15 ستمبر جمہوریت کا عالمی دن ہے۔ پوری دنیا میں یہ دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں غیر جمہوری ادوار کی تاریخ بہت طویل ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جمہوریت اور میڈیا کی آزادی ایک دوسرے کیساتھ لازم ملزوم ہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں اپوزیشن جماعتوں نے میڈیا کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور پی ایم ڈی اے کو کالا قانون قرار دیا۔ دوسری طرف وزیر اطلاعات فواد چودھری نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اخبار پڑھ لیا کریں۔ قانون بنا ہی نہیں تو ختم کیسے ہو گا؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فیک نیوز کا نام آزادی صحافت نہیں ہے۔ نہ جانے عمران خان کو ان حالات کا علم ہے کہ نہیں ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں میڈیا کو سب سے زیادہ نقصان ہوا اور صرف ادارے نہیں بلکہ عام صحافی بیروزگاری کے باعث سخت مشکلات کا شکا رہوئے ۔ پاکستان میڈیا گورنمنٹ اتھارٹی کو جملہ صحافی تنظیموں نے مسترد کیا ہے۔ ایک لحاظ سے غیر آئینی بھی ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد دوسرے اداروں کی طرح میڈیا کے صوبائی معاملات صوبوں کے پاس آتے ہیں۔ صوبوں سے شائع ہونیوالے اخبارات کے معاملات کو صوبے دیکھتے ہیں اور اُن کے بارے میں قانون سازی کا اختیار بھی صوبوں کو حاصل ہے۔ نئے قانون میں میڈیا ٹربیونل کا بھی ذکر کیا گیا ہے حالانکہ یہ عدالتی معاملہ ہے۔ نئی عدالت قائم کرنا عدلیہ کا کام ہے نہ کہ انتظامیہ کا۔ میڈیا کے اداروں کیلئے لائسنس اور نئے سرے سے رجسٹریشن کی تجدید جیسے معاملات جمہوری عمل کے منافی ہیں۔ عجب بات ہے کہ وزیر اعظم عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو میڈیا کی آزادی کے حق میںتھے آج کیوں میڈیا کا گلا گھونٹا جا رہا ہے اور ان کو اندھیرے میں رکھ کر ایسے غلط اور غیر مقبول فیصلے کیوںکرائے جا رہے ہیں جو کہ اُن کی آئندہ کی سیاسی زندگی کیلئے سوالیہ نشان بن سکتے ہوں۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی اساس جمہوریت کو قرار دیا تھا اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ریاست مدینہ کا شورائی نظام بھی جمہوریت کی ایک شکل ہی تھی کہ مشاورت کے بعد اکثریت کی بنیاد پر فیصلے ہوتے، بانی پاکستان اپنی سوچ اور اپنے وژن کے مطابق پاکستان کو مضبوط جمہوری ملک بنانے چاہتے تھے یہ بھی حقیقت ہے کہ قیام پاکستان سے ایک سال قبل 1946ء میں ہونے والے مرکزی اسمبلی کے الیکشن میں مسلم لیگ کو مسلم علاقوں میں بھرپور کامیابی حاصل ہوئی،قائد اعظم محمد علی جناح نے اسے مسلمانوں کی جمہوری کامیابی قرار دیا اور 11جنوری 1946ء کو کامیابی کا جشن منایا گیا۔اس کے بعد صوبائی الیکشن ہوئے مسلم لیگ نے کل 495مسلم نشستوں میں سے 428نشستیں حاصل کیں۔ بنگال میں سب سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی۔ قائد اعظم کی زندگی نے وفا نہ کی، اُن کی وفات کے ساتھ ہی جمہوریت کے خلاف سازشیں شروع ہو گئیں۔1954ء میں مشرقی بنگال کے انتخابات ابتری کی صورت میں سامنے آئے، ان انتخابات میں مسلم لیگ کے علاوہ کسی دوسری جماعت نے احتجاجاً حصہ نہ لیا۔ اس موقع پر خونی فسادات بھی ہوئے 1956ء میں آئین تیار ہوا مگر 7اکتوبر 1958ء کو مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ ایوب خان نے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت میں 27 اکتوبر 1958ء کو آئین منسوخ کر دیا اور 1959ء کوبنیادی جمہوریت کے نئے مقام کا ڈھونگ رچایا۔ غیر جمہوری ہتھکنڈوں کے خلاف میڈیا نے آواز بلند کی تو خاموش کرا دیا گیا۔ عوام کے احتجاج پر 25 مارچ 1969ء کو ایوب خان نے اختیارات کمانڈر اینڈ چیف جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دئیے۔ یحییٰ خان نے 7دسمبر1970ء کو بالغ رائے دہی کے بنیاد پر عام انتخابات کرائے، عوامی لیگ کو بھرپور کامیابی حاصل ہوئی مگر نتیجہ تسلیم نہ کیا گیا جس کی بناء پر فسادات ہوئے اور ملک دولخت ہو گیا۔ بقیہ ملک کا اقتدار ذوالفقار علی بھٹو کو ملا انہوں نے 1973ء کا آئین دیا مگر ضیاء الحق نے 5 جولائی 1970ء کو پھر مارشل لاء لگا دیا۔ اس کے بعد 1984ء کے ریفرنڈم کا ڈھونگ رچایا گیا اور اس کے بعد مشرف کا غیر جمہوری دور بھی آیا اور اس دوران جمہوریت کے نام پر سیاست کرنے والے سیاستدانوں کے غیر جمہوری رویے جمہوریت کی تباہی کا باعث بنے۔ اس موقع پرجمہوری قوتیںاور میڈیا اپنا بھرپور کردار ادا کرنے سے قاصر رہا۔ غریب طبقات خصوصاً پسماندہ علاقوں کے غریبوں کی بات کوئی سننے کو تیار نہیں۔ عوام میں شعور کی بیداری ہی میڈیا کے مضبوط کردار کی عکاس ہے لیکن استحصالی جمہوریت کے فروغ میں میڈیا کا کردار ہمیشہ فعال رہا۔ قانون ساز اداروں میں عام آدمی کو فائدہ پہنچانے کیلئے میڈیا کا کردار صفر ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ محروم اور پسماندہ طبقات کو بہت شکایات ہیں اور ایک کہاوت مشہور ہے کہ بڑے شہروں میں معمولی سے واقعہ پر میڈیا طوفان اٹھا دیتا ہے اور چھوٹے علاقوں میںمیں قیامت بھی گزر جائے تو میڈیا کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔ جیسا کہ موجودہ حکمرانوں نے سو دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ کیا۔ تین سال گزر گئے چوتھا سال شروع ہے مگر میڈیا خاموش ہے۔ وسیب کی شناخت سمیت انسانی حقوق کی پامالی قدم قدم پر جاری ہے۔ کوئی مدد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ میڈیا کو اپنے رویے پر غور کرنا ہو گا اور خود بھی جمہوری انداز فکر اختیار کرنے ہوں گے ورنہ لوگوں کا جہاں حکومت سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ میڈیا سے بھی اٹھ جائے گا۔۔