اسلام آباد(سپیشل رپورٹر؍ مانیٹرنگ ڈیسک)وزیر اعظم نے کہا ہے کہ کرونا کے معاملے پر افراتفری پیدا کرنے کی ضرورت نہیں، کرونا وائرس ایک قسم کا فلو ہے ۔انہوں نے کہا ایران سے پاکستانی زائرین بلوچستان پہنچے جہاں سہولیات کی فراہمی مشکل تھی، بلوچستان حکومت اور پاک فوج کو داد دیتا ہوں جنہوں نے وہاں پر معاملے کو کور کیا،پوری دنیا میں جوممالک متاثر ہوئے ، انہوں نے ملک میں لاک ڈائون کردیا مگر پاکستان کے وہ حالات نہیں جوامریکہ اوریورپ کے ہیں۔ کرونا وائرس کی صورتحال پر قوم سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ شہر بند کرتے تو صورتحال اور خراب ہوتی، لوگ بھوک سے مرجاتے ،اگر بیماری پھیلی تووینٹی لیٹرزدرکارہوں گے ،این ڈی ایم اے کوکام سونپ دیا ہے ،وائرس پھیلے گا،لیکن اس سے نمٹنے کے اقدامات کرنے ہیں، خدشہ ہے چینی کی طرح پھرذخیرہ اندوزی کی جا سکتی ہے ،ذخیرہ اندوزوں کوخبردارکرتاہوں عوام کی تکلیف سے فائدہ اٹھانے کی کوشش پرکارروائی ہوگی۔انہوں نے کہا ہمیں نظر آرہا ہے کہ برآمدات پر کروناوائرس کا اثر آئے گا،اس صورتحال میں آئی ایم ایف کو ہمیں ریلیف دینا پڑے گا۔انہوں نے کہا کرونا کیخلاف جنگ حکومت اکیلے نہیں لڑ سکتی، قوم سے مل کر یہ جنگ جیتیں گے ۔انہوں نے کہا ہمارا یقین ہے کہ زندگی ، موت اللہ کے ہاتھ میں ہے ،گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اسلام آباد( نیٹ نیوز؍ نیوز ایجنسیاں) وزیراعظم عمران خان نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ کرونا وائرس ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو تباہ کرسکتا ہے ،کرونا زیادہ پھیلا تو نمٹنے کی صلاحیت ہے نہ وسائل، عالمی برادری کرونا وائرس سے لڑتے پاکستان جیسے غریب ممالک جو بہت کمزور ہیں، ان کے لئے کچھ قرضے معاف کرنے پر غور کرے ۔امریکی خبررساں ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا مجھے غربت اور بھوک پر تشویش ہے ،قرضوں کی کمی سے کم از کم ہمیں کرونا وائرس پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔عمران خان نے کہا پاکستان کی معیشت کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں، اگرکرونا کی صورتحال سنگین ہوئی توکمزور معیشت کو بچانے میں ناکام ہوجائیں گے ، پاکستان کی برآمدات متاثر ہوں گی اور بیروزگاری میں اضافہ ہوگا، آئی ایم کا قرضہ پاکستان کے لئے ناممکن معاشی بوجھ بن جائے گا۔انہوں نے کہا کرونا وائرس سے پاکستان، بھارت اور افریقی ممالک کو یکساں بحران کا سامنا ہوگا، پاکستان کے پاس کسی بڑے بحران سے نمٹنے کے لئے علاج کی سہولیات ہیں نہ وسائل۔اپنے انٹرویو میں انہوں نے افغانستان میں قیام امن کے لئے امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے پر بھی بات کی۔وزیراعظم نے افغان صدر کے بیان کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا کہ جب سے میں نے منصب سنبھالا ، امریکہ کے ساتھ مل کر افغان امن معاہدے کے لئے سخت محنت کررہا تھا۔انہوں نے کہا کچھ بھی ہے ، پاکستان نے جس طرح امن عمل کو آگے بڑھانے میں مدد کی ،اسے سراہا جانا چاہئے ۔علاوہ ازیں وزیراعظم نے مشرق وسطیٰ میں وبا کے مرکز ایران پر سے پابندیاں ہٹانے کا بھی مطالبہ کیا۔وزیر اعظم نے کہا ایران ’کلاسک مثال‘ ہے ، جہاں وبا کی روک تھام کے لئے اقتصادی افرا تفری اور سیاسی رسہ کشی سے زیادہ انسانی ہمدردی کی ضرورت ہے ۔وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے باعث بھارت میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت، مسلمانوں کے خلاف ظلم و تشدد پر تشویش کا اظہار کیا۔