مختلف جانب سے مندرجہ ذیل بیانات اور اقدامات بہت اہم ہیں اور انہیں ہلکے انداز میں نہیں لیا جانا چاہیے۔ 1۔ اقوام متحدہ کی سرکاری ویب سائٹ پر یہ بیان کہ ہم وادی کشمیر کی صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے متعلق اقوام متحدہ کا موقف اس کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق ہے۔ (یعنی رائے شماری)۔ 2۔روس نے شملہ معاہدے اور اعلان لاہور کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور چارٹر کو قرار دیا ہے۔ وزیر اعظم نے کشمیر کاز اور ملکی سلامتی کے لئے آخری حد تک جانے کا اعلان کیا ہے۔ 3۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک فوج کی کشمیر کے ساتھ مکمل وابستگی اور حمایت اور ملکی سلامتی کے لئے تمام وسائل بروئے کار لانے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ 4۔ پاک فوج کے ترجمان کے بیانات کہ دونوں ممالک جوہری صلاحیت کے مالک ہیں۔ بھارت جس طرف جا رہا ہے دنیا اسے دیکھے۔ ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے۔ بھارت سے حقیقی خطرے کی صورت میں ہم کسی بھی حد تک جائیں گے اور قوم کو مایوس نہیں کریں گے۔ عالمی عدالت انصاف میں جانے کا معاملہ بھی زیر غور ہے۔ 5۔ وزارت خارجہ میں کشمیر سیل کا قیام تاکہ کشمیر امور پر کڑی نظر رکھی جا سکے۔ اہم ممالک میں کشمیر ڈیسک بنانے کا اہتمام۔ 6۔ روس ماضی میں مسئلہ کشمیر پر بھارت کے حق میں ویٹو کا استعمال کرتا رہا ہے لیکن اس مرتبہ روس نے مثبت موقف اپنایا۔ 7۔ پاکستان کا پالیسی بیان کہ موجودہ صورت حال میں سرحد پار کوئی کارروائی کشمیر کاز سے غداری ہو گی۔ ہمیں ایک طویل جنگ کے لئے تیار رہنا چاہیے جو ہر محاذ پر لڑی جائے گی۔ 8۔ صدر ٹرمپ نے صرف صبرو تحمل سے کام لینے کے مشورے تک محدود رکھا ہے۔ اُسے کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کی کوئی پروا نہیں۔ اسے صرف یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ دو ایٹمی ممالک میں لائن آف کنٹرول پر مصروف پیکار نہ ہوجائیں۔ ان پالیسی بیانات سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی‘ عسکری اور سفارتی عناصر کی سوچ ایک ہی ہے۔ پاکستان ازخود کوئی جنگ نہیں چھیڑنا چاہتا تاہم مدت سے خوابیدہ اداروں کو متحرک کرنے کا عزم رکھتا ہے۔ سلامتی کونسل کا حالیہ اجلاس اس کی ایک مثال ہے۔ اب وزارت خارجہ کو بھی غیر ممالک میں اپنی کارکردگی دکھانی ہو گی۔ اللہ کا خاص احسان ہے کہ پاکستانیوں کی کسی صدمے یا حادثے سے دوچار ہونے کے بعد سنبھلنے کی صلاحیت قابل رشک ہے۔ ہمارے تجربات 1948ء میں قتل و غارت اور تخت و تاراج1948ء میں کشمیر پر بھارتی غاصبانہ قبضہ 1965ء میں ملکی سلامتی کو درپیش خطرات1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی‘1973ء میں شملہ معاہدے میں پہنچنے والے نقصانات۔ کارگل میں پیش قدمی اور پس قدمی اور ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن پر محیط ہیں۔ الحمد للہ ہم نے جلد ہی بحالی کا عمل مکمل کر لیا۔ ہمیں موجودہ صورتحال کا سامنا بھی ہوش مندی سے کرنا ہو گا تاہم طویل المدت مقاصد نظر سے اوجھل نہیں ہونے چاہئیں۔ موجودہ اقدامات واپس لینے سے مودی کی سیاسی موت واقع ہو جائے گی اس لئے مودی سے کسی پس قدمی کی توقع مت رکھیں۔ امریکہ ہر حال میں بھارت کی پشت پناہی کرے گا کیونکہ بھارت اس کا سٹریٹیجک پارٹنر ہے۔ مودی کی کوشش ہو گی کہ بڑی طاقتوں کی مدد سے پاکستان کو خاموش رکھے لہٰذا ہمیں اپنی سفارتی کوششوں کو کئی گناہ بڑھانا ہو گا۔ راقم کی رائے میں حکومت اور فوج ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر نہیں بیٹھی ہوئی۔ عین اس موقع پر سکھوں کی خالصتان تحریک میں جان پڑ جانا اور ناگالینڈ کی آزادی کی تحریک کا فعال ہو جانا بہت معنی خیز ہے۔ بہت سے دیگر اقدامات بھی زیر غور ہو سکتے ہیں۔ سکیورٹی کونسل میں پاکستان کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ اگر اقوام عالم نے ٹھوس اقدامات نہ کئے تو پاکستان کشمیریوں کی نسل کشی روکنے کی خاطر کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ گواہ ہے کہ تشدد اور جبر سے کسی خطے کے عوام کے جذبہ آزادی کو ہمیشہ کے لئے دفن نہیں کیا جا سکتا نہ ہی سیاسی معاملات کو فوج کشی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ ہم نے 1970ء میں مشرقی پاکستان میں فوج کشی کی جو بھیانک غلطی کی تھی‘ بھارت اس سے کئی گنا بڑی غلطی نصف صدی بعد کشمیر میں کر چکا ہے۔ عوام میں جذبہ حریت بیدار ہو جائے تو ظلم و استبداد سے ان کی آزادی میں کچھ تاخیر ہو سکتی ہے لیکن پایان کار انہیں آزادی مل کر رہتی ہے۔ جتنے ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے جائیں گے اتنا ہی کشمیریوں کا غاصب بھارت کے خلاف نفرت اور انتقام کا جذبہ فراواں ہوتا جائے گا اور اتنی ہی آزادی کی منزل قریب آتی جائے گی۔ شاید کسی مرحلے پر یہ تجویز بھی حکومت پاکستان کے زیر غور ہو کہ گلگت بلتستان کو مکمل صوبے کا درجہ دے دیا جائے اور کشمیر کی جلا وطن حکومت قائم کر کے اقوام متحدہ کی رکنیت مانگ لی جائے۔ تاہم ایسے اقدام کے قابل عمل ہونے اور ان کے قانونی اور آئینی پہلوئوں پر باریک بینی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔(ختم شد)