حاکم وقت ، مصاحبین کرام ، سوشل میڈیاکے نابغوں اور ٹاک شوز کے سینئر تجزیہ کاروں سے نہیں ، کبھی کسی عام آدمی سے پوچھ کر دیکھیے زندگی کیسے گزر رہی ہے۔ میرے ایک جاننے والے مقامی تاجر جنون کی حد تک مسلم لیگی ہیں۔ دوست انہیں پیار سے ’ پٹواری ‘ کہتے ہیں۔ اکثر کہا کرتے تھے : نواز شریف پر میرے بچے بھی قربان۔ اگلے روز ملاقات ہوئی تو جھولی پھیلا کر عمران خان کو دعائیں دے رہے تھے۔یہ حیران کن منظر تھا۔ میرا اشتیاق بڑھا ، میں نے وجہ پوچھی تو فرمانے لگے’’ ہمارے تو عمران خان کے آنے سے مزے ہو گئے ہیں۔ جس چیز کے مرضی ریٹ بڑھا دو کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پہلی بار چینی کے کاروبار میں مزہ آ رہا ہے۔جن چیزوں پر حکومت نے ٹیکس نہیں لگائے ہم نے وہ بھی مہنگی کر دی ہیں۔مثال کے طور پر یہ جو سگریٹ پر گناہ ٹیکس کا معاملہ تھا۔آپ لوگ ابھی بحث ہی کرر ہے تھے کہ گناہ ٹیکس لگ سکتا ہے یا نہیں لیکن ہم تاجروں نے ادھر مارکیٹ میں سگریٹ اسی دن سے مہنگے کر دیے تھے‘‘۔ تو کیا لوگ آپ سے پوچھتے نہیں کہ آپ نے ہر چیز مہنگی کیوں کر دی؟ ’’جی آصف بھائی لوگ پوچھتے ہیں کہ مہنگائی کیوں ہو گئی ۔ہم کہہ دیتے ہیں تبدیلی جو آ گئی ہے۔لوگ خود ہی شرمندہ ہو جاتے ہیں‘‘۔ ’’تو کیا حکومت بھی آپ سے پوچھتی نہیں کہ اتنی مہنگے دام کیوں لے رہے ہیں‘‘؟ میری حیرت بڑھتی جا رہی تھی۔ ’’اوہ آصف بھائی یہ ’’ شوشل میڈیا‘‘ کی حکومت ہے۔ نیچے کیا ہو رہا ہے انہیں نہ کچھ خبر ہے نہ انہیں کچھ سمجھ آ رہی ہے۔ یہ صرف فیس بک اور ’’ ٹوٹر‘‘ پر ککڑوں کوں کر رہے ہیں ۔( ٹوٹر سے غالبا ان کی مراد ٹوئٹر تھی)۔ اپنے تو مزے ہیں اس نئے پاکستان میں۔ہم نے عمران خان کو ووٹ تو نہیں دیا تھا لیکن اب تو ہمارا بھی نچنے نوں دل کرداہے‘‘۔ ملک صاحب سے بحث کی اب کوئی گنجائش نہ تھی، میں خاموش ہو گیا۔ککڑوں کوں تو واقعی سوشل میڈیا پر ہی ہو رہی ہے۔ کبھی وزیر داخلہ اپنے ’’ خفیہ اور اچانک‘‘ چھاپوں کی ویڈیوڈال کر داد طلب کر رہے ہوتے ہیں تو کبھی گورنر سندھ اپنی اور صدر مملکت کی تصویر جاری کر کے اپنی سادگی اور درویشی کا سلسلہ وہیں سے جوڑتے ہیں جہاں سے سراج الحق صاحب نے ختم کیا تھا۔ابھی حکومت نے ٹوئٹر پر سروے کرایا اور گلاب جامن کو قومی مٹھائی قرار دے دیا۔کیا حکومت ایک اور سروے کروا سکتی ہے کہ ملک میں کتنے لوگ ہیں جو ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں؟ملک کی آبادی 197ملین ہے۔اس میں صرف 44 ملین سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں۔ان 44 ملین میں سے صرف 4 اعشاریہ 17 فیصد ایسے ہیں جو ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں۔یعنی ملک کی کل آبادی کے صرف پانچویں حصے کے محض چار فیصد طبقے سے سروے کروا کر قومی مٹھائی کا تعین کر دیا گیا۔بات گلاب جامن کی نہیں ، بات با لادست طبقے کے رویے اور طرز فکر کی ہے۔سوال یہ ہے کہ اس ملک میں ان لوگوں کی کیا حیثیت ہے جو اقتدار تک رسائی رکھتے ہیں نہ سوشل میڈیا تک؟ جن کے علاقوں میں انٹر نیٹ نہیں ہے یا جو روزی روٹی کے چکر سے نکل ہی نہیں پاتے کہ سوشل میڈیاپر رائے کا اظہار کریں ، اس ملک میں ان کی حیثیت کیا ہے؟کیا تحریک انصاف نے اگلا الیکشن صرف سوشل میڈیا ، معاف کیجیے ’’ شوشل میڈیا‘‘ پر لڑنا ہے؟کیا اسے احساس ہے کہ فیس بک اور ٹوئٹر کے علاوہ بھی ایک جہان آباد ہے؟ عام آدمی حکومتی اعدادو شمار اور ماہرین معیشت کے تجزیوں سے بے نیاز ہوتا ہے۔ وہ خود اپنی ذات میں ایک ماہر معیشت ہوتا ہے کیونکہ جو اس پر گزرتی ہے وہ اسی کو معلوم ہوتی ہے اور خوب معلوم ہوتی ہے۔حکومت نے سموگ سے نبٹنے کے لیے اینٹوں کے بھٹے کچھ دنوں کے لیے بند کر دیے۔ اس کا اچھا اثر پڑا اور سموگ کے عذاب سے شہر محفوظ رہے۔میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس فیصلے کی تحسین کی گئی ۔لیکن ایک عام آدمی اس معاملے کو کس طرح دیکھ رہا ہے ، یہ مجھے دسمبر کے آخری دنوں میں گائوں جا کر معلوم ہوا۔پتا چلا کہ جب سموگ سے بچنے کے لیے بھٹے بند کیے گئے تو تحصیل شاہ پور میں ایک ہزار اینٹ کی قیمت 6 ہزار روپے تھی۔بھٹے بند ہوئے اینٹ کی قلت ہوئی تو قیمت 9 ہزار ہو گئی۔اب پابندی ختم ہو چکی ہے اور بھٹے کام کر رہے ہیں لیکن قیمت واپس نہیں آئی۔حکومت خوش ہے کہ اس کے فیصلے نے سموگ ختم کر دی مگر عام آدمی پریشان ہے کہ کھڑے کھڑے اینٹ کی قیمت میں تیس فیصد اضافہ ہو گیا۔ سکولوں کی فیسیں کم ہوئیں۔ سوشل میڈیا پرداد و تحسین کے ڈونگرے برسا دیے گئے کہ اس سے لوگوں کو بہت ریلیف ملے گا۔ لیکن ایک عام آدمی اس فیصلے سے مطمئن نہیں۔ فیسوں میں کمی کا فیصلہ ان سکولوں کے لیے ہے جو پانچ ہزار یا اس سے زیادہ فیس لیتے ہیں۔ان مہنگے سکولوں میں عام آدمی کا بچہ نہیں جاتا۔ وہ تین بچوں کی پندرہ ہزار فیس دے ہی نہیں سکتا۔وہ تب خوش ہوتا جب اس کے بچوں کی فیس بھی کم ہوتی اور اس سے چار ہزار کی بجائے تین ہزار یا تین ہزار کی بجائے ڈھائی ہزار لیے جاتے۔یا پھر سرکاری سکولوں کو بہتر کر دیا جاتا ۔ عام آدمی کا مسئلہ صحت کی سہولت ہے ، میڈیا ، سوشل میڈیا اور اہل سیاست کا مسئلہ پی اے سی کی سر براہی ہے۔عام آدمی رو رہا ہے مہنگائی کے عذاب کا سامنا کیسے کرے سوشل میدیا پر حکومتی لشکری بغلیں بجا رہے ہیں کہ زلزلہ آیا تو سب بھاگ گئے لیکن کپتان بیٹھا رہا، عام آدمی کا سر درد یہ ہے کہ اسے اپنے گائوں میں نہ سہی اپنے ضلع یا ڈویژن ہیڈ کوارٹر میں ہی ڈھنگ کی طبی سہولیات مل جائیں اور اسے ہر بار یہ نہ سننا پڑے کہ لاہور لے جائو لیکن میڈیا اور اہل سیاست کا درد یہ ہے کہ جیل میں نواز شریف کے لیے اچھا سا ڈاکٹر موجود ہے یا نہیں۔عام آدمی کو مرتے وقت ڈھنگ کی دوا نہیں ملتی سوشل میڈیا پر منادی ہو رہی ہے ہمارے صدر اور گورنر کتنے سادہ ہیں سیڑھیوں پر بیٹھے ہیں۔عام آدمی کی پریشانی یہ ہے کہ اس کا بچہ تعلیم حاصل کر سکے ، ہمارا سیاسی اور صحافتی بیانیہ یہ ہے کہ بلاول زرداری اور مریم نواز میں سے علمی و فکری طور پر کس کے درجات بلند ہیں۔لوگوں کو کھانے کو نہیں مل رہا اور یہاں عمران خان کی قمیض کے سوراخوں پر فرط جذبات اور عقیدت سے دیوان لکھے جا رہے ہیں۔لوگ پریشان ہیں اس مہنگائی میں مہینہ کیسے گزرے گا اوردانشور تجزیے فرما رہے ہیں کہ اگلا وزیر اعظم کس شاہی خاندان سے ہو گا۔ سوال وہی ہے: عام آدمی کہاں جائے؟