ہر برس سات اپریل کو صحت کا عالمی دن کسی نہ کسی موضوع کے تحت منایا جاتا ہے تاکہ دنیا کی توجہ اس موضوع کی طرف مبذول ہوسکے۔میں نے گزشتہ پانچ سال کے موضوعات ک جائزہ لیا کہ دیکھیں عالمی ادارہ صحت نے ہر سال دنیا کی توجہ صحت کے کن اصولوں کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کی ہے۔ جو نتیجہ میرے سامنے آیا وہ نہایت مایوس کن ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کا مقصد دنیا والوں کی صحت کو بہتر بنانا نہیں بلکہ اس کا کوئی اور ایجنڈا ہے جس پر عالمی ادارہ صحت کام کر رہا ہے۔نام سے تو یہی لگتا ہے کہ ڈبلیو ایچ یعنی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن دنیا کی صحت کے معاملات کو بہتر بنانے کے لئے کام کرتی ہے اور ہر سال اس دن کو ایک موضوع سے منسوب کرکے اس موضوع کو پوری دنیا کے میڈیا میں فوکس کیا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن موضوعات کااحاطہ کیا جا رہا ہے ان کا عام انسان کی صحت سے رتی بھر لینا دینا نہیں۔پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارا کھیل تماشہ آخر کیوں؟2020 میں جب کرونا وائرس نے پوری دنیا پر اپنے پنجے گاڑے تو اس برس 7 اپریل کو صحت کا عالمی دن جس موضوع کے تحت بنایا گیا وہ موضوع تھا a year of nurse and midwife۔اس موضوع کا تعلق کہیں سے بھی وباسے پیدا ہونے والے حالات سے نہیں بنتا۔ اب اس سال 2021 کی بات کرتے ہیں ہیں۔ کوروناوبا کے تسلسل کو دوسرا سال ہے تو ڈبلیو ایچ او صحت کا عالمی دن منانے کے لیے جس موضوع کا انتخاب کرتی ہے ہے وہ کچھ یوں ہے building a healthier and fairier world اندازہ لگائیں کہ ان دو سالوں میں جب کہ پوری دنیا ایک وبا سے نمٹنے میں مصروف ہے تو عالمی ادارہ صحت کس طرح کے موضوعات کو فوکس کر رہا ہے ،جس سے دنیا کو صحت کے حوالے سے کوئی واضح پیغام نہیں ملتا۔کوئی ایسی رہنمائی نہیں ملتی جس لوگ اپنی صحت کا قبلہ درست کرسکیں ، کوئی ایسی بات لوگوں کو سمجھ نہیں آتی جس پر عمل کرکے لوگ اپنے مدافعتی نظام کو مضبوط بنا سکیں۔ یہ دنیا کا ایک اہم عالمی فورم ہے یہاں سے لوگوں کو صبح کی سیر اور ہلکی پھلکی جسمانی ورزش کیمیکلز سے پاک خالص کھانوں کی طرف راغب کیا جاسکتا تھا۔انہیں سوڈا ڈرنکس کے نقصانات سے آگاہی دی جا سکتی تھی۔ اب اس سے پہلے کے سالوں کا جائزہ لیتے ہیں۔سال 2019اور 2018 میں میں صحت کا عالمی دن اس موضوع کے تحت منایا گیاuniversal health coverage2017 میں صحت کاعالمی موضوع ڈیپریشن کے موضوع کے تحت منایا جبکہ دو ہزار سولہ میں صحت کا عالمی دن کا موضوع ذیابطیس تھا۔اعداد وشمار کے مطابق دنیا کا ہر دسواں بندہ ذیابیطس کا شکار ہے۔ڈبلیو ایچ او ذیابیطس کا دن مناتے ہوئے اگر صرف اس پر فوکس کرتا کہ سفید آٹے کو اپنی غذا سے نکال کر فائبر ہر اور ریشے سے بھرپور خالص گندم اپنی غذا میں شامل کریں تو یقین جانیے دنیا بھر میں ذیابیطس کے مریضوں کو صرف اس ایک غذائی عادت اختیار کرنے سے بہت فائدہ ہوتا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو لوگوں کی صحت بہتر بنانے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے یہ ادارہ صحت کی بجائے بیماریاں پھیلانے پر توجہ دے رہا ہے اگر ڈبلیو ایچ او کے پروگراموں اور پالیسیوں میں دنیا کی صحت کو بہتر بنانے کا کوئی ایجنڈا شامل ہوتا تو ہر سال سات اپریل کو صحت کے عالمی دن کے موضوعات اس طرح کے مبہم بے معنی اور فضول نہ ہوتے جن کاحاصل حصول صفر جمع صفر جواب صفر کے مترادف ہے ۔ فرض کریں اگر مجھے اختیار ہو کہ صحت کے عالمی دن کے حوالے سے ایسے موضوعات کا انتخاب کروں جس کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے تو میں سب سے پہلے صحت کا عالمی دن اس موضوع کے تحت مناوں گی say no to white flour۔پانچ برس تک اسی موضوع کو فوکس رکھو ں گی ۔دنیا کے کئی لوگوں کو احساس ہو جائے کہ صرف سفید آٹے کو اپنی زندگیوں سے نکال کے وہ اپنی صحت کے قبلہ کو درست کر سکتے ہیں یقین جانیں کہ اگر دنیا بھر میں سفید آٹے پر پابندی لگا دی جائے 80 فیصد بیماریوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔ لیکن ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو کبھی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس موضوع پر صحت کا عالمی دن منائے اور دنیا کی توجہ اس طرف مبذول کرائے کہ یہ جو لاکھوں لوگ شوگر بلڈ پریشر جگر اور معدے کی بیماریوں میں مبتلا ہوئے ہیں اگر یہ صرف اپنے کھانے پینے میں سفیدآٹے کو ختم کر کے اس کی جگہ خالص گندم کے آٹے کو استعمال کریں جو اور چنے کے آٹے کا استعمال کریں تو یہ زندگی کی 80 فیصد بیماریوں سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہوجائیں گے آٹے کو پروسس ہونے کے عمل میں میں تمام اچھے غذائی اجزائسے محروم کر دیا جاتا ہے اور اسکے بعد بچ رہنے والا سفید آٹا acidic ہو جاتا ہے اس طرح کے آٹے سے بننے والا برگر پیزا شوارما اور روٹیاں جسم میں جاکر ذیابیطس بلڈ پریشر فیٹی لیور کے ساتھ کئی قسم کی معدے کی بیماریاں پیدا کر تی ہیں۔یہ موضوع گھمبیر اور توجہ طلب ہے اس موضوع پر لکھتے رہیں گے کہ کیسے عالمی اداروں کے بڑے بڑے ناموں کے ساتھ کام کرنے والی تنظیمیں انسانوں کی فلاح و بہبود اور بھلائی کی بجائے اپنے مخصوص ایجنڈوں پر عمل پیرا ہیں۔ کیایہ ستم ظریفی نہیں ہے کہ صحت کے لیے کام کرنے والے عالمی ادارہ صحت کو صحت اور تندرستی کی حفاظت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ایسا کیوں چاہے گی کہ لوگ صحت مند رہیں اگر دنیا صحت مند ہو گی تو ڈبلیو ایچ او کا کاروبار کیسے چلے گا ؟