موج میں آ کر جب بہتے ہیں بادل چاند ہوا اور میں تنہا تنہائیوں کیوں رہتے ہیں بادل چاند ہوا اور میں سبز رتوں کو جھلمل میں جب شاخیں پھول اٹھاتی ہیں بہکے بہکے سے کیوں رہتے ہیں بادل چاند اور میں ایسے گھمبیر موسم میں بھی کہ جہاں گھٹائیں گھر گھر کر آ رہی ہیں اور موسلا دھار بارش سب کچھ جل تھل کر رہی ہے ایک تنہائی کا احساس کیوں جاں گزیں ہے کہ جیسے فطرت کے عناصر میں بھی سماجی فاصلے ہیں یا کم از کم محبت کرنے والوں میں دوریاں ہیں۔ رابطے کچھ ٹوٹے ٹوٹے سے ہیں۔ کبھی ہم اس موسم کو منایا کرتے تھے یہ بادل ہم سے ملنے آیا کرتے تھے اور من میں آگ لگایا کرتے تھے اور زمین کی پیاس بجھایا کرتے تھے مگر اب تو دھیان کہیں اور ہی رہتا ہے کورونا سے ہٹے تو ڈینگی کی طرف چلا جاتا ہے‘ زمیں کی نمی سے مچھر نمو پائے گا اور پھر ہم مکھی سے بھی ڈرنے لگیں گے ہمارے اندر اصل میں خوف در آیا ہے بلکہ یہ خوف ہمارے اندر میڈیا اور دوسرے ذرائع سے داخل کیا گیا ہے ایک اداس غزل کانوں میں گونج رہی ہے۔شام اِلم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا۔ برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو۔ معزز قارئین سچی بات تو یہ ہے کہ آج مجھے نیب کے حوالے سے لکھنا تھا کہ جو عدالت کے بقول بھی سب سے بڑا عیب بن چکی ہے اور انصاف کی بجائے انتقام کی آگ میں جل رہی ہے۔ حکومت پہلے ہی ناکامیوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے جس نے ابھی تک بھی ڈلیور نہیں کیا۔ کسی پر کچھ بھی ثابت وہ نہیں کر سکتے بلکہ ثابت یہ ہوا کہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ اسی حوالے سے بہت سی باتیں کرنے والی ہیں۔ مگر میں ایک نہایت دلچسپ واقعہ آپ سے شیئر کرنا چاہتا ہوں تاکہ کالم لکھنے کا کچھ مقصد تو نکل آئے اور ہو سکتا ہے کسی کو کوئی فائدہ پہنچ سکے وگرنہ بدبودار سیاست اور نیب زدہ صورت حال پر لکھتے جانا تو دلدل میں ہاتھ مارنے کے مترادف دکھائی دیتا۔ اب بتائیے اس سے بڑھ کر کوئی کیا کہے گا کہ جو سپریم کورٹ کہہ گئی کہ نیب کی بدنامی ملکی سرحدیں عبور کر چکی ہے۔ ہم تو ابھی تک اس حوالے سے سر بگریباں ہیں کہ مشیر کہاں سے یعنی کسی سیارے سے اتر آئے ہیں۔ یہ جو دہری شہریت رکھتے ہیں‘ کیا یہ وہی ہیں جو باہر بیٹھے ہم پر سرمایہ کاری کر رہے تھے اور اقتدار ہاتھ آتے ہی ٹپک پڑے۔ چلیے پہلے میں وہ مزیدار واقعہ آپ کو سنا دوں: میرے بھائی ثناء اللہ شاہ کو کورونا کے دنوں میں طبیعت پر بہت زیادہ بوجھ محسوس ہوا اور دل کی دھڑکن تیز ہو گئی فوراً اس نے ایک دوست ڈاکٹر سے رابطہ کیا اور اس کے کلینک پر چلا گیا۔ اٹینڈنٹ نے بلڈ پریشر چیک کیا تو وہ خاصا اوپر جا چکا تھا۔ دل کی دھڑکن مزید بے قابو ہو رہی تھی۔ اس پر ڈاکٹر دوست بھی پریشان ہوا۔ اتفاق سے وہاں اس کے دوست کا کوئی دوست کلینک پر ملنے آیا ہوا تھا جو کافی عرصہ امریکہ میں بھی پریکٹس کرتا رہا۔ اس نے صورت حال دیکھی تو آ کر بھائی سے مخاطب ہوا یار تم تو خوبصورت‘ شاعری پسند کرتے ہو؟ اس کے ساتھ ہی اس نے غالب کا ایک شعر پڑھ دیا: محبت میں نہیں فرق جینے اور مرنے میں اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے بھائی نے دل میں سوچا کہ یہ کیسا ڈاکٹر ہے کہ میری جان نکل رہی ہے اور اس کو شاعری کی پڑی ہوئی ہے۔بہرحال ڈاکٹر نے دو تین اور شعر غالب ہی کے سنا ڈالے۔ پھر کہنے لگا کہ تم ہرگز مریض نہیں ہوں ساتھ ہی کہنے لگا کہ ساری دنیا میں عجیب چکر چل رہا ہے کہنے لگا کہ میری بات یاد رکھنا کہ ایک وقت آئے گا کہ دنیا کو پتہ چلے گا کہ کائنات کا سب سے بڑا فراڈ پراپیگنڈا کے زور پر اس دنیا سے کیا گیا۔ کچھ بھی غیر معمولی نہیں ہے کہنے لگا کہ میں نے ستائیس سال ڈاکٹری میں گزارے ہیں اور ہزاروں مریض میرے ہاتھ سے شفا یاب ہوئے۔ یاد رکھو بیماری سے زیادہ بیماری کے خوف سے لوگ مرے۔بیماری تو ایسے ہی بندے کو کچھ یاد دہانی کروانے آتی ہے۔یہ فلو شلو اور نزلہ و زلہ کچھ بھی نہیں ہیں مختصر یہ کہ بھائی نے بتایا کہ میں اس کی باتوں کے سحر میں گرفتار ہو گیا۔ اس نے اچانک اٹینڈنٹ سے کہا۔ چلو بلڈ پریشر چیک کرو۔ جب بلڈ پریشر چیک کیا گیا تو سب حیران رہ گئے۔ وہ بالکل نارمل تھا اور دل تو کہیں محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ اس ڈاکٹر نے پھرکہا چلو اٹھ کر بیٹو تمہیں کچھ اور شعر بھی سناتا ہوں۔ بھائی شرمندہ شرمندہ سا ہو گیا بھائی بتاتا ہے کہ میں اٹھ کر گھر آیا اور اتنی مزے کی نیند آئی کہ بس۔ سارا وہم اور خوف پتہ نہیں کہاں گیا اور اب میں سوچتا ہوں تو ہنستا ہوں۔ہر بیماری کا علاج تو بندے کے پاس ہوتا ہے قوت ارادی کی صورت بلکہ بعض اوقات آنکھیں بھی مدد کرتی ہیں: سوچا تھا سنگ دل کو ہم موم کریں تو کس طرح آنکھ نے دفعتاً وہاں اشک گرا دیا کہ یوں سب کچھ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ انشاء اللہ ہم حصار خوف سے جلد نکلنے والے ہیں۔اس میں کسی کا بھی کوئی کمال نہیں۔ وقت ہی ایک مرہم ہے اور قدرت خوف کا تدارک بھی انسان کے اندر پیدا کر دیتی ہے۔ بس حوصلہ اور صبر اور اللہ سے مدد کی طلب۔ سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔کسی نے کہا تھا: کوئی تو ہے جو مرے دکھ سمیٹ لیتا ہے مگر وہ کون ہے اس کو میں جانتا بھی نہیں حکومت کی دشمنی تو اپنی جگہ ہم خود بھی اپنے دشمن ہیں۔ لوٹ مار اور منافع خوری کا کوئی موقع ہم بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ ہمیں یہ بھی احساس نہیں رہتا کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے ایک انا اور ہٹ دھرمی کہ دھڑے بندی کا شکار ہو گئے۔ ہر غلط کام کا دفاع کرنا فرض جانتے ہیں اسی چیز نے ہمیں برباد کیا کہ ہم اپنے حکمرانوں کا احتساب نہ کر سکے سب سے اہم بات یہ کہ سزا کسی کو نہیں ملتی۔ اگر ملتی ہے تو عوام کو۔ آٹا اور چینی سے اربوں بنانے والے اور ذلت اٹھانے والے عوام نئے پاکستان والوں میں یہ خوبی کہ سکینڈل پہ رپورٹ سامنے لے آئے بہت دکھ ہوتا ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی سوشل میڈیا پر اپنا حال بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہو جاتے ہیں بے روزگاری نے کہاں کہاں بربادی پھیلا دی ہے۔ ہائے ہائے اپنا دوست اعجاز احمد یاد آیا: مرے بالوں میں چاندی آ گئی ہے تری زلفوں کا سونا کیا کروں میں تمہاری دیانتداری کو بھوک سے مرنے والے کیا کریں۔ پھر یہ دیانتداری بھی صرف دشمنوں کے لئے ہے ۔اپنی اے ٹی ایم مشینوں کے لئے نہیں۔ پیٹ میں کچھ نہ ہو تو آنکھوں میں اندھیرا چھا جاتا ہے‘ وہ باہر کی برکھا کو کیا کرے گا جس کی جھگی ٹپک رہی ہے اور بارش جس کے دل پر ہو رہی ہے۔ معاملات کسی اور ہی نہج پر جا رہے ہیں مگر سوچ جواب دے جاتی ہے کہ مزید کیا کسر رہ گئی ہے۔ نوجوانوں کے لئے کہکشاں اتار کر لانے والا ان کی راہیں تاریک کر چکا ہے اور پھر مذاق کہ ٹائیگر فورس‘کونسی ٹائیگر فورس؟سب سے زیادہ پریشانی نوجوانوں کے تعلیمی مستقبل کی ہے۔ کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ بس بارش برستی دیکھیں اور جل تھل زمین: اس نے کہا نہ کون؟ میں نے کہا کہ میں کھول یہ بھاری دروازہ‘ مجھ کو اندر آنے دو اس کے بعد اک لمبی چپ اور تیز ہوا کا شعور