے تو اسے اپنے خزانے کوعوام کے لیے کھولنا پڑے گا جیسے امریکہ، کینڈا، اسپین، جرمنی اور برطانیہ نے اپنے عوام کے لیے کھول رکھاہے۔ امریکہ نے کورونا وائرس سے متا ثر لوگوں کے دو کھرب ڈالر کی رقم کو مختص کیا ہے۔اسکے علاوہ دوائوں پر بے انتہا خرچ ملکی معیشت کے پرخچے اکھاڑ دیگی۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار نیچے گر جائے گی۔ آمدنی کے ذرائع ختم ہوجائینگے۔ لوگوں کی قوت خرید ناقص ہوجاے گی۔ کرنسی کا معیار گر جائے گا۔درآمد اور برآمد کم ہو کر زیرو ہو جائے گی۔ آخر میں ملک بہت بڑے معاشی بحران کا شکار ہوجائے گا۔دنیا میں بہت سارے ملک سیاحت کے لیے جانے جاتے ہیں۔ انکی ذریعہ آمدنی سیرو تفریح کے کاربار سے وابستہ ہے۔ اس وائرس کی وجہ سے تقریباً ایک ارب لوگوں نے اپنا سیاحتی سفر ملتوی کردیا ہے۔ اسکی وجہ سے اٹلی، جرمنی، اسپین،فرانس،ترکی،یوکے، امریکہ، کینیڈا اور متعدد یورپی ممالک کو سیکڑوں ارب روپے کا نقصان ہو ا ہے۔ٹورزم انڈسٹری کے تبا ہ ہونے سے ہوٹل انڈسٹری کو بے انتہا نقصان ہوا ہے۔ ایک تخمینہ کے مطابق ہندوستان کے ہوٹل انڈسٹری کو تقریبا ساڑھے چھ سوکروڑ کا نقصان ہوچکا ہے۔ یہ اعداد و شمار چارہفتہ پہلے کا ہے۔ نقصان کا سلسلہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ عالمی پیمانہ پر ہوٹل انڈسٹری کو ہزاروں ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے اور تقریبا چالیس لاکھ ملازمتیں ختم ہوچکی ہیں۔اسکے علاوہ فضائی آمدورفت کی کمپنیوں کو بھی کھربوں ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ۔لاک ڈاون اور وائرس کے خوف کی وجہ سے عالمی پیداوار شدید متاثر ہوئی ہے اور اس کی وجہ سے عالمی خام تیل کی قیمتوں میںبے انتہا کمی ہو گئی ہے۔ گزستہ بیس سالوں میں اس طرح سے خام تیل کی قیمت میں اتنی کمی نہیں دیکھی گئی۔ تیل نکالنے والے ملکوں کا شیرازہ بکھر گیا ہے اور کوئی بھی تیل پیدا کرنے والا ملک تیل کی رسد کو کم کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ حال ہی میں سعودی عرب نے روس کو کم تیل نکالنے کا مشورہ دیا تھا لیکن روس نے سعودی عرب کے مشورے کو مسترد کردیا۔ حسب معمول خام تیل کی فراہمی جاری تھی۔ لیکن امریکن صدر ٹرمپ کے کہنے پر سعودی اور روس نے خام تیل کے اخراج کو کم کردیا تھا۔ ایک تخمینہ کے مطابق تقریبا یومیہ دس ملین بیرل تیل کی سپلائی میں کمی کی گئی تھی۔ اس عمل کی وجہ سے خا م تیل کی قیمت میں کچھ ٹھہرائو آیا تھا اور اس سے تیل کے پیداوار کرنے والے ملکوں میں تھوڑی سی امید کی لہر جاگی تھی کہ اچانک پھر سے خام تیل کی قیمت میں گراوٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک جاری رہا تو عرب ممالک کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی۔ کیونکہ عرب ممالک کی معیشت خام تیل کی پیداوار پر ہی منحصر ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے سعودی عرب نے اس سال حج کے پروگرام کو بھی موقوف کردیا ہے۔ یہ بھی سعودی عربیہ کی آمدنی کا ایک مضبوط ذریعہ تھا جو کورونا وائرس کی وجہ سے بند ہوگیا ہے۔ عرب ممالک میں 56 فیصد کام کرنے والا عملہ غیر ملکی ہے۔ وہ اس بحران سے بغیر متاثر ہوئے نہیں رہ سکتے ہیں۔ اس بحران کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کواپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑسکتا ہے اور اسکے اثرات کا ظہوردنیا کے مختلف ممالک میں ہوگا۔ ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور نیپال کافی زیادہ متاثر ہوسکتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی تناظر میں معاشی نقل وحمل کافی حد تک متاثر ہو ا ہے۔بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے۔ اسی بیروزگاری کی وجہ سے لوگوں کی آمدنی کم ہو جائے گی۔ ہندوستان کی آبادی ایک اعشاریہ تین ارب ہے، جس میں تقریبا پچاس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔ اس پچاس فیصد میں بھی یومیہ کام کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ بقیہ پچاس فیصد میں کافی مالدار، مالدار اور متوسط طبقے کے لوگ ہیں۔ اس بحران میں متوسط طبقہ بالخصوص جو درمیانی یا چھوٹے پیداوار میں مصروف ہیں‘ کافی متاثر ہونگے۔ بے روزگاری کی شرح آسمان کو چھونے لگے گی۔ اس سے ملک کی معیشت کا ایک اہم حصہ بہت ہی زیادہ متاثر ہوگا۔ سروس سیکٹر بالخصوص کال سینٹر انڈسٹری بند ہوجائے گی۔ اچانک لاک ڈاون کی وجہ سے بہت سارے معاہدے ختم ہوگئے ہیں اور مستقبل میں ختم ہوجائیں گے۔ (بشکریہ: روزنامہ انقلاب‘ بھارت )