دنیاکوجُل دینے کے لئے مغربی ممالک کے سفیروں کوسری نگرکادورہ کرایاگیا۔جمعرات 9جنوری 2020ء کوہندوستانی ائیرفورس کی ایک خصوصی پروازکے ذریعے غیرملکی سفارتکاروں کے17رکنی وفد کوسری نگر پہنچا یاگیا۔ وفد میں جنوبی امریکہ، افریقہ اور بعض خلیجی ممالک کے سفارتکار شامل تھے۔ان سفارتکاروں کے وفد کو سری نگر میں قابض ہندوستانی فوج کی پندرہویں کور کے ہیڈ کوارٹر سری نگرمیں ٹھرایاگیاجہاں انکی فوجی قیادت کے ساتھ ملاقات کرائی گئی۔ مقبوضہ کشمیرکے عوام غیرملکی سفراء کے اس دورے سے مطلق لاتعلق رہے کیونکہ یہ وفد عام لوگوں سے ملنے کے بجائے ہندوستان کے تعینات کردہ گورنراوراسکی انتظامیہ کے ساتھ ساتھ صرف فوجی عہدے داروں سے ہی مصروف ملاقات رہا اوراسے اس امرکے ساتھ کوئی غرض نہ تھاکہ فوجی ہیڈکوارٹرکے باہرکی وادی کشمیرکے90لاکھ مسلمان عوام قیدمیں ہیں ، اظہار رائے کی آزادی پر قدغن عائدہے، رسل ورسائل ،انٹرنیٹ اور فون رابطے معطل ہیں۔یعنی کشمیر کی پوری آبادی محصور، ٹیلی رابطے مفلوج، راستے مسدودہیں ۔ایسے میں سخت ترین سکیورٹی حصار میں آنے والے ان غیرملکی سفارتکار وں سے کونسی امیدوابستہ کی جاسکتی تھی ۔اس صورتحال کے پیش نظراہل کشمیرنے غیرملکی سفراء کے دورہ سری نگرکومستردکردیایوں مودی کاناپاک منصوبہ صریحاً ناکام ہوگیا۔ واضح رہے کہ اسے قبل29اکتوبرکو28یورپی ایم پی ایز کو سری نگر لایاگیا اور انہیں فوجی حصارمیں جھیل ڈل کی سیرکرواکے واپس بھیج دیا۔مودی نے اپنے زرخرید میڈیاکے ذریعے اس بات کاشورڈالالوجی دنیاوالو! تمہاری ڈیمانڈ ہم نے پوری کردی اور مغربی سیاستدانوں کے ایک وفدکوہم نے کشمیرکادورہ کرایا۔لیکن اس وقت بھی مودی کاناپاک منصوبہ ناکام ہوگیااورپوری دنیانے سلیکٹیڈ اور چنیدہ یورپی ایم پی ایز کے دورہ سری نگرکومستردکردیا۔ پہلے ہی کی طرح آج بھی ان سفیروں کوسری نگرمیں قابض بھارتی فوج کے 15کورکے ہیڈکورٹر میں دویوم تک طعام وقیام سے لطف اندوزکرایاگیا۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ وفد کے دورے کا پورا پروگرام پہلے سے طے شدہ تھا اوروہ یہ کہ انہیں محاصرے میں تڑپتے کشمیری عوام اوران کے بلکتے بچوں اوراہل خانہ سے نہیں ملناتھا،کشمیرکی تحریکی سیاسی لیڈرشپ سے ملاقات نہیں کرنی تھی،اسپتالوں کادورہ نہیں کرناتھااوروہاں پڑے پیلٹ گن کے شکارزخمیوں کو نہیں دیکھناتھا، سری نگرکی تاجر انجمنوں اور ٹریڈ یونینوں سے نہیں ملنا تھا، یونیورسٹیزاوراعلی دانشگاہوں کادورہ نہیں کرناتھا۔بس انہیں سرینگر کے فوجی ہیڈکوارٹرسے ’’یہاں سب ٹھیک ہے‘‘کی داستان سن کرکے واپس چلاجاناتھا ۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کشمیرمیں کچھ بھی ٹھیک نہیں۔ جموں و کشمیرکے غیور عوام حق خود ارادیت کے حصول کے لئے جانی و مالی قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔جب تک بھارت جموں وکشمیر کے لوگوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا نہیں کرتا تب تک جدوجہد جاری رہے گی جب تک یو این قرار دادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر حل نہیں کیا جاتا۔ جموں و کشمیرکے غیور اور بہادر عوام جانوں کے نذرانے پیش کرتے رہیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ تنازعہ کشمیر کے پیدا ہونے کے بنیادی اسباب انگلستان کے انگریز کی بد دیانتی کاشاخسانہ اورہندوستانی حکمرانوں کی ہوس ملک گیری ہیں۔ 72برس کاطویل عرصہ ہواکہ ہندوستان کی ضد اور ہٹ دھرمی اس مسئلے کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے بلکہ اب ہندوستان آزاد کشمیر کو بھی چھیننے پر بڑھکیں مار رہا ہے ۔مودی برصغیرکی تاریخ سے نابلد ہیں ورنہ انہیں اس امرکاعلم ہوتا کہ تنازعہ کشمیرپرعالمی فورموںکے دستخط کرنے والی ہندوستان کی بانی لیڈرشپ ہے یہ ہندوستان کے نہایت قدآور لیڈر پنڈت جواہر لال نہروہی تھے کہ جنہوں نے اقوام متحدہ کادروازہ کھٹکایااورانہی کی درخواست پرسب سے بڑے عالمی فورم کی طرف کشمیریوں کو رائے شماری کے ذریعے سے اپنا مستقبل طے کرنے کا موقع فراہمی کی گارنٹی دی گئی ۔ آج تک اگرچہ اقوام متحدہ اس ضمن میں اپنی ذمہ داری نبھانہ سکا لیکن اس کے باوجود دنیاکا ہر باضمیرشخص اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو ہی کشمیر کی تنازعے کا واحد قابل عمل حل قرار دیتے ہوئے کہتاہے کہ اس عالمی ادارے کی ذمہ داری ہے کہ کشمیریوںکو کا لازمی حق خود ارادیت دلائے۔ مودی کوتاریخ پڑھ لینی چاہئے ۔17جولائی 1947ء کو جب برطانوی ہائوس آف لارڈز نے آزادی ہند کا قانون منظور کیاتو جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے متفقہ طور پر الحاق پاکستان کی قرار داد منظور کر لی تھی۔برطانوی حکومت نے تقسیم ہند کا جو فارمولہ طے کیا تھااس کی رو سے جموں و کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا تھامگر انگریزوں اور ہندوئوں کی باہمی سازش کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔ مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد آزادی چار نسلوں سے جاری ہے ۔گزشتہ 30برس کے دوران کشمیر میں کم از کم تین مرتبہ ہمہ گیر عوامی تحریک برپا ہوئی جسے دبانے کے لیے وسیع پیمانے کا کریک ڈائون کیا گیا۔ایک لاکھ سے زائدکشمیری مسلمان شہید اورہزاروں دیگر زخمی ہو گئے، جبکہ ہزاروں ہندوستانی عقوبت خانوںجیلوں میں ہیں۔تازہ پیدا شدہ صورتحال میں5اگست 2019ء سے آج جنوری 2020ء تک چھٹواں مہینہ چل رہاہے کہ کشمیر ی مسلمان ایک دوسرے کا حال چال پوچھنے سے قاصر ہیں۔واضح رہے30 سال میں پہلی مرتبہ کشمیر میں لینڈ لائن، وائرلیس فونز اور انٹرنیٹ سہولت معطل ہے۔ اگرچہ دفعہ 144نافذ ہے، لیکن سڑکوں پر کرفیو سے بھی بدترین حالات ہیں۔