کابل سے عالمی سیاست میں اٹھنے والا طوفان ابھی تھما نہیں کہ امریکہ نے یورپ پر بھی بجلی گرادی ہے ۔ بدھ کے روز اس نے برطانیہ اور آسٹریلیا کے ساتھ مل ایشیا پیسفک میں ' آکس ' کے نام سے ایک نیا فوجی اتحاد تشکیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ ان ممالک کی قیادت نے چین کا نام نہیں لیا تاہم سمجھا یہی جارہا ہے کہ انگلش بولنے والی جمہوریتوں کا اتحاد ، امریکہ کی اس ابھرتی ایشیائی طاقت کا گھیرائو کرنے کی طویل المدتی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جو بات البتہ واضح ہے وہ یہ ہے کہ نہ صرف یورپی یونین کو اس’’ کار خیر‘‘ میں شامل نہیں کیا گیا بلکہ آسٹریلیا نے فرانس کے ساتھ روائتی سب میرین کی فراہمی کا معاہدہ بھی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے کیونکہ نئے سٹریٹجک حالات میں اتحادی اسے نیوکلیئر سب میرین فراہم کریں گے جو ایک وسیع علاقے کی نگرانی کو مکمن بنا سکتی ہیں۔ فرانس نے اس پیش رفت کو اسکی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے امریکہ اور آسٹریلیا سے اپنے سفیر بلا لیے ہیں۔ سب میرین معاہدے کے خاتمے سے مالی مفادات کو پہنچنے والا نقصان اپنی جگہ ، فرانس کا اس خطے میں نظر انداز کیا جاناجس میں اس کی برطانیہ کے ہانگ کانگ سے دستبردار ہونے کے بعد سب سے زیادہ کالونیاں ہیں ، اس کے لیے یقینی طور پر تکلیف دہ ہے۔ یہ فرانسیسی صدر ہی تھے جنہوں نے جو بائیڈن کی ٹرانس اٹلانٹک الائنس کو مضبوط کرنے کے بیان پر ٹرمپ کے ہاتھوں نالاں یورپ کو بتایا تھا کہ امریکہ واپس آگیا ہے۔ ا مریکہ کی نئی ایشیا پیسفک حکمت عملی کے سامنے آنے سے فرانس اور یورپ کا لمحہ امید ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ دوسری طرف ،شنگھائی تعاون تنظیم نے اپنے مستقل ممبران کی فہرست میں ایران کا اضافہ کیا ہے۔ یہ فیصلہ تاجکستان میں ہونے والی اس علاقائی تنظیم کی اکیسیوں سربراہی اجلاس میں سامنے آیا ہے۔ چین اور روس کی مشترکہ قیادت میں قائم اس تنظیم کے پاکستان ، بھارت اور وسط ایشیا کی ریاستیں ممبر ہیں۔ نائن الیون کے واقعے سے چند مہینے پہلے ہی شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام عمل میں آیا تھا اور افغانستان میں قائم طالبان حکومت سے خطے کے امن کو خطرات لاحق سے نمٹنا اس کا مطمع نظر تھا۔ پچھلے بیس سال میں اس علاقائی تنظیم نے جہاں اپنے وجود کو وسعت دی اور اپنی صف میں پاکستان اور بھارت کو شامل کیا ، وہیں پر یہ امریکہ سے افغانستان سے انخلا اور وسط ایشیا ئی ممالک سے فوجی اڈے خالی کرنے کا بھی مطالبہ کرتی رہی ہے۔ اب اس کا دیرینہ مطالبہ تسلیم ہوگیا ہے اور امریکہ افغانستان سے اپنا بوریا بستر لپیٹ گیا ہے ، اسے شکایت ہے کہ بے ہنگم انخلا افغانوں کو بھوک اور بیماری کے حوالے کردے گا۔ یوں جمعرات کو ہونے والے سربراہی اجلاس میں ایک تو امریکہ اور اس کے حلیف ممالک پرافغانستان کو تنہا نہ چھوڑنے پر زور دیا گیا ہے ، دوسری طرف ایران کو ممبر شپ دے کر اس بات کو یقینی بنا دیا گیا ہے کہ افغانستان کے تمام ہمسایہ ممالک ایک صفحے پر آجائیں تاکہ اس ملک میں امن اور ترقی کی پائدار بنیاد ڈالی جاسکے۔ افغانستان ، پچھلے بیس سال سے بیرونی امداد کے سہارے چلتا رہا ہے ، لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے انخلا اور طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد نہ صرف انسانی ہمدردی کی بنیا د پرملنے والی امداد بند ہوچکی ہے بلکہ امریکہ نے افغانستان کے دس ارب ڈالر کے لگ بھگ اثاثے بھی منجمد کردیے ہیں۔ پچھلے سوموار کو ہونے والی اقوام متحدہ کی طرف سے منعقد کی جانیوالی ڈونرز کانفرنس میں امریکہ اور یورپی ممالک نے افغانستان کی انسانی بنیادوں پر ایک ارب بیس لاکھ ڈالر کا عطیہ دینے کا اعلان کیا تھا جسے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے قابل اطمینان پیش رفت قرار دیا تھا لیکن یہ امداد کس طرح خرچ ہوگی ، اس بات کا فیصلہ ہونا باقی ہے کیونکہ ایک تو اقوام متحدہ نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا دوسرے ستائیس رکنی یورپی یونین نے طالبان حکومت کے ساتھ تعاون کے لیے کڑی شرائط کا اعلان کر رکھا ہے جس میں وسیع البنیاد حکومت کا قیام اور غیر ملکیوں اور انکے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کے انخلا ،بنیادی انسانی حقوق کی پاسداری اور افغان سرزمین پر دہشت گرد تنظیموں کا قلع قمع شامل ہے۔ افغانستان کو درپیش گونا گوں مسائل کے حل ، جس میں جنگ سے بے گھر ہونے والے پنتیس لاکھ افغانوں کی بحالی اور گذشتہ کئی سال سے جاری خشک سالی کی وجہ سے پیدا ہونے والا غذائی بحران سر فہرست ہیں، ابذمہ داری علاقائی طاقتوں کندھوں پر آن پڑی ہے۔ ایران کے شنگھائی تعاون تنظیم کے ممبر بننے کے ساتھ جغرافیائی طور پر افغانستان اب اس نظیم سے وابستہ ممالک میںگر گیا ہے۔ جس سے ایک توخطے میں مزید کسی بیرونی جارحیت کا راستہ بند ہوگیا ہے ، دوسرے طالبان حکومت پر بھی واضح ہوگیا ہے کہ اچھی ہمسائیگی کی سیاست ہی افغانستان کی بقا کی ضمانت ہے۔ سی پیک جیسے منصوبے کی موجودگی میں، جس کا پاکستان حصہ ہے اور ایران کی شمولیت بھی یقینی ہے، افغانستان اپنی مرکزی جغرافیائی حیثیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تجارتی راہداری کے طور پر اپنی حیثیت منوا سکتا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے تاجک دارالحکومت دوشنبے میں ہونے والے سالانہ سربراہی اجلاس میں، وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھی شرکت کی ہے، اس امر پر اتفاق ہوا ہے کہ طالبان کو اپنی حکومت تسلیم کرانے کے لیے اپنی کابینہ کو توسیع دے کر اس میں اقلیتی نسلی گروہوں کو نمائندگی دینا پڑے گی۔ یہی مطالبہ یورپی یونین اور امریکہ کا بھی ہے۔ اس حوالے سے وزیر اعظم عمران خان کی تاجک صدر سے ہونے والی ملاقات کا ذکر اہم ہے جس میں اس امر پر اتفاق ہوا ہے کہ طالبان اور شمالی اتحاد کے پنجشیر وادی پرتنازعہ کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔ اگر کابل کے نئے حکمران وسیع البنیاد حکومت کے قیام ، انسان حقوق کی پاسداری اور دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے شنگھائی تعاون تنظیم کا اعتماد جیتنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تو روس اور چین افغانستان کے دیگر سفارتی مسائل کا حل بھی نکال لیں گے۔