ستر کی دہائی میں جب بھٹو شہید کے خلاف نو ستاروں کی تحریک زوروں پر تھی توجامع مسجد خضراسر غلام حسین ہدایت اللہ روڈ پروکلا کے جلوس میں ایک خاتون کی بننے والی تصویر نے پوری دنیا میں دھوم مچا دی۔ وکلا کی اس احتجاجی ریلی کی قیادت سندھ بار کے اس وقت کے صدر ظہور ایڈووکیٹ کررہے تھے۔ یہ جلوس جب ہائی کورٹ سے مسجد خضرا پہنچا تووہاں موجود فوجی دستوں نے مظاہرین کو آگے بڑھنے سے روک دیا اور ان پر بندوقیں تان لیں۔ اس ہجوم سے ایک پرجوش خاتون لپک کرآگے بڑھی اور ایک فوجی سے مائیکروفون اچک کر ایک ہی جست میں جیپ پر چڑھ گئی اور بولنا شروع کردیا ۔ یہ سب کچھ اچانک ہوا کہ فوجی بھی اس خاتون کی برق رفتاری اور دلیری پر ششدررہ گئے۔ یہ خاتون، معاصر اخبار کے کالم نگار سردار علی صابری کی صاحب زادی ،مسلم لیگی رہنما شیخ لیا قت حسین کی اہلیہ اور تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی عامر لیاقت حسین کی والدہ بیگم محمود سلطانہ تھیں۔ محمودہ سلطانہ نے میجر محمود کی جیپ پر چڑھ کر فوجیوں کوبھٹو مخالف ہجوم کا راستہ چھوڑدینے اور مظاہرین کو آگے بڑھتے رہنے کی ہدایت کی ۔ اس غیرمتوقع صورت حال میں فوجیوں نے ہجوم کا راستہ خالی کر دیا۔ جیپ پر چڑھ کر مائیکروفون سے جوش خطابت کا اظہار کرنے والی محمودہ سلطانہ کی یہ تصویر اگلے روزدنیا بھرکے اخبارات و جرائد کی زینت بنی جبکہ عالمی جریدے ’’نیوزویک‘‘ نے یہ تصویر ’’پاکستان کی بہادر بیٹی‘‘ کے عنوان سے سرورق پر پیش کی تو اس تصویر کو شہرت دوام حاصل ہو گئی۔ یہ تصویر ایک زمانے میں شیخ لیاقت حسین کی شاہراہ قائدین پر واقع رہائش گاہ کے ڈرائنگ روم میں بھی آویزاں رہی۔زندگی کے آخری چندسالوں میں بیگم محمودہ سلطانہ اور ان کے شوہر شیخ لیاقت حسین قائد تحریک کی عقیدت میں مبتلا ہو گئے ، انہوں نے مسلم لیگ سے طویل وابستگیاں چھوڑ کر ایم کیو ایم سے خوش گوار تعلقات استوار کر لئے اور مرتے دم تک قائد تحریک سے عہد وفا نبھایا۔ کراچی کے مخصوص سیاسی اور سماجی پس منظررکھنے والے شیخ لیاقت حسین اور بیگم محمودہ سلطانہ کے صاحب زادے عامر لیاقت حسین کو دنیا کو مختلف طریقوں سے اپنی طرف متوجہ کرنے کا گر ورثے میں ملا ہے،ا نہیں بھی اپنے مرحوم والدین کی طرح خبروں اور تصویروں میں رہنے کا ہنر آتا ہے لیکن بسا اوقات عوامی توجہ حاصل کرنے کے لئے ان سے ایسی ایسی بچگانہ حرکتیں سرزد ہو جاتی ہیں کہ ان کے مکالموں اوراداکاری پربچے بھی گھٹنوں میں منہ چھپا لیتے ہیں۔ شیخ لیاقت حسین قائد تحریک کو پیارے ہوئے تو کالعدم قیادت نے انہیں1997ء میں قومی اسمبلی کی زینت بنا دیا۔ زمانہ طالب علمی میں جوش خطابت سے کراچی کے جوانوں میں اپنی دھاک بٹھانے والے عامر لیاقت حسین کوایم کیو ایم اور مہاجر کاز سے عقیدت ورثے میں ملی ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور آمریت میں وہ ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر این اے 249،کراچی XI-سے رکن منتخب ہوئے اور پہلے وزیر مملکت برائے زکواۃ وعشر اور پھرشوکت عزیز کی کابینہ میں وزیر برئے مذہبی امور رہے، ان کی متنازع بیان بازی کے سبب 2007ء میں ان سے عہدہ واپس لے لیا گیا، ایک سال بعد وہ پارٹی سے بھی نکال دیئے گئے اور پھر اس کے بعدیک طرفہ محبت کے باوجود وہ کبھی بھی کالعدم قیادت کی آنکھوں میں جچ نہیں سکے۔ یہ اختلافات ایک زمانے میں اس نہج پر بھی پہنچے کہ انہوں نے قائد تحریک سے اپنی جان کو لاحق خدشات کا بیان بھی داغ دیا۔ اس متنازع بیان کے بعدبھی وہ ایم کیو ایم میں دوبارہ جگہ بنانے کی سربستہ کو ششوں میں لگے رہے ۔ کالعدم قیادت کی کراچی پریس کلب پر 22 اگست 2016 ء کی ریاست مخالف تقریر پرپراسرار خاموشی کی پاداش میں گرفتار شدگان کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل تھا مگررہائی کے بعدان کی دال ایم کیو ایم پاکستان میں بھی نہیں گل سکی۔ وہ پاکستانیت اور مہاجر ازم کو بیک وقت ساتھ لے کر چلنے کے حامی ہیں لیکن عدم توازن کے سبب اکثر ان کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں جس سے وہ سیاسی الجھنوں میں گھر جاتے ہیں ۔مہاجر قیادت سے مایوس ہو کر عامر لیاقت حسین نے اپنے نئے سیاسی جنم کا آغاز 2018ء میں تحریک انصاف سے کیا اور عام انتخابات میںاین اے 245، کراچی IV-سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور تاحال اسمبلی میںموجود ہیں لیکن اس باروزیراعظم عمران خان نے عامر لیاقت حسین کی خواہش کے باوجود انہیں کوئی حکومتی عہدہ دینا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ نظر انداز کئے جانے پر اکثر تلملا تے اور نئی قیادت پر گرجتے برستے رہتے ہیں لیکن قیادت نے ان کی بیان بازی کوکبھی درخور اعتنا نہیں سمجھا۔ سیاسی افسردگی انہیں اکثر ایسے جملوں پر اکساتی ہے جن پر ان کی سیا سی ساکھ صفر ہو جاتی ہے۔ایم کیوایم پاکستان سے نکالے گئے ڈاکٹر فاروق ستار اور عامر لیاقت حسین اپنے سیاسی مستقبل کے لئے کچھ ایک جیسے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ان میں گاہے بہ گاہے رابطے استوار رہتے ہیں۔ جمعہ 24دسمبر 2021ء کو’’ مہاجر کلچرل ڈے‘‘ پر ڈاکٹر فاروق ستار کی ثقافتی ریلی کے پلیٹ فارم سے عامر لیاقت حسین نے جوش خطابت میں اچانک ایک ایسا بیان داغ دیا جس نے ڈاکٹرفاروق ستار کی زیر علاج سیاست کوایک دم آکسیجن ٹینٹ سے باہر دھکیل دیا ہے ۔ اس بیان سے ڈاکٹر فاروق ستار کو جو سیاسی نقصان ہوا وہ ایک الگ کہانی ہے لیکن اس دھماکہ خیز بیان سے خود عامر لیاقت حسین کی جماعتی حیثیت پر سوال اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ ’’مہاجرثقافتی ریلی ‘‘سے خطاب کے دوران عامر لیاقت حسین نے اچانک کہا کہ ’’اگرطالبان سے مذاکرات ہو سکتے ہیں تو کالعدم قیادت سے کیوںنہیں؟‘‘ان کایہ جملہ بجلی بن کر کڑکا اور اس میں ڈاکٹر فاروق ستار کاسب کچھ بھسم ہو گیا۔ خوش گمانوں نے کہا ہے کہ یہ بات عامر لیاقت حسین خود نہیں کہہ سکتے ،یہ مشور ہ یا مطالبہ کسی نے ’’اوپر‘‘ سے ان کے منہ میں ڈالا ہے ۔ اس جملے سے لندن سے کسی کی واپسی کے منتظر لوگوں کی خوش فہمیوں کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ اس صورت حال میں عامر لیاقت حسین سے سوال تو بنتا ہے۔سیاسی ناقدین کاسوال ہے کہ عامر لیاقت حسین یہ بتائیں کہ وہ عمران خان کے لاڈلے ہیں یا کالعدم قیادت کے؟ ان کا یہ جذباتی مشورہ یا مطالبہ تحریک انصاف کے ایک رکن قومی اسمبلی کا تھایا کالعدم قیادت سے اندھی عقیدت رکھنے والے کسی وفادار کارکن کا؟ عامر لیاقت حسین جو عمران خان سے ہمہ دم محبت کا دم بھرتے نہیں تھکتے ، کیا انہیں اس بات کاا ندازہ ہے کہ اس جملے کی سنگینی کاخمیازہ تحریک انصاف میں کسے بھگتنا پڑے گا ۔ سوچنے کی بات ہے کہ انہیں یہ جملہ کہنے کا مینڈیٹ کس نے دیاکیوں کہ عامر لیاقت حسین کا حالیہ بیان کالعدم ایم کیو ایم اور اس کی قیادت سے متعلق پی ٹی آئی کے روایتی بیانیے سے یکسر مختلف ہے۔ایم کیوایم حکمران جماعت تحریک انصاف سے اتحاد کے باوجود اپنی کالعدم قیادت سے دوری رکھنے کی پابند ہے لیکن بعض اوقات ایم کیوایم کے زمانہ عروج کے غیر فطری رومان میں جکڑے جذباتی کارکن اور رہنما موجودہ پاکستانی قیادت کے لئے ایسی غیر متوقع اور ناموزوں صورت حال پیدا کر دیتے ہیں کہ ان کیلئے 22 اگست 2016 ء کے ڈرائونے خواب کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور اس کے دفاع میںبے چارے متحدہ رہنمائوںسے بات بنائے نہیں بنتی ۔اس بار عامر لیاقت حسین نے شعوری یا لاشعوری طور پرایک تیر سے یک بہ یک اپنے محبوب وزیراعظم عمران خان اورسیاسی رفیق ڈاکٹر فاروق ستار کو شکار کیا ہے۔