تین روز سے جاری اسرائیلی فائرنگ و بمباری سے شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 29ہو گئی ہے۔ جھگڑا بیت المقدس کے ایک محلے سے متعدد فلسطینی خاندانوں کی بے دخلی سے شروع ہوا۔ اسرائیلی پولیس نے ان خاندانوں کو نکال کر ان کے گھر آبادکار یہودیوں کو دیدیے۔اس واقعہ سے فلسطینی مسلمان اشتعال میں ہیں ۔اسرائیلی پولیس نے احتجاج کرنے والے بچوں، عورتوں اور مردوں پر تشدد کیا ۔تین روز قبل بیت المقدس میں رہنے والے فلسطینی روزہ افطار کے بعد مسجد اقصیٰ میں عبادت میں مصروف تھے کہ اسرائیلی پولیس نے دھاوا بول دیا۔ نہتے فلسطینیوں پر ربڑ کی گولیاں برسائیں جس سے ڈھائی سو کے قریب لوگ زخمی ہوئے۔ پاکستان‘ایران اور ترکی نے اسرائیلی بربریت کی مذمت کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔برطانیہ‘ترکی اور اردن میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہوئے ہیں۔وزیر اعظم عمران خان نے وزیر خارجہ شاہ محمود کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس معاملے پر ترکی اور سعودی عرب سے بات کریں تاکہ مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے۔ فلسطینیوں پر حملے کا جواز پیش کرتے ہوئے اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطینی عسکریت پسندوں نے اسرائیل کے متعدد علاقوں پر راکٹ حملے کئے جن کے جواب میں کارروائی کی گئی۔ اسرائیل کی حمایت میں اندھا ہو جانے والے امریکہ نے افسوسناک بیان جاری کیا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر مسلم ممالک میں انسانی حقوق اور آزادی اظہار رائے پر تنقید کرنے والے مغربی ممالک بھی خاموش ہیں۔یہ مجرمانہ خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ درپردہ وہ اسرائیلی مظالم کا حصہ ہیں اور ان کی سرپرستی نے اسرائیل کو بے خوف کر دیا ہے۔ جہاں تک امریکہ کی ڈھٹائی کا معاملہ ہے تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ یہ لڑائی فلسطینیوں نے نہیں بلکہ اسرائیل پولیس نے شروع کی۔دوسری بات یہ کہ فلسطینی مسلمان ہتھیار اٹھا کر میدان جنگ میں نہیں نکلے تھے بلکہ وہ پرامن انداز میں مسجد اقصیٰ میں مصروف عبادت تھے کہ اسرائیلی پولیس نے ان پر حملہ کر دیا۔ امریکہ نے اسرائیل کے جرم کا دفاع کرتے ہوئے جو دلیل حق دفاع کے طور پر پیش کی ہے اس کی حقیقت سے دنیا واقف ہے۔ یہ امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کی دوہری و منافقانہ پالیسی ہے کہ وہ اسرائیل کی مسلح افواج کو فلسطینیوں کے خلاف دفاع کا حق دیتے ہیں لیکن جب امریکہ اور اس کے اتحادی لاکھوں فوجیوں کے ساتھ افغانستان پر قابض ہو جاتے ہیں تو افغانوں کو اپنے دفاع کا حق نہیں دیا جاتا‘یہ ریاستی دہشت گردیکی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ اسی طح تہتر برس سے کشمیر کے باشندے اپنا حق آزادی طلب کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ اس تنازع کو دبائے بیٹھا ہے۔ دنیا کو تنازعات سے پاک کرنے پر مامور ادارہ کشمیر اور فلسطین کے تنازعات حل کرنے میں بے بس نظر آتا ہے۔ حق دفاع اسے حاصل ہوتا ہے جو قانونی طور پر کسی چیز کا مالک ہو۔اسرائیلی حکام فلسطینیوں کی املاک پر قبضہ کر کے ان صیہونیوں کے حوالے کر رہے ہیں جو روس‘ آسٹریا‘ امریکہ اور دوسرے ملکوں سے نقل مکانی کر کے اسرائیل آئے ہیں۔ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے عالمی برادری سے اسرائیل کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل کی ہے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ 57مسلم ریاستوں کی یہ تنظیم خود کچھ کرنے کی بجائے اس عالمی برادری سے اسرائیل کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہی ہے جو اسرائیل کی حامی و سرپرست ہے۔ او آئی سی کے سرکردہ ممالک کی حالت تو یہ ہے کہ وہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات استوار کر رہے ہیں۔یہی نہیں بہت سے ممالک پاکستان پر دبائو ڈال کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کہتے ہیں۔پاکستان نے اپنی معاشی احتیاج اور کمزوریوں کے باوجود آج تک مسلم امہ کے مفاد کا سودا نہیں کیا۔ افغانستان ،کشمیر اور فلسطین کے معاملات میں پاکستان نے اصولی موقف اپنایا اور مقامی آبادی کے حق آزادی کا احترام کرنے کی بات کی۔ فلسطین اور کشمیر کے تنازعات کا اگر افغان تنازع کے مقابل جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ افغانوں نے چونکہ کلی طور پر مسلح مزاحمت کا راستہ اپنایا اس لئے لاکھوں جانیں دینے کے بعد وہ آخر کار اپنی آزادی کو بحال کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں‘اس کے برعکس فلسطینیوں اور کشمیریوں کو مذاکرات اور سیاسی راستہ اپنانے کا کہا گیا۔دونوں نے مسلح مزاحمت کی جگہ پرامن جدوجہد کو عالمی برادری کی خوشنودی کی خاطر اختیار کیا اور پون صدی گزرنے کے باوجود آزاد نہ ہو سکے۔یہ پرامن طریقے سے تنازعات کا حل تلاش کرنے کے لئے قائم ادارے اقوام متحدہ کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ اقوام متحدہ چند مخصوص طاقتوں کا آلہ کار ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔مسلم ممالک‘ پسماندہ ریاستوں اور طاقتوروں کے جبر کی شکار اقوام کو یو این او سے انصاف نہیں مل سکا۔ او آئی سی کے غیر فعال کردار کی وجہ سے کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم عمران خان نے ترک صدر طیب اردوان اور ملائشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد کے ساتھ مل کر ایک فعال بلاک کی تشکیل پر تبادلہ خیال کیا جسے کچھ دوست ممالک کی سخت مخالفت کے باعث ترک کرنا پڑا۔او آئی سی مسلم دنیا کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہے۔اقوام متحدہ کی طرح او آئی سی میں بھی اصلاحات کی ضرورت ہے۔فلسطینی باشندوں کا خون بہانے پر اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کے تحت کارروائی نہ ہوئی تو عالمی اداروں کی شکل میں وضع کیا گیا نظام انصاف محض ڈھکوسلا ثابت ہو گا اور دنیا میں تشدد عام ہو سکتا ہے۔