میں جس کمرے میں بیٹھا یہ سطریں لکھتا ہوں وہاں جنوبی دیوار کے ساتھ کتابوں کی شیلف تلے ایک براؤن رنگ کا صوفہ پڑا ہے۔ اس کی پشت پر براؤن رنگ کی ایک جانماز تہ کی رکھی ہے اور اس کے اوپر ایک ہرے اور گلابی پرنٹ والا دوپٹہ۔ جانماز اور دوپٹہ کل رات سے یہیں پڑے ہیں۔ شبِ گذشتہ، دس بجے سے کچھ وقت اوپر تھا جب زہرا نے عشا پڑھ کے یہ جانماز اور دوپٹہ یہاں ڈال دئیے تھے۔ ہمارے گھر میں زہرا جیسا پکا نمازی اور کوئی نہیں۔ بہت سال پہلے شاید آٹھویں کے امتحان تھے جب اس نے نماز شروع کی۔ امتحانوں میں ہم سب ہی نمازوں پر لگ جایا کرتے ہیں اور پھر امتحان ختم تو نماز بھی ختم لیکن زہرا کا مؤقف یہ ہے کہ اللہ میاں کہیں گے کہ غرض ہوتی ہے تو آجاتی ہے اور کام نکلتے ہی نماز بھول جاتی ہے۔ وہ کہتی ہے میں مطلب پرست نہیں بننا چاہتی۔ خیر! زہرا کی وجہ سے میں کچھ غفلت نما آرام کا اسیر رہتا ہوں۔ رواں پیراگراف کے اس پہلے جملے کے اجمال کی تفصیل کے لئے آپ کو میرے ساتھ تھوڑا پیچھے جانا ہوگا۔ ایک زمانہ تھا جب میں شدت پسند قسم کا مذہبی ہوا کرتا تھا۔ جس گھرانے میں پیدا ہوا، اس مکتبہ فکر کا شدید حامی اور دیگر کا مخالف۔ پھر کچھ کتابیں مطالعہ میں آئیں اور کچھ صاحبانِ علم کی مجالس سے استفادہ کیا تو شدت پسندی کی برف پگھلتی چلی گئی۔ مجھ پریہ کھلا کہ ہاتھ زیرِ ناف باندھے جائیں، ناف پہ، سینے پر یا سرے سے باندھے ہی نہ جائیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ فرق پڑتا ہے تو نیت سے۔ نیت میں اخلاص اور محبت نہیں تو سب بیکار۔ احادیث کے سب سے بڑے مجموعہ کی پہلی حدیث جسے جناب عمر فاروق ؓ نے روایت کیا ہے، بتاتی ہے کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے نہ کہ ان فروعی ظاہری معاملات پر۔ میں نے یہ بھی جانا کہ عبادات تو بندے اور رب کا آپسی معاملہ ہے۔ بندہ جس طور بھی رب سے اپنی محبت اور بندگی کا اظہار کرے ٹھیک ہے۔ اب میں پہلے جیسا کٹر نہیں رہا۔گناہ و ثواب کے تصورات بدل گئے ہیں۔ آپ مجھے لبرلز کے معروف عوامی معنوں کے قریب قریب شمار کر سکتے ہیں تاہم کچھ تصورات کی جڑیں میرے اندر اتنی گہری ہیں کہ عقیدے کی حیثیت اختیار کر گئی ہیں۔ یہاں ایک کا ذکر کرنا مقصود ہے۔ یادش بخیر! بہت چھوٹا سا تھا جب سویرے میری آنکھ اباجی کی تلاوت کی آواز سے کھلا کرتی تھی۔ اباجی صبح نماز کے بعد باآوازِ بلند قرآن پڑھا کرتے تھے۔ آج بھی ایسے ہی پڑھتے ہیں۔ میں خاصا بڑا ہوجانے تک اباجی کے ساتھ سویا کرتا تھا۔ سو‘ جاڑے ہوں یا گرمیاں سویر تلاوت کی آواز سے ہوتی۔ اٹھتا تو ماں کو بھی جانماز پر پاتا۔ ان سویروں کو گزرے بہت سارے سال ہوگئے ہیں۔ اباجی کے ساتھ سونے والا چھوٹا سا لڑکا ادھیڑ عمر ہوگیا ہے اور بائیس تئیس برس سے ایک گھرانے کا سربراہ۔ قوٰی کو دھیرے دھیرے اضمحلال کا زنگ لگنے لگا ہے۔ تاہم اس لڑکے کی یادوں میں وہ سویریں تازہ ہیں جو طیور کی چہچہاہٹ کے سازینے پر آیاتِ ربانی کے نغموں سے سماعتوں کو منور کرتی ہوئی طلوع ہوتی تھیں۔ یہ خیال دل کے نہاں خانوں میں کہیں بہت پختہ ہے کہ وہ بھی کوئی گھر ہے جہاں دن کا آغاز خالق کے نام اور ذکر سے نہ ہو۔ میں کوئی بہت پکا نمازی نہیں ہوں تاہم کوشش کرتا ہوں کہ گھر کی چاردیواری میں اللہ رسول کے نام والی چار رکعت نماز سے دن کا آغاز ہو۔ اپنی اس کوشش میں اکثر ناکام رہ جاتا ہوں تو ایک احساسِ جرم کچھ دیر کو گھیر لیتا ہے۔ اباجی کی سربراہی میں ہم جس گھر کے مکین تھے وہاں ان کے دم قدم سے صبح دَم قرآن کی آیات گونجتی تھیں۔اب گھر کا سربراہ ہونے کے ناطے یہ میرا فرض بنتا ہے کہ دن کا آغاز نماز سے ہو۔ اب ہم اسی اجمال کو لوٹ چلتے ہیں جس کی تفسیر کو یہ سارا پس منظر عرض کیا گیا۔ میں نے بتایا کہ زہرا ماشاء اللہ سبھی نمازیں پڑھتی ہے۔ ہمارے ماسٹر بیڈ روم میں میرے بستر کے بالیں جانب کپڑوں والی الماریوں کے سامنے ڈریسنگ کی کھلی سی جگہ ہے۔ صبح اکثر آنکھ کھلتی ہے تو اس جگہ زہرا نماز پڑھ رہی ہوتی ہے۔ میں کروٹ بدل کے پھر نیند کے گھاٹ اتر جاتا ہو ں کہ چلو دن کا آغاز تو اللہ کے نام سے ہورہا ہے نا۔میں نہ سہی زہرا سہی۔ تین ہفتے ہوتے ہیں، اب صبح میری آنکھ کھلتی ہے تو میرے سرہانے کی طرف ڈریسنگ والی جگہ خالی پڑی ہوتی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ دور، تقریباً چھ سو کلومیٹر پرے مارگلہ کے دامنوں میں میری بیٹی زہرا نماز پڑھتی ہوگی۔مارگلہ کی سر سبز پہاڑیاں اس کی سجدوں کی گواہ بنتی ہوں گی۔ لیکن یہاں ملتان کی اس چاردیواری میں، اس چھت تلے اب مجھے ہی رب کے نام سے دن کا آغاز کرنا ہوگا۔ابھی جمعرات کے دن زہرا تین دن کے لئے ملنے آئی تھی۔ہم بہت اداس ہوگئے تھے۔ اتوار تک رہی۔ تین سویریں میں خوب مزے سے سویا۔ اتوار کی شب ساڑھے گیارہ بجے وہ واپس چلی گئی۔ یہ سامنے رکھی جائے نماز اور دوپٹہ اب اگلے تین ہفتے اس کا انتظار کرتا رہے گا۔ میں کوشش کروں گا کہ اس دوران اس گھر کی فضائیں رکوع و سجود کے مناظر دیکھ بیدار ہوں۔ شائد اس سے میرے عمل پر بھی مثبت اثرات پڑیں اور دن بھر خدا کی جس مخلوق کا مجھ سے پالا پڑتا ہے، میں اس سے حسنِ سلوک کرسکوں۔ میرا خیال ہے مقبول عبادت وہی ہے جو انسانوں کے ساتھ آپ کے معاملات میں بہتری لاسکے۔ ٭٭٭٭٭