عالمی عدالت انصاف نے پاکستان سے گرفتار ہونے والے بھارتی دہشت گرد کمانڈر کلبھوشن یادیو کی بریت اور فوجی عدالت سے سزا ختم کرنے کے لئے بھارتی درخواست مسترد کر دی جبکہ کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی دینے سے متعلق بھارتی درخواست منظور کر لی ہے۔ عالمی عدالت انصاف میں تعینات پاکستانی ایڈہاک جج جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ ویانا کنونشن جاسوسوں اور دہشت گردوں پر لاگو نہیں ہوتا۔ پاکستانی حساس اداروں نے 3مارچ 2016ء کو بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا تھا۔ کلبھوشن یادیوجاسوسی کے علاوہ کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی اور قتل و غارت کی کئی وارداتوں میں ملوث تھا۔ جس کا دوران تفتیش ملزم نے اعتراف بھی کیا ہے۔ ملزم کے بیانات اورشواہد کی بنا پر پاکستانی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔10اپریل 2017ء کو عدالت نے اسے سزائے موت سنائی، جس کے بعد بھارت اس معاملے کو عالمی عدالت انصاف لے کر چلاگیا۔جہاں 18 مئی 2017ء کو عالمی عدالت انصاف نے پاکستان کو کلبھوشن یادیو کی سزائے موت پر عملدرآمد سے روک دیا۔ اس دوران پاکستان نے انسانیت کے ناتے ملزم کے اہل خانہ سے اس کی ملاقات بھی کرائی۔ پاکستان بھارتی قیدیوں کے ساتھ بھی عام قیدیوں جیسا برتائو کرتاہے جبکہ بھارت میں پاکستانی قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک روا رکھا جاتا ہے، وہ پاکستانی قیدیوں کو اذیتیں دے کر ادھ موا کر دیتا ہے ،کوئی قیدی ذہنی توازن کھو بیٹھتا ہے تو کوئی عمر بھر چلنے پھرنے سے معذور ہو جاتا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے حالیہ فیصلے نے اس بات پر مہر ثبت کر دی ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی‘ قتل و غارت اور افراتفری پھیلانے میں ملوث ہے۔ جس کے باعث جنوبی ایشیا کے امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ کراچی کے امن کیساتھ بھارتی ایجنسیاں ایک عرصے سے کھیل رہی ہیں، جس کا کلبھوشن یادیو نے بھی اعتراف کیا ہے جبکہ بلوچستان کی علیحدگی پسند تحریکوں کو بھی بھارتی حمایت حاصل ہے۔ عالمی عدالت کے فیصلے کے باوجود اقوام متحدہ اور عالمی برادری کا بھارتی جارحیت کی مذمت نہ کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ بھارت بڑی گرمجوشی سے کلبھوشن یادیو کیس عالمی عدالت انصاف لے کر گیا تھا۔ وہ اس زعم میں مبتلا تھا کہ ماضی کی طرح پاکستان اس بار بھی عالمی عدالت انصاف میں تیاری کے ساتھ کیس پیش نہیں کر سکے گا۔ دوسری طرف عالمی سطح پر سزائے موت کا قانون موجود نہیں ہے۔ اس لئے جاسوس کلبھوشن کو کچھ ریلیف مل جائے گا لیکن پاکستان نے مقدمہ اس انداز میں پیش کیا کہ بھارت انسانی ہمدردی کی بنا پر کوئی ریلیف لے سکا نہ ہی ویانا کنونشن کے پیچھے چھپ کر عالمی عدالت انصاف کو گمراہ کر سکا۔ لیکن اس کے باوجود بھارتی میڈیا اور حکومت اپنے عوام کے سامنے جھوٹ بول رہے ہیں کہ ہم کیس جیت گئے ہیں۔ حالانکہ عدالت نے کلبھوشن کی سزائے موت کالعدم قرار دی نہ ہی ملزم کی بھارت حوالگی کو تسلیم کیا ہے۔ جہاں تک قونصلر تک رسائی کی بات ہے تو پاکستان پہلے ہی اس کی فیملی کی ملاقات کرا چکا ہے۔ اب قونصلر رسائی بھی دے دیگا۔ درحقیقت پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ کشیدگی کے باعث عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ بڑا اہم تھا۔ نہ صرف پاکستان اور بھارت بلکہ پوری دنیا میں اس فیصلے کو سنا گیا۔ اس فیصلے سے دنیا پر یہ واضح ہوا ہے کہ بھارت اس خطے میں امن کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد یہ بات بھی ثابت ہو گئی ہے کہ ایران کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہوتی رہی ہے۔ برادر اسلامی ملک کے طور پر ایران کو بھی اس کا خیال کرنا چاہیے اور اپنی سرزمین سے پاکستان دشمن عناصر کا صفایا کرنا چاہیے۔ عالمی عدالت انصاف کے اس فیصلے سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ پاکستان بھارت کے خلاف اگر درست معلومات اور پوری تیاری سے مقدمہ لڑے تو اسے کامیابی مل سکتی ہے کیونکہ بھارتی موقف ہمیشہ جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے باوجود کشن گنگا پراجیکٹ کیس ہم ہارے ۔بدقسمتی سے ہم بین الاقوامی فورم پر بھارت کے خلاف ثبوت ہی پیش نہیں کر سکے، جس کی بنیادی وجہ پاکستانی ٹیم کی کیس سے عدم دلچسپی تھی۔ ریکوڈک کیس بھی دلجمعی سے نہیں لڑا گیا۔ جس بنا پر 6ارب ڈالر کے لگ بھگ جرمانہ ہوا ہے۔ اگر ہماری حکومت ریکوڈک کیس میں دلچسپی لیتی تو اس کیس کے بہت سارے حل موجود تھے۔عدالت کے باہرکمپنی سے معاملات طے کیے جا سکتے تھے لیکن سابقہ اور موجودہ کسی بھی حکومت نے اس کیس کو سنجیدہ نہیں لیا ۔اور یوں ہمیں 6ارب ڈالر آئی ایم ایف سے قرض لی جانے والی رقم کے برابر جرمانہ ہو گیا ۔ مستقبل میں ایران گیس پائپ لائن کا کیس بھی عالمی عدالت میں جائے گا جس کی ایران دھمکی بھی دے چکا ہے۔یہ معاہدہ آصف علی زرداری کے دور صدارت میں ہوا تھا۔گو اس کیس میں ہمارے پاس ٹھوس دلائل ہیں لیکن بات وہی ہے کہ حکومت اگر اخلاص سے کیس کی پیروی کرے تو کامیابی مل سکتی ہے۔ بدقسمتی سے ماضی کے حکمرانوں نے ایران اور چین کے ساتھ منصوبوں کے معاہدے جرمانے کے ساتھ کر رکھے تھے۔ شریف اور زرداری فیملی نہ صرف خود خزانے پر ہاتھ صاف کرتی رہی بلکہ دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی ایسے معاہدے کئے کہ پوری قوم کو ہی گروی رکھ دیا گیا۔ میاں شہباز شریف نے میٹرو ٹرین کے معاہدے میں پراجیکٹ میں تاخیر کی صورت میں 6کروڑ 76لاکھ روپے یومیہ جرمانے کی شرط شامل کی ۔ اگر ہم ماضی کی طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہے تو ریکوڈک کی طرح ان دونوں منصوبوں میں بھی جرمانے عائد ہو سکتے ہیں۔ اس لئے حکومت کو ا بھی سے ان معاہدوں میں جرمانے کی شرط بارے کوئی حل نکالنا چاہیے۔ اگر حکومت پوری تیاری کرے تو انشاء اللہ کلبھوشن کیس کی طرح ہم دیگر کیسز میں بھی سرخرو ہو سکتے ہیں۔